یہ عجیب لاک ڈائون ہے

367

پورے ملک کے ساتھ کراچی میں بھی اسمارٹ لاک ڈاؤن جاری ہے ۔یہ اسمارٹ لاک ڈاؤن بھی عجیب و غریب نوعیت کا ہے کہ علاقے میں ہر قسم کی معاشی سرگرمی پر سخت پابندی ہے مگر افراد کے گھلنے ملنے یا نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ کورونا کیا صرف معاشی سرگرمیوں ہی سے پھیلتا ہے جو اس پر انتہائی سختی ہے ۔ کراچی کے کسی بھی علاقے میں جہاں پر اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پر علاقے بند کیے گئے ہیں ، یکساں صورتحال ہے ۔ لوگ آزادانہ حرکت کررہے ہیں ، وہ خود بھی اپنے رشتہ داروں کے ہاں جارہے ہیں اور ان کے رشتہ دار بھی آ رہے ہیں ۔ اسی طرح ان علاقوں میں رہنے والے سب ہی لوگ اپنے کام کاج پر بھی علاقے سے باہر جارہے ہیں اور روز واپس بھی آتے ہیں ۔ انتظامیہ میں کوئی یہ بتانے پر تیار نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن کس مقصد کے لیے کیا گیا ہے ۔ اگر لاک ڈاؤن اس مقصد کے لیے کیا گیا ہے کہ چنیدہ علاقوں میں کورونا کے مریضوں کی اکثریت ہے اور انہیں 14 دن تک نقل و حرکت سے روکنا ہے تاکہ یہ مرض دیگر علاقوں میں نہ پھیل سکے تو پھر اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ انتظامیہ یکسر ناکام ہوچکی ہے کیوں کہ ان علاقوں کے افراد کی آزادانہ نقل و حرکت کو نہ صرف ان علاقوں کی اندرونی گلیوں میں بلکہ پورے شہر میں گھومنے سے انتظامیہ نے روکنے کا کوئی موثر قدم ہی نہیں اٹھایا ہے ۔ البتہ ان علاقوں کی دکانوں اور کارخانوں پر سختی سے اس لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا ہے ۔ اس پوری صورتحال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید حکومت کو صرف معاشی سرگرمیوں کو روکنے سے دلچسپی ہے ۔ اگر حکومت کو کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے سے کوئی دلچسپی ہوتی تو 22 مارچ کو جب پہلے لاک ڈاؤن کا اہتمام کیا گیا تھا ، اسی دن اس کا موثر نفاذ کرلیا جاتا ۔ اس وقت شہری بھی اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے کہ 14 دن کا سخت لاک ڈاؤن ہوگا اور پھر اس کے بعد زندگی معمول پر آجائے گی ۔ اُس وقت بھی انتظامیہ نے کسی بھی مقام پر شہریوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور شہری آزادانہ طور پر پورے شہر میں گھومتے رہے ۔ اُس وقت بھی سرکار کی پوری توجہ کاروبار کو بند رکھنے پر ہی رہی ۔ حکومت کی اس آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی طور پر تو شہریوں کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ شہر جو انفاق کے لیے پورے ملک میں مشہور تھا ، اب خود برے حالوں میں آگیا۔ مگر کورونا کو پھیلنے سے روکنے میں انتظامیہ ناکام ہی رہی ۔ بہتر ہوتا کہ حکومت شہریوں کو مورود الزام ٹھیرانے کے بجائے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرلے ۔بار بار کہا جارہا ہے کہ رمضان المبارک میں شہریوں نے احتیاط سے کام نہیں لیا ، عید پر اور بعد میں شہری اس طرح سے باہر نکل آئے کہ شاید وبا کا خطرہ ختم ہوگیا ہے ۔ شہری تو پوری دنیا میں وہی کام کرتے ہیںیا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کی حکومت ہدایت کرتی ہے ۔ اب حکومت بتائے کہ اس نے کس سطح پر اور کب احتیاطی تدابیر اختیار کیں اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا ۔ یہ ضرور ہوا کہ کورونا کے نام پر فنڈز کی ریل پیل ہوگئی اور ہر اُس شخص نے جس کی ذرا بھی ان فنڈز تک پہنچ تھی ، بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے ۔ پانچ سو ارب روپے کی خطیر رقم کہیں ہوا میں بھاپ بن کر اڑ گئی کہ کہیں پر بھی طبی سہولتوں میںنہ تو کوئی اضافہ ہوا اور نہ ہی نئے اسپتال وبا سے نمٹنے کے لیے قائم کیے گئے ۔حکومت کی ساری توجہ کاغذات پر قرنطینہ مراکز بنانے پر ہے ۔ کاغذات پر موجود ان گھوسٹ قرنطینہ مراکز کے نام پر اربوں روپے غائب کردیے گئے ۔اسی طرح سے کہیں پر بھی طبی عملے کو اس موذی وبا سے نمٹنے کے لیے کوئی خصوصی تربیت فراہم نہیں کی گئی ۔طبی عملے کو کورونا کے مریضوں کے سامنے اس طرح سے ڈال دیا گیا جس طرح سے کسی سپاہی کو بغیر وردی اور اسلحے کے سرحد پر دشمن فوج سے لڑنے بھیج دیا جائے ۔ کورونا سے لڑنے والے فرنٹ لائن کے ان سپاہیوں کو ماسک تک فراہم نہیں کیے گئے اور جب ان لوگوں نے حفاظتی سوٹ کے لیے مظاہرے کیے تو ان پر لاٹھی چارج کیا گیا ۔ بہتر ہوگا کہ حکومت خود یکسو ہوجائے کہ وہ چاہتی کیا ہے ۔ اگر کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کرنا ہے تو ایک ہی دفعہ طریقے سے کردیا جائے ۔ کاغذ پر لاک ڈاؤن اور زمین پر ہلّا گّلا ، اس سے صرف اور صرف ملک کی معاشی صورتحال خراب ہورہی ہے ۔ مارچ سے حکومت روز بتارہی ہے کہ آئندہ 15 دن نازک ہیں ۔ پہلے اپریل کا مہینہ خطرناک تھا ، اس کے بعد بات جون اور جولائی تک گئی اور اب اگست تک کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ اگر حالات اتنے ہی خطرناک ہیں تو حکومت بتائے کہ ان خطرناک حالات سے نمٹنے کی ذمہ داری کس کی ہے اور حکومت نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا تیاریاں کی ہیں ۔ اصولی طور پر تو وفاقی حکومت کو قومی اسمبلی میں اور صوبائی حکومتوں کو صوبائی اسمبلیوں میں ہر ہفتے بتانا چاہیے کہ کس مد میں اب تک کتنی رقم خرچ کی گئی ۔ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے کہ کورونا کے نام پر فنڈز ہوا میں تحلیل ہورہے ہیں ، پہلے سے موجود طبی سہولتیں بھی اب ناپید ہوتی جارہی ہیں اور کورونا کے نام پر معاشی تباہی پھیلادی گئی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو ملک میں اور نہ ہی صوبے میں کوئی حزب اختلاف موجود ہے جو پوچھ سکے کہ کیا ہورہا ہے اور ملک کے ساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے ۔