کورونا وائرس جس طرح ایک حقیقت ہے اسی طرح اس کا ٹیسٹ بھی ’’متنازع حقیقت‘‘ بن چکا ہے۔ پاکستانی ماہرین طب کورونا وائرس کے ٹیسٹ کو غیر ضروری قرار دے چکے۔ یہ اور بات ہے کہ چند این جی اووز سمیت بعض غیر رجسٹرڈ ڈاکٹرز اب بھی اس ٹیسٹ کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔ خیر ان حالات کے باوجود میں اس موضوع پر فی الحال مزید کچھ لکھنے سے گریز کروں گا۔ آج مجھے وفاقی اور صوبائی بجٹ کے تناظر میں ’’کراچی‘‘ کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ کراچی کے ساتھ مسلسل کی جانے والی زیادتیاں اب ’’کورونا وائرس‘‘ کی طرح ملک کے اس سب سے بڑے شہر کو جکڑ چکی ہیں۔ کراچی اور یہاں لوگوں کے حقوق کی دعویدار متحدہ قومی موومنٹ حکومت میں رہتے ہوئے ہمیشہ کی طرح وہی کردار ادا کررہی ہے جو ماضی میں کرتی رہی لیکن ان دنوں تو ایم کیو ایم اور اس کے رہنما شاید اپنی سیاسی زندگی کے آخری ایام گزار رہے ہیں کم ازکم ان کے ’’سیاسی حالات‘‘ سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بجٹ دستاویزات میں کراچی کے لیے بلین اور ملین رقوم مختص کی ہے بالکل اسی طرح جیسے وہ ماضی رکھتی رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ دونوں حکومتوں نے ملک کے اس سب سے بڑے شہر کراچی کے لیے کسی نئے منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔ اس شہر کو ’’دودھ دینے والی گائے‘‘ سمجھنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نظر میں کراچی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ ان کی نظر میں شاید کراچی کے مسائل پر توجہ دینا ’’پرابلم کریٹ‘‘ کرنے (Creation of problem) کے مساوی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق کی پی ٹی ائی اور سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت اس شہر سے سب کچھ لینے نہیں ’’چھین‘‘ لینے کے باوجود کچھ بھی واپس دینا نہیں چاہتی۔
اگر تحریک انصاف کی حکومت کراچی سے مخلص ہوتی تو یہ اپنے کراچی کے اراکین قومی اسمبلی کو فی کس 22 کروڑ روپے دیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے کراچی کے اپنے لوگوں کو 3 ارب 8 کروڑ روپے براہ راست ادا کردیے۔ وفاقی حکومت کی اس فراخ دلی پر جماعت اسلامی کراچی کے مقامی رہنما اور بلدیہ عظمیٰ کی کونسل کے اپوزیشن کے رہنما جنید مکاتی کا کہنا ہے کہ ’’وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے تو یہ تھا کہ کراچی لیے کوئی اچھا پروجیکٹ لاتے، کوئی ٹرانسپورٹ کا منصوبہ لاتے، فلائی اوور کا پروجیکٹ لاتے مگر ایسا نہیں کیا گیا‘‘۔ نتیجے میں ان کے ایم این اے نے تین ماہ قبل یوسی میں بنائی گئی سڑک اور سیوریج لائن کو اکھاڑ دیا ’’جنید مکاتی نے کہا کہ وفاقی نے بطور رشوت اپنے ایم این ایز کو رقم دی‘‘۔
اطلاعات ہیں کہ وزیرِاعظم عمران خان کی ہدایت پر میئر کراچی کو ایک ارب روپے بھی ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری کیے گئے ہیں جو گورنر کے ذریعے کے ایم سی اکاؤنٹ میں منتقل ہوں گے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس معاملے کو ریکارڈ پر کیوں نہیں لایا جارہا۔ ویسے بھی کراچی یا کے ایم سی کے ترقیاتی منصوبے کے لیے ایک ارب روپے کی رقم ’’رائی‘‘ کے برابر ہے۔ لیکن اگر یہ بھی رقم بطور رشوت متحدہ کو خاموش کرنے کے لیے دی گئی تو افسوسناک امر ہے۔
اب بات کرتے ہیں صوبائی حکومت کے بجٹ برائے سال 2020 اور 21 کی۔ یہ بجٹ 12 سو 43 ارب کا ہے۔ یہ بجٹ سندھ حکومت اس لیے تیار کرسکی کہ اس بجٹ کے لیے کل آمدنی کا 92 تا 95 ارب روپے کراچی کما کر دیا کرتا ہے۔ اس قدر کراچی سے آمدنی حاصل کرنے کے باوجود اس شہر کے لیے حکومت سندھ نے کوئی نیا ترقیاتی منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی موجودہ صوبائی حکومت نے کراچی کے ساتھ ناانصافی کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ صوبائی حکومت کراچی کے ساتھ یہی نہیں کیا بلکہ کراچی کے جاری ترقیاتی منصوبوں کے فور، ایس تھری اور کمبائند ایفولینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس کے منصوبوں کے لیے وفاق کی جانب سے جاری کی جانے والی رقوم کو مبینہ طور دیگر پروجیکٹ کے لیے خلاف قانون استعمال کررہی ہے۔ جبکہ مذکورہ تینوں منصوبے مختلف وجوہات کی بنا پر تعطل کا شکار ہیں۔
سندھ کے نئے مالی سال کے بجٹ کے مطابق مختلف ٹیکسوں سے سندھ کو 235 ارب روپے کی خالص آمدنی ہوگی جس میں سے 210 ارب روپے یعنی نوے فی صد آمدنی کراچی سے حاصل کی گئی ہے۔ یہ آمدنی سندھ حکومت کراچی سے حاصل ہونے والے سیلز، پراپرٹی، موٹر وہیکل، ایکسائز و اسٹیمپ ڈیوٹی اور دیگر مدات میں حاصل کی ہے۔
وفاقی حکومت بھی کراچی سے آکٹرائے ٹیکس کی مد میں بڑا حصہ ہضم کرجاتی ہے۔ انکم ٹیکس انرجی اور فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکسز کا بڑا حصہ بھی وفاق کو کراچی ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کراچی کو وہ حصہ بھی واپس نہیں کرتی جو چاروں صوبوں کے لوگوں کو روزگار، رہائش تعلیم اور صحت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے کراچی خرچ کیا کرتا ہے۔ کراچی شاید دنیا کا وہ واحد میٹروپولیٹن سٹی ہے جو بغیر ٹیکس کے دیگر شہروں کے لوگوں کو کراچی میں قیام اور دیگر سہولت مفت میں فراہم کرتا ہے۔
کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’’اس شہرمیں مسائل کا سبب بننے والے کون ہیں؟‘‘۔ یہ لوگ رہتے پڑھتے اور ملازمتیں کرتے تو کراچی میں ہیں لیکن وہ کراچی کے نہیں ہیں، ان ووٹ کراچی میں نہیں ہیں، ان کا ڈومیسائل بھی کراچی کا نہیں اور ان کے پاس پرمننٹ ریزیڈنٹ سرٹیفیکٹ (پی ار سی) بھی کراچی کا نہیں ہوتا۔ کراچی وہ دکھی شہر ہے جو دکھ کے باوجود سب کو اپنی زمین پر جگہ فراہم کرتا ہے مگر یہ سب کراچی کو فائدہ پہنچانے کے وقت یہاں سے منہ موڑ کر اپنے آبائی علاقوں کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ ان تمام کے کم ازکم ووٹ تو کراچی منتقل ہونے چاہیے کیونکہ یہ اس بڑے شہر پر بلاشبہ ایک بوجھ ہے۔ آج اگر اس شہر کا نظام وفاق یا آرمی کے حوالے کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے تو اس کی وجوہات یہی زیادتیاں یا حق تلفی ہیں۔ جو روز بروز برھتی جارہی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کسی بھی وقت صورتحال پورے ملک کے لیے بھی خراب ہوسکتی ہے۔ ایک بار پھر تجویز ہے کہ کراچی کے باہر رہائشی اور ڈومیسائل رکھنے والوں پر ’’آوٹر سٹی ٹیکس‘‘ متعارف کراکر ٹیکس لیا جائے اور اس ٹیکس کا نفاذ تمام شہروں اور ڈسٹرکٹ میں کردیا جائے اور ان ٹیکسوں کی وصولی کا اختیار متعلقہ بلدیاتی اداروں کے سپرد کیا جائے۔