طریقہ ابراہیمیؑ۔۔۔ ذہنی و جسمانی صحت

150

ڈاکٹر خالد مشتاق

حضرت ابراہیم ؑ کی سنت‘ قربانی کو سب جانتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر لاکھوں‘ کروڑوں جانور سنتِ ابراہیمی ؑ کے فرض کو انجام دینے کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں۔ امیر‘ غریب سب ان کا گوشت کھاتے ہیں اسی مہینے حج بھی ادا کیا جاتا ہے۔
قربانی اور حج کرنے والے وہی افراد ہوتے ہیں جو اتنا سرمایہ رکھتے ہوں کہ قربانی کرسکیں۔ حج کے اخراجات اُٹھا سکیں۔ یہ تو سال کے 10 دن کا معاملہ ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:
کیا ابراہیم علیہ السلام کی سنت‘ عام غریب آدمی نہیں ادا کرسکتا؟
کیا ابراہیم علیہ السلام کی سنت صرف ذوالحج کے دنوں میں ادا کی جاسکتی ہے اور امیر فرد عمرہ کرسکتا ہے۔ سال کے دیگر دنوں میں کیا کرے؟
ایک جواب تو یہ ہے کہ ہم ہر نماز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجتے ہیں۔ یہ کام ہر غریب اور امیر مسلمان کر رہا ہے لیکن یہ قولی عمل ہے۔ ہم زبان سے درود شریف پڑھتے ہیں‘ ہر نماز میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہوتا ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ ہم عملی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت روزانہ کیسے ادا کریں؟
اللہ تعالیٰ نے نبیؐ سے بھی فرمایا ’’طریقۂ ابراہیمیؑ کی پیروی کرو۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام کا نام ہمیں ہر اسپتال میں ملتا ہے۔ آپ کا قول مبارک قرآن مجید میں محفوظ ہے ’’واذ مرضت فھو یشفین‘‘ (جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔)
اکثر ڈاکٹروں کے لیٹر پیڈز پر بھی یہی لکھا ہوتا ہے۔ میڈیکل سائنس کی بنیاد ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کے مطابق ترتیب دی گئی ہے۔ اگر ہم دنیا کے‘ معاشرے کا مشاہدہ کریں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں اقسام کی مشینیں موجود ہیں‘ گاڑیاں‘ موٹر سائیکل‘ ٹرک‘ جہاز‘ کارخانوں میں مختلف طرح کی مشینیں‘ کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ‘ مصنوعی سیارے‘ انسان اپنی آسانی کے لیے ہمیشہ سے مشینیں بناتا رہا ہے۔ یہ مشینیں جب چلتی ہیں تو ان میں خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں‘ ہر مشین بنانے والا فرد/کمپنی اس کی ساخت بناتا ہے اور اس کے بعد ممکنہ خرابیاں اور ان خرابیوں سے بچنے کے طریقے بتاتا ہے۔
انسانی جسم دنیا میں پائی جانے والی مشینوں میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور منفرد مشین ہے۔
-1 کیوں کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور جتنے بھی افراد پیدا ہوتے ہیں ان کا خالق اللہ ہی ہے۔
-2 انسان میں جذبات و احساسات‘ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی گئی ہے۔ دنیا کی کسی مشین میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔
-3 دنیا میں ایک کمپنی کی تمام مشینیں ماڈل کے حساب سے یکساں ہوتی ہیں ایک جیسی نظر آتی ہیں لیکن انسانوں کی شکل و صورت‘ جسم کی ساخت‘ قد‘ وزن‘ بولنے‘ بات سمجھنے‘ محسوس کرنے کی صلاحیتیں سب چیزیں ہر انسان کی الگ الگ ہوتی ہیں۔
اس پیچیدہ ساخت کے انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑا رحم کیا اور اپنی کتاب میں انسانی ساخت سے متعلق آیات نازل کیں۔ حقیقت یہ ہے:
* اگر بنیادی ساخت‘ بننے کا عمل معلوم ہو تو ہونے والی خرابیوں کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔
* انسان کو بیماریوں سے بچانے کے طریقے بتائے گئے خاص طور پر اعصابی‘ نفسیاتی‘ معاشرتی صحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے ذریعے انسان کی رہنمائی کی۔
حضرات ابراہیم علیہ السلام وہ ہستی ہیں جنہیں مسلمان‘ یہودی‘ عیسائی سب اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں بلکہ ہندو بھی ابراہیم علیہ السلام سے نسبت ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ قرآن کے علاوہ بائبل‘ زبور‘ توریت اور ہندوؤں کی گیتا میں بھی ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔
دنیا میں طریقۂ ابراہیمی ہی انسانی صحت کو بہتر کرنے کا مفید ترین نسخہ ہے۔
اس تحریر کے ذریعے ہم ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے کیسے پرسکون‘ صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں‘ اس کو روز مرہ کی مختلف عملی زندگی کی مثالوں اور مشاہدات و واقعات سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق فرمایا گیا ’’آپ کو حکم دیا کہ ابراہیم کی پیروی کرو جو یکسو تھا۔‘‘
’’ابراہیم نے اللہ سے آنکھوں سے دیکھ کر مشاہداتی علم کی درخواست کی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کی یہ درخواست قبول کی اور ستارے‘ چاند‘ سورج کے طلوع‘ غروب ہونے کو Observe کرایا۔
پھر پیدائش‘ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو Observe کرایا۔ اس طرح سائنسی بنیادوں پر ابراہیم علیہ السلام نے ریسرچ کی اور پھر قوم سے اپنے تجربات بیان کیے۔ قرآن نے ابراہیم کا طریقہ بتایا اور اسی طریقے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو کرنے کا حکم دیا۔
ریسرچ بنیاد ہے طریقۂ ابراہیمی ؑ کی:
انسانی فطرت ہے کہ جب اسے کوئی بات بتائی جائے تو وہ قبول نہیں کرتا جب تک وہ ذہنی طور پر اس پر 100 فیصد یکسو نہ ہوجائے۔ اگر انسان یکسو ہوجائے تو وہ کام کرتے ہوئے ذہنی و جسمانی سکون حاصل کرتا ہے۔ اس طرح کام بھی اچھے طریقے سے ہوجاتا ہے۔ ریسرچ کرنا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی معلومات کو علم کہتے ہیں۔ ابراہیمؑ کو اللہ نے جو مرتبہ عطا کیا وہ دنیا میں کسی اور کو نہیں ہوا۔ ہم ہر نماز میں اس مرتبے کو تسلیم کرتے ہیں (درود شریف) پڑھ کر ’’ جیسا کہ سلامتی دی ابراہیم ؑ کو اور ان کی آل کو۔ جیسے برکتیں عطا کی گئیں ابراہیم اور ان کی اولاد کو۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ جب زیادہ علم والے کی بات آجائے تو پھر اس پر سوال نہیں کرنا ہے صرف اطاعت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے‘ معبود ہے‘ دنیا کی تمام چیزوں کا بانی ہے۔ وہی ہے جس نے ماں باپ کے دل میں اولاد کی اور اولاد کے دل میں ماں باپ کی محبت ڈالی۔ اگر اس کا حکم آجائے کہ قربان کردو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال نہیں کیا کیوں۔ نہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کیوں؟ کیسے؟ عجیب بات ہے؟ ان کے لیے یہ کافی تھا کہ زیادہ علم والے رب العالمین کا حکم ہے ان کے بیٹے نے بھی باپ کے علم کے بعد کوئی سوال نہیں کیا۔ قربانی قرب‘ قریب ہونے سے نکلا ہے۔ دنیا میں انسانوں کی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بڑے علم والے کی بات کوتسلیم کرلیں۔
اپنے ذہن کے الٹے سیدھے سوالات کو کم کرنے‘ اپنی رائے کو بڑے علم والے کی رائے کے سامنے ختم کرنے کی تربیت قربانی سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے کی اس دُعا کو تسلیم کرکے اس پر مہر لگا دی کہ یہ کامیاب ترین طریقہ ہے‘ اس لیے اس کو تاقیامت جاری کر دیا۔ اربوں جانور اب تک قربان کیے جا چکے ہیں ہرسال اس طریقے کی پریکٹس کی جاتی ہے۔
اگلی تحریر میں آئندہ واقعات کے حوالے سے طریقۂ ابراہیمی کو ہم عملی زندگی میں کیسے پریکٹیس کریں تاکہ ہماری ذہنی و اعصابی صحت میں بہتری آسکے۔ (جاری ہے)