بلریا گنج کے حکیم جی

389

چند روز قبل ’’تذکرہ حکیم محمد ایوب‘‘ کے نام سے ایک کتاب برادرم سالم سلیم کے توسط سے موصول ہوئی۔ جو حکیم جی (مرحوم) کے نواسے ڈاکٹر صباح الدین اعظمیٰ کی تالیف ہے۔ آپ کا مشرقی ہند کے مشہور مقام اعظم گڑھ سے تعلق ہے۔ ہندوستان کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عربی ادب اور علوم دینیۃ میں فضیلت کی سند حاصل کی۔ بعد میں مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اکونامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ امارات کی ایک اہم جامعہ میں تدریسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ فاضل مؤلف نے زیرِ نظر بلند پایہ تالیف میں حکیم جی کی زندگی کے اہم واقعات کو سمیٹ لیا ہے۔ اس ’’بندۂ مومن اور مردِ مجاہد‘‘ کا تعارف اور تذکرہ ہے، جس کے مطالعہ کے وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے بارانِ رحمت کا نزول ہو رہا ہے کتاب پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا اور جذبات سے مغلوب ہو گیا۔
مجددِ دوراں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اسلام کو علم کے ذریعے کردار میں ڈھالا اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ حکیم محمد ایوب رحمتہ اللہ اسی تحریک کے ایک متحرک کارکن تھے ۔آپ کی پیدائش 1924ء میں ضلع اعظم گڑھ کے ایک مشہور قصبہ بلریاگنج میں ہوئی۔ ہندوستان کی مشہور و معروف دینی درسگاہ ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی، بعدازاں منبع الطب کالج لکھنؤ سے طب کی سند لی۔ حکیم جی نے خدمت کے جذبے سے اپنا طبی سفر شروع کیا جو لگ بھگ چھ دہائیوں پر محیط رہا۔ حکیم جی نوجوانی کے ایام میں جمعیت علمائے ہند سے متاثرتھے، بعد میں وہ جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوگئے اور تاحیات اس کے فعال رکن رہے۔ جماعت کی مختلف کمیٹیوں کے ممبر رہے، جامعہ الفلاح، بلریا گنج اعظم گڑھ کے سرپرست رہے۔ حکیم جی 2004ء میں ایک تابناک اور مثالی زندگی گزار کر اپنے حقیقی مولیٰ کی طرف ہمیشہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ انہوں نے زندگی تحریک اسلامی کی دعوت اور پیغام کے ابلاغ و اشاعت میں بہت ہی انہماک سے بسر کی، جس کے لیے انہیں کئی مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن بڑی حوصلہ مندی اور ہمت کے ساتھ انہواں نے تمام مشکلات کا بھر پور مقابلہ کرتے ہوئے، تحریک اسلامی سے اپنی وابستگی میں کوئی آنچ نہ آنے دی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، تحریک اسلامی سے اُن کی وابستگی مزید مستحکم ہوتی گئی اور اقامت دین کا نصب العین اُن کا وظیفۂ حیات بن گیا اور اُٹھتے بیٹھتے، ہر وقت انہیں یہ فکر دامن گیر رہتی کہ کسی طرح اقامت دین کے اس عظیم ترین نصیب العین کی خدمت کی جائے اور اس کے لیے ساز گار ماحول پیدا کیا جائے۔ یہی اُن کی زندگی کی حقیقی تمنا تھی اور وہ ہر وقت اسی دھن میں مگن رہتے کہ کس طرح مسلمانوں کو بیدار کر کے اس نصب العین کی جدوجہد کے لیے متحد و متفق کیا جائے۔
تحریک اسلامی کے اس بے لوث جانثار نے اس دور میں یہ شمع روشن کی، جب اُمتِ مسلمہ تہذیبی بحران کا شکار ہے۔ اخلاقی لحاظ سے ہم مغربیت میں رنگے جارہے ہیں اباحیت، تجدد اور لادینی افکار و نظریات ہم پر یلغار کیے ہوئے ہیں۔ قدرتی وسائل اور بے پناہ انسانی قوت کے باوجود مسلم دنیا ہلاکت و غربت سے پیچھا نہیں چھڑا سکی۔ غربت و افلاس کا علاج مختلف ’’ازموں‘‘ کو اپنا کر ڈھونڈا جا رہا ہے مگر امتِ مسلمہ کی زندگی سنورنے کے بجائے مزید بگڑتی جارہی ہے۔ سیاسی طور پر اسلامی ممالک مغربی جمہوریت کے دام میں پھنسے ہیں یا آمریت کے نرغے میں ہیں۔ سماجی طور پر اسلامی اقدار آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں جب امتِ مسلمہ ایک مہیب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ اس کے احیاء اور رُو بہ ترقی ہونے کے لئے کوئی نسخہ تجویز کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ہم خالقِ کائنات کے فرمان کو آویزہ گوش بنائیں اور اپنی سوچ فکر او عمل کو اس پر مرکوز کر دیں۔
لَقَد کانَ لَکْم فیھِم أْسوَۃُ حَسَنَۃُ
سورۃ الممتحنۃ
نبی اکرم ﷺ بلا ریب زندگی کے ہر میدان میں اسوۂ کامل ہیں۔ انہوں نے انسان کی دنیوی و اخروی زندگی کی فلاح کے لئے جو پیغام پیش کیا اسے عملی جامہ پہنا کر واضح کر دیا کہ یہی آبِ حیات ہے اور جاہلیت (قدیمہ و جدیدہ) کو اپنا کر انسان سکھ اور آرام کا سانس نہیں لے سکتا۔ خوش نصیب اور قابلِ صد مبارک باد ہیں وہ لوگ جو یہ جوت جگانے میں منہمک ہیں۔ حکیم جی ہمیشہ راضی برضا نظر آئے، صبر وتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے اور کسی سطح پر بھی احتجاج اور آزار کا پہلو دیکھنے میں نہ آیا۔ ایک شخص زندگی کے آخری لمحے تک صبر ورضاکا پیکر رہے تو اسے کیا نام دیا جائے اور شخصیت کے اس دریا کو کس کوزے میں بند کیا جائے۔ انسانی سطح پر یہ کردار اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات پر گہرا ایمان رکھنے ، اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنے اور اسی سے خیر وصلے کی بھرپور توقع رکھنے والے کا ہی ہوسکتا ہے۔ غرض حکیم جی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، اپنی سوچ اور فکر میں تحریک اور انقلاب تھے اور اپنے عمل اور جستجو میں بامقصد اور باعمل تھے۔ ایک پورا دفتر ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بیان کرنے کے لئے کھولا جا سکتا ہے۔ انفرادی سطح پرخوشہ چینی اور ان سے سیکھنے کے ان گنت حوالے موجود ہیں اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ
’’بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘
میں ڈاکٹر صباح الدین اعظمیٰ کو اس عمدہ کتاب کی تالیف پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اوردعا گو ہوں کہ اللہ پاک آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے ۔ آمین
کتاب سے ’’اقامت دین کی راہ‘‘ کا حصہ ملاحظہ فرمائیے ۔
گزشتہ صدی کے نصب آخر کی شروعات۔۔۔! ابا کی عمر یہی کوئی تیس سال کے آس پاس۔ بڑی ہی مستعدی اور جانفشانی سے اپنے طبّی تجربات میں مشغول تھے۔ جوانی کے ایام، نیا جوش، نیا ولولہ، بے فکری کے دن، سماجی سرگرمیاں، دوست احباب کی مجلسیں! یافت بھی اچھی تھی۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ لیکن دفعتاً سب کچھ تبدیل ہوگیا۔
قریبی گاؤں کے ایک سادہ سے بزرگ ایک جھولے میں تحریک اسلامی کا لٹریچر لئے سائیکل پر نکلتے۔ کچی سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ جاتے اور اپنی انتھک محنت سے خلق خدا کو دین کا پیغام پہنچانے کی سعی کرتے۔ جنید باباؒ کے نام سے معروف یہ بزرگ شاید اس علاقے کے لئے خضرراہ تھے۔ ابا کسی کام سے جارہے تھے۔ راستے میں یہ مل گئے۔ کیا باتیں ہوئیں، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو تحریک اسلامی کے کسی داعی سے پہلی مرتبہ ملتا ہے۔ کتنا متاثر ہوئے، کہنا مشکل ہے۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ اس نیک روح نے ان کے دل ودماغ میں فکر مودودی کی جوت جگا دی تھی۔ ابا کو انہوں نے تحریک کا کوئی بنیادی لٹریچر دیا۔ گمان ہے کہ ’’شہادت حق‘‘ ہوگا کہ تحریک کے سپاہی ان ایام میں مخاطب کو فکر مودودی کا اسیر کرنے کے لئے یہی کاری وار استعمال کرتے تھے۔ وہ فوراً تو قافلۂ حق میں نہیں شامل ہوئے لیکن جنید بابا کا وار کاری ثابت ہوا۔ زندگی کے معمولات بدلنے لگے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد چند احباب کے ہم راہ سائیکل سے شہر اعظم گڑھ کسی پروگرام کے تحت جانا ہوا۔ شہر پہنچ کر ساتھیوں سے کہا آپ لوگ چلئے مجھے کہیں اور جانا ہے۔ ان کے لئے یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ لیکن اندازہ کچھ ایسا تھا کہ کسی نے پوچھنے کی جرأت نہ کی کہ کہاں جانا ہے؟ کیوں ساتھ چھوڑ کر جارہے ہو؟ ساتھیوں سے الگ ہو کر سائیکل آگے بڑھائی۔ موتی کارخانے کا رخ کیا۔ جہاں اس وقت جماعت اسلامی کا مکتبہ ہوتا تھا۔ تحریکی لٹریچر خریدا اور خاموشی سے واپس چلے آئے۔ کہتے ہیں واپسی پر کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ کہاں گئے تھے۔ سب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اب راہیں جدا ہوگئی ہیں۔ اب جسے ساتھ رہنا ہے اسے اقامت دین کی راہ پر ہی چلنا ہوگا۔ چند ساتھ ہولئے۔ چند نے ہمت نہ کی۔ واقفیت سب سے رہی۔ کسی سے قطع تعلق نہیں کیا۔ لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ گزشتہ صدی کا وہ نام، جس کی تفہیم دین نے دور حاضر میں مسلم اذہان کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اسلام کا فکری وعلمی احیاء یا تجدید واحیائے دین ان کے اہم کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سید مودودیؒ نے اسلام کی دعوت کو عصری اسلوب میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلام کی ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت سے تشریح کی۔ اشراکیت، سامراجیت، مادیت کے خلاف بھرپور علمی جہاد کیا۔ فتنۂ انکار حدیث اور قادنیت کی بیخ کنی کی۔ کروڑوں نوجوانوں کو مغربی افکار وتہذیب کی مرعوبیت سے نکال کر اسلامی فکر کی راہ پر گامزن کیا۔
ابا نے مولانا مودودیؒ کا لٹریچر پڑھا تو پھر انہیں کے ہورہے۔ فکر مودودی کے کچھ ایسے اسیر ہوئے کہ تمام زندگی اس کے اثر سے نہ نکل سکے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ تحریک اسلامی میں داخل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے تحریک کو بذریعۂ فکر مودودی دریافت کیا۔ وہ قافلۂ سخت جاں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو تحریک کو اس لئے عزیز رکھتی تھی کیونکہ یہ فکر مودودی کی امین تھی۔
ابا کو فکر مودودی سے عشق تھا۔ انہوں نے بہت جلد ہی تحریک اسلامی کی باقاعدہ رکنیت اختیار کرلی اور پوری یکسوئی اور توانائی سے فکر اسلامی کی ترویج میں لگ گئے۔ وہ شعلہ بیان مقرر نہ تھے۔ بلکہ وہ سرے سے مقرر ہی نہیں تھے۔ لیکن ان کے اندر ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کبھی وسائل اور صلاحیت کی کمی کا گلہ نہیں کرتے تھے۔ میسر وسائل اور موجود صلاحیت کا بھرپور استعمال ہی ان کا شیوہ تھا۔ یہاں بھی یہی سلیقہ ان کے کام آیا۔ انہوں نے اپنے انداز میں تحریک کی دعوت کا کام شروع کیا۔ لکھتے ہیں۔
’’مجھے اپنے علمی افلاس کا پورا احساس ہے۔ مگر میں تحریک اسلامی کے ابتدائی دور میں بھی اپنی کم علمی کے باوجود اسلام کا پیغام عام کرنے کے لئے مسجدوں اور مسجدوں کے باہر بیٹھکوں میں کتابیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ اور جب بلریا گنج تحریک اسلامی کے لئے جانا پہچانا جانے لگا تو تحریک کو ختم کرنے کے لئے علماء نے ایک طرح کی یورش کردی۔ اور تحریک کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے اپنی تقریروں میں کرنے لگے۔ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات یا پھیلائی ہوئی بدگمانیوں کو میں کتاب ہی سنا سنا کر دور کرنے کی کوشش کرتا تھا۔‘‘
فکر اسلامی کی ترویج کے لئے ان کے نزدیک سب سے مؤثر ذریعہ تحریکی لٹریچر تھا۔ وہ خود پابندی سے تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کرتے اور دیگر رفقاء کو بھی مطالعہ کی ہدایت کرتے۔ گاؤں کے اندر انہوں نے اپنے ذاتی وسائل سے ایک شاندار لائبریری قائم کی تھی۔ مرکزی مکتبہ سے کثیر تعداد میں ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں تحریک کے بنیادی لٹریچر منگوا کر تقسیم کرواتے۔ مطب میں جہاں مریض دیکھتے تھے ایک لکڑی کی الماری میں دعوتی پمفلٹ قرینے سے رکھے رہتے تھے۔ مریض اپنی باری کے انتظار کے دوران ان کا مطالعہ کرتے۔ سفر کے دوران تحریک کا لٹریچر ساتھ رہتا جسے ریل گاڑی میں آس پاس کے مسافروں کو بلاتأ مل پڑھنے کے لئے دے دیتے۔ آنے والے مہمانوں کو ترجمۂ قرآن کریم اور تحریک کے بنیادی لٹریچر کا ہدیہ دینا ان کی روایت تھی۔ ہمیشہ کوشش رہی کہ ان کی اپنی اولاد، اعزہ واقارب فکر مودودی سے ناآشنا نہ رہیں۔ تمام بیٹے، بیٹیوں اور ان کی اولاد کی شادیوں کے موقع پر تفہیم القرآن کا سیٹ تحفہ میں دیا۔ کسی بھی جاننے والے کے یہاں سے شادی کا دعوت نامہ آتا تو ہدیہ میں تلخیص تفہیم القرآن کا نسخہ بھیجتے۔ مولانا مودودیؒ کا ترجمۂ قرآن کریم معہ مختصر حواشی جب پہلی مرتبہ طبع ہو کر آیا تو اس کا نہایت دیدہ زیب ڈیلکس ایڈیشن منگوا کر تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو ہدیہ کیا۔
تحریک اسلامی سے وابستگی کے بعد وہ فنافی التحریک تھے۔ انہوں نے تحریک کو ٹوٹ کر چاہا تھا۔ تحریکیں قربانی مانگتی ہیں۔ وقت کی، آرام وسکون کی، توانائیوں کی، صلاحیتوں کی، وسائل کی اور سب سے بڑھ کر مزاج کی۔ کامیابی اس وقت ملتی ہے جب قول وعمل ایک ہوجاتا ہے۔ گھر تحریک بن جاتا ہے۔ تحریکی رشتے سب رشتوں سے زیادہ عزیز ہوجاتے ہیں۔ تحریکی نصب العین زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جاتا ہے۔ انہوں نے تحریک اسلامی کو کچھ ایسے ہی برتا تھا۔ ایسے ہی سمجھا تھا۔ (جاری ہے)
ایک نمایاں سماجی شخصیت ہونے کی وجہ سے ابا کو بلریا گنج میں تحریک کا کام شروع کرنے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوئی۔ مخالفت کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ کچھ فکر مودودی کی کشش، کچھ ان کا قائدانہ کردار، چراغ سے چراغ جلتا گیا۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ یہ اس علاقے میں تحریک اسلامی کے پنپنے کے دن تھے۔ کارکنان میں ایک نیا جوش اور ولولہ تھا۔ جگہ جگہ اجتماعات ہوتے۔ ذمہ داران کی آمد ہوتی۔ آنے والے قائدین میں مولانا حبیب اللہ ملک قاسمیؒ ، سید حامد حسینؒ ، سید حامد علیؒ صاحبان جیسے بزرگ شامل تھے۔ ان نیک نفوس کی انتھک محنت اور خلوص نیت کے نتیجے میں بہت ہی قلیل مدت میں بلریا گنج اور اس کے اطراف کے مواضعات میں تحریک اسلامی کا پودا ایک تناور شجر کی صورت اختیار کرگیا۔ ابا نے بڑی ہی جانفشانی سے اس شجر کی باریابی کی۔
یہ بتانے والے بزرگ قائدین تو خلد آشیانی ہوئے کہ اس غیر معروف قریہ میں کیا کشش تھی کہ پورے ضلع اعظم گڑھ میں تحریک اسلامی کی توجہ کا خاص مرکز تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بلریا گنج تحریک کو اتنا راس آیا کہ بہت جلد ہی یہ نہ صرف اترپردیش بلکہ پورے ملک میں اس کی پہچان بن گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب تحریک اسلامی کی رہنمائی اور تعاون سے اہالیان قریہ نے قدیم مقامی مکتب کو ایک دینی درسگاہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھوٹا سا مکتب ایک عظیم الشان دانش گاہ جامعتہ الفلاح میں تبدیل ہوگیا۔
جامعہ کی تاسیس میں ابا کا کیا کردار تھا؟ اس کی تعمیر وترقی میں ان کا کیا تعاون رہا؟ اس کے طلبہ اور اساتذہ سے ان کے تعلقات کی کیا نوعیت تھی؟ ہم یہ تجزیے اوروں کے لئے چھوڑتے ہیں۔ ہمارے نزدیک زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ جامعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی اس سے کیا توقعات وابستہ تھیں؟ ابا کی گفتگو، ان کے خطوط، ان کی تحریریں گواہ ہیں کہ ان کے لئے جامعہ کے درو دیوار سے زیادہ اہم وہ مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جامعہ بحیثیت ایک ادارہ ان کو محبوب تو تھا لیکن اسے اپنا وقت، صلاحتیں اور توانائیاں دیتے وقت ان کے سامنے وہ اعلیٰ نصب العین ہوتے تھے جو تحریک اسلامی میں شامل ہوتے وقت انہوں نے اپنے سامنے رکھے تھے۔ جامعہ کا قیام ان کے نزدیک تحریک اسلامی کے نصب العین کے حصول کا ایک ذریعہ تھا نہ کہ مقصد۔ جامعہ اور اس کے متعلق اداروں سے ان کی دلچسپی کا محور بس یہی پیمانہ تھا۔ وہ ایک طویل عرصے تک جامعہ کی مجلس انتظامیہ اور عاملہ کے ممبر رہے۔ لیکن ان کے پاس کبھی بھی کوئی عہدہ نہیں رہا۔ انتظامی امور میں ان کی کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں تھی۔ لیکن اسے ان کا بھرپور تعاون ہمیشہ حاصل رہا۔
آیئے جامعتہ الفلاح سے ذرا ہٹ کر بلریا گنج میں تحریک کی سرگرمیوں کا ایک جائزہ لیں۔ ماضی کے دھند لکے سے یادوں کے جگنو چمکتے ہیں۔
***
ابا کا پرانا کھپریل مکان۔۔۔! بڑے سے آنگن میں فرش بچھا ہوا ہے۔ ایک کنارے تخت پر ایک پروقار خاتون بیٹھی درس دے رہی ہیں۔ یہ تحریک اسلامی کی مشہور شخصیت بیگم قیصر نیازی ہیں۔ کان پور سے آئی ہیں۔ پورے گاؤں سے خواتین جمع ہیں۔ سب ہمہ تن گوش۔۔۔!
***
مغرب بعد کا وقت ہے۔ گھر کے باہر صحن میں کوئی پروگرام ہونے والا ہے۔ کافی لوگ جمع ہیں۔ نیم کے درخت کے نیچے دور تک فرش بچھا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہورہا ہے۔ گیس کے ہنڈے جل رہے ہیں۔ بلریا گنج کی خوش قسمتی کہ معروف عالم دین مولانا جلیل احسن ندویؒ جامعتہ الفلاح میں استاد ہیں۔ آج ان کا درس ہونے والا ہے۔ مولانا چلنے سے معذور ہیں۔ جامعہ کے ایک استاد مولانا کو سائیکل پر لے کر آتے ہیں۔ مولانا کا درس جاری ہے۔ سیکڑوں کا مجمع خاموشی سے سن رہا ہے۔
***
تحریک کے مرکزی قائدین تشریف لائے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز صاحبؒ کی تقریر کے بہت چرچے ہیں۔ بعد نماز مغرب مطب کے صحن میں خطاب عام کا پروگرام ہے۔ اطراف کے مواضعات سے کثیر تعداد میں لوگ سننے کے لئے چلے آرہے ہیں۔ وسیع صحن تنگ پڑ جاتا ہے۔ اسٹیج کے پیچھے بڑا سا بینر لگا ہے۔ ایک خدا، ایک انسان، ایک قرآن، ایک نظام۔
***
سید حامد حسین صاحبؒ کا خطاب۔۔۔! بازار کی مسجد کے سامنے مڈل اسکول کا میدان۔ سید صاحب کا دلکش انداز بیان۔۔۔! تقریر کے دوران رفتہ رفتہ شیروانی کا بٹن کھولتے ہیں۔ دیہی پس منظر میں اردو تقریر کے دوران بیچ بیچ میں انگریزی الفاظ کا استعمال۔ مجمع مسحور ہو کر سنتا ہے۔
***
ناظم ڈویژن مولانا شبیر صدیقی صاحبؒ کا دورہ ہے۔ گاؤں کی مسجد میں آج جمعہ کا خطبہ دیں گے۔ اتنا موثر، دل کو چھولینے والا انداز۔ شاید ہی مسجد میں کوئی ہو جس کی آنکھیں نم نہ ہوں۔
***
ابا کا نیا مہمان خانہ۔ تاریخی بیٹھک جو بلریا گنج میں تحریک اسلامی کے ارتقاء کی گواہ تھی، اب قابل استعمال نہیں رہی۔ عشاء بعد کا وقت۔ تحریکی کارکنان جمع ہیں۔ درمیان میں ایک میز پر سونی کمپنی کا بنا ٹیپ ریکارڈر۔ ایک کنارے اسٹول پر چائے کی بڑی سی کیتلی۔۔۔ عجب ساولولہ ہے۔ مولانا مودودیؒ کی ایک تقریر ’’جماعت اسلامی کے انتیس سال‘‘ کا کیسٹ آیا ہے۔ قائد سے عقیدت ہے۔ سننے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں۔
***
چاند رات۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے رؤیت کی تصدیق ہوئی ہے۔ حاجی امانت صاحبؒ کی بیٹھک۔۔۔ ابا چند رفقاء کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ارکان جماعت ہی کے لڑکے بھی آئے ہوئے ہیں۔ کوئی غیر متعلق نہیں۔ آٹا اور چاول کی بوریاں سلیقے سے رکھی ہیں۔ صدقۂ فطر کی تقسیم ہونی ہے۔ رسول کریمﷺ کے حکم کی تعمیل ہے۔ خبردار عید کے دن کوئی بھوکا نہ رہ جائے۔ معزز گھروں کے یہ لڑکے رات کے اندھیرے میں سروں پر ٹوکریاں میں راشن کے پیکٹ لئے آہستہ سے ضرورت مندوں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔ ہدایت ہے کہ بات راز کی ہے پڑوسی کو بھی پتہ نہ چلے۔ عزت نفس کا سوال ہے۔ احترام ضروری ہے۔
***
ابا کا تحریکی سفر حسب معمول جاری تھا۔ باقاعدگی سے اجتماعات میں شرکت کرتے۔ حلقہ کی شوریٰ کے اجلاس میں جاتے۔ دعوتی سرگرمیوں میں مشغول رہتے کہ اچانک ایک تاریخی لمحہ آیا۔۔۔ یہ ۱۹۸۵ء کی بات ہے۔ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ایک فیصلے کے تحت ارکان جماعت کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر عائد پابندی ہٹالی اور ان کو اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ ملکی انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرسکتے ہیں۔ ارکان کی ایک بڑی تعداد نے اس تنظیمی فیصلے کے خلاف عدم اطمنان کا اظہار کیا۔ یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ آیا یہ فیصلہ درست تھا یا غلط؟ یہ جماعت کا ایک اندرونی معاملہ تھا، جس پر یہاں ہم بحث کرنے کے مجاز نہیں۔ بات ہے ابا کے موقف کی، وہ ارکان کے اس گروہ میں شامل تھے جو نہایت نیک نیتی سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ فیصلہ جماعت اسلامی ہند کی بنیادی فکر سے متصادم ہے۔ نیز انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ہم سیاسی لیڈروں کے حاشیہ برادر بن جائیں گے اور جماعت دینی تحریک کے بجائے ایک ملی جماعت بن جائے گی۔
اس غیر مطمئن گروہ میں کون کون سے قائدین شامل تھے؟ انہوں نے کن ذرائع سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا؟ وہ کون تھے جنہوں نے جذبات میں آخر جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی؟ افہام وتفہیم کی کتنی کوشش ہوئیں؟ کتنے سخت خطوط کا تبادلہ ہوا؟ مرکز نے کیا تادیبی کارروائیاں کیں؟ ان باتوں کے ذکر کا یہ محل نہیں۔ ذکر ہے ابا کے رویے کا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس فیصلے کے خلاف ان کے جذبات بہت شدید تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار پر فورم پر کیا۔ مرکزی قائدین کو سخت خطوط لکھے۔ اجتماعات میں سخت موقف اپنایا۔ ارکان کے اجلاس میں کھل کر فیصلے کی مخالفت کی۔ لیکن مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تأمل نہیں ہے کہ ان کا سخت موقف نظم جماعت کے اندر رہ کر تھا۔ انہوں نے قائدین کا احترام بہتر صورت ملحوظ خاطر رکھا۔ نظم جماعت کے باہر زندگی کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کے متعلق جب اس طرح کی باتیں منسوب کی گئیں تو انہیں بہت تکلیف پہنچی۔ ایک اعلیٰ مرکزی ذمہ دار کو بڑے ہی درد بھرے لہجے میں لکھا۔
’’ان شاء اللہ آپ ہم کو ہرحال میں صابر پائیں گے۔ ہم جماعت کی نچلی سیڑھی پر بھی بیٹھ کر ان شاء اللہ اسی طرح جماعت کی خدمت کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو جماعت سے اپنی بات کو منوانے کے لئے بار بار جماعت سے باہر نکلنے کی دھمکی دیں۔ استعفے پیش کریں اور شدت جذبات میں آکر باہر نکل جائیں۔ ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ بے جماعتی کی زندگی گزاریں۔‘‘
جماعت کے اندر جینے اور جماعت ہی کے اندر مرنے کا آرزو مند
حکیم محمد ایوب
اس بات کو ایک مدت بیت گئی۔ رفتہ رفتہ نظم جماعت، شوریٰ کا فیصلہ، اطاعت امیر جیسے بھاری تنظیمی دباؤ میں آکر اختلافی لہجے سرد ہوتے گئے۔ لگتا تھا ابا مطمئن تو نہیں ہوئے ہیں لیکن نظم جماعت کے پیش نظر فیصلے کو قبول کرلیا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ وہ جماعت سے کچھ ناراض سے ہیں۔ اسی دوران ارکان جماعت کے کل ہند اجتماع کا اعلان ہوا۔ ایک دن ڈاک سے ان کے نام ایک خط آیا۔
مکرمی ومحترمی حکیم محمد ایوب صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ رحمت وعافیت اور مزید توانائی سے نوازے۔
اس اجتماع ارکان ۱۹۹۷ء کے میدان اور آڈیٹوریم اور قیام گاہوں کے انتظامات کے دوران آپ اور مولانا صدرالدین صاحب یاد آتے رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کو اس میں شرکت کا موقع عطا فرمائے۔ میں نے بطور خاص آپ جیسے بند بزرگوں کے لئے الگ سے دو تین ویسٹرن اسٹائل بیت الخلاء کا انتظام بھی کیا ہے اور آپ کا قیام آڈیٹوریم سے قریب پختہ بلڈنگ میں اترپردیش کے رفقاء کے ساتھ کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری سعی کو مشکور فرمائے۔
میری طرف سے اپنے فرزندوں اور دختراں اور گھر والوں کے علاوہ رفقاء کی خدمت میں سلام مسنون۔
عبدالعزیز
ناظم اجتماع ورکن شوریٰ