حضرت ابراہیم ؑ اور حج

191

شاہیدہ محمد شریف

آج جب کلاس میں مس عائشہ داخل ہوئیں تو حیران رہ گئیں کے جو کلاس پورے اسکول میں شور مچانے میں مشہور تھی اتنی خاموش کیسے۔ انہوں نے اس بات کا اظہار اپنی کلاس کے بچوں سے کیا تو ایک بچے نے کھڑے ہو کر کہا کے مس ہماری کلاس کے شان اور عمار کے امی ابو حج پر جا رہے ہیں اور وہ بہت اداس ہیں کہ ہم اپنے والدین کے بغیر کیسے رہیں گے اتنے دن اور ان کے والدین بھی فکر مند ہیں بجکہ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہم سب سے وہ کہہ رہے تھے کے ہم سب دوست انہیں سمجھائیں۔ مگر یہ دونوں ہماری بات سمجھ نہیں پا رہے۔ یہ بات سن کر مس عائشہ مسکرائیں اور انہوں نے کہا یہ تو بڑی سعادت کی بات ہے۔ کہ آپ کے والدین کو حج کا بلاوا اللہ کے گھر سے آگیا ہے۔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
چلو آج سب کتابیں بند کر دو میں آپ سب کو حج کی باتیں بتاتی ہوں۔ شان اور عمار آپ خاص طور پر میری باتوں پر دھیان دینا۔
حج کے معنی عربی زبان میں زیارت کا قصد کرنے کے ہیں حج میں چونکہ ہر طرف سے لوگ کعبے کی زیارت کا قصد کرتے ہیں۔ اس لیے اس کا نام حج رکھا گیا۔ سب سے پہلے اس کی ابتدا جس طرح ہوئی اس کا قصہ بڑا سبق آموز ہے اس قصے کو آپ سب غور سے سنو تاکہ حج کی حقیقت اچھی طرح آپ کے ذہن نشین ہو جائے پھر اس کے فائدوں کو سمجھنا آپ کے لیے آسان ہو گا۔ حضرت موسیٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدؐ، حضرت ابرہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں چار ہزار برس سے زیادہ مدت گزری جب حضرت ابراہیمؑ عراق کی سرزمین میں پیدا ہوئے۔ اس وقت لوگ کفر میں گھرے ہوئے تھے اور ساری دنیا خدا کو بھولی ہوئی تھی۔ جس قوم میں انہوں نے آنکھیں کھولی تھیں وہ اگرچہ اس زمانے مین دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی۔ لیکن گمراہی میں وہی قوم سب سے آگے تھی۔ علوم و فنون اور صنعت و حرمت میں ترقی کر لینے کے باوجود ان لوگوں کو اتنی ذرا سی بات نہ سوجھتی تھی کہ مخلوق کبھی معبود ہونے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ ان کے یہاں ستاروں اور بتوں کی پرستش ہوتی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ بھی ایسے ہی پچاریوں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ دادا اپنی قوم کے پنڈت اور برہمن تھے۔
مگر ابراہیم علیہ السلام کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے سوچنا شروع کر دیا یہ سورج، چاند اور ستارے جو خود غلاموں کی طرح گردش کررہے ہیں اور یہ پتھر کے بت جن کو آدمی خود اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور یہ بادشاہ جو ہم ہی جیسے انسان ہیں۔ آخر یہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں؟ ان کا اپنی زندگی اور موت پر کوئی اختیار نہیں ہے تو وہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں۔ بس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ جن معبودوں کو میری قوم پوجتی ہے ان کو میں ہرگز نہ پوجوں گا اور اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد انہوں نے علی الاعلان لوگوں سے کہہ دیا کہ:
’’جن کو تم خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان بس سے بیزار ہوں‘‘۔(الانعام 78:6)
’’میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(الانعام 79:6)
بچے بڑے شوق سے اور حیران و تجسس سے سن رہے تھے کہ آگے کیا ہو گا۔ مس عائشہ یہ دیکھ کر خوش ہوئیں پھر آگے بڑھیں۔
اس اعلان کے بعد تو حضرت ابراہیمؑ پر جیسے مشکلوں اور مصائب کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ ان کے والد کے انہیں دھمکیاں دیں کے تمام دولت سے عاق کر دوں گا تمہیں گھر سے باہر نکال دوں گا ان کی قوم ان کی دشمن بن گئی ان کا مقدمہ بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اپنے والد سے بڑے ادب سے جواب دیا جو علم میرے پاس ہے وہ آپ کے پاس نہیں ہے اور انہوں نے تمام بت بھی توڑ ڈالے اور بادشاہ سے کہہ دیا کے تو میرا رب نہیں ہے، بلکہ وہ ہے جس کے ہاتھ میں میری اور تیری زندگی اور موت ہے۔ ان کو ان کی قوم نے باہر نکال دیا اور انہیں کہیں بھی لوگوں نے سکون نہ لینے دیا وطن نکلنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام شام، فلسطین، مصر اور عرب کے ملکوں میں پھرتے رہے۔ نہ کھانے کی فکر نہ کمانے کی فکر بس فکر تھی اور لوگوں کو ایک رب کی عبادت کی طرف لانا تھا۔ مگر ہر جگہ انہیں تکالیف ہی ملیں۔ سالہا سال بے خانماں پھرتے رہے، کبھی کنعان کی بستیوں میں ہیں تو کبھی مصر میں اور کبھی عرب کے ریگستان میں اسی طرح ساری جوانی بیت گئی اور کالے بال سفید ہو گئے۔
اخیر عمر میں جب 90 برس پورے ہونے میں صرف چار سال باقی تھے اور اولاد سے مایوسی ہو چکی تھی۔ اللہ نے اولاد دی لیکن اللہ کے بندے کو اب بھی یہ فکر نہ تھی کے خود تو زندگی کیسے تیسے گزر گئی اب بچوں کی فکر کی جائے مگر پھر بھی وہ اپنے اسی عمل پر گامزن رہے اب فکر تھی کہ میرے بعد کوئی تو ہو جو اس مشن کو آگے بڑھائے یہی دعا کرتے رہے اور اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دین اور یہی کام پسند کیا۔
مگر ان آزمائشوں کے بعد ایک اور آخری آزمائش باقی رہ گئی تھی جس کے بغیر یہ فیصلہ نہ ہو سکتا تھا کے یہ شخص دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر رب العالمین سے محبت رکھتا ہے اور وہ آزمائش یہ تھی کے اس بڑھاپے میں جبکہ پوری مایوسی کے بعد انہیں اولاد نصیب ہوئی ہے، اپنے اکلوتے بیٹے کو رب العالمین کی خاطر قربان کرسکتا ہے کہ نہیں اور اولاد بھی ایسی کے جس نے خود کو اس قربانی کے لیے پیش کر دیا پر خدا نے اس جگہ ایک دنبہ بھیج دیا یہ تو ایک امتحان تھا باپ بیٹے کا اس میں وہ سرخرو ہو گئے۔
اس طرح حضرت ابراہیمؑ کو پیشوائی سونپی گئی اور وہ اسلام کی عالمگیر تحریک کے لیڈر بنائے گئے۔ تین آدمی ان کے لیے قوتِ بازو ثابت ہوئے۔ ایک ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام، دوسرے ان کے بڑے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جنہوں نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی گردن خوشی خوشی چھری کے نیچے رکھ دی اور تیسرے ان کے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحق علیہ السلام۔
بڑے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو حجاز میں مکے کے مقام پر رکھا اور ایک مدت تک خود ان کے ساتھ رہ کر عرب کے تمام گوشوں میں اسلام کی تعلیم پھیلائی۔
پھر یہیں دونوں باپ بیٹوں نے اسلامی تحریک کا وہ مرکز تعمیر کیا جو کعبہ کے نام سے آج ساری دنیا میں مشہور ہے۔ اس کا مرکز کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا تھا اور جگہ بھی خود تجویز کیا۔ یہ ایک مسجد کی طرح تھا۔ یہاں سے تبلیغ و اشاعت قرار دیا گیا، اور عرض یہ تھی کے ایک خدا کو ماننے والے ہر جگہ سے کھینچ کھینچ کر یہاں جمع ہوا کریں مل کر خدا کی عبادت کریں، اور اسلام کا پیغام لے کر اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ جائیں یہی اجتماع تھا جس کا نام حج رکھا گیا۔
دونوں باپ بیٹوں نے اس عمارت کی دیواریں اٹھائیں اور کیسے حج کی ابتدا ہوئی قرآن مجید میں یوں بیان کی گئی ہے۔
’’یقیناًپہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی تھا جو مکہ میں تعمیر ہوا، برکت والا گھر اور سارے جہاں والوں کے لیے مرکز ہدایت اس میں اللہ کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں۔ مقام ابراہیمؑ ہے اور جو اس میں داخل ہو جاتا ہے اس کو امن مل جاتا ہے‘‘۔
دیکھا بچوں جب اللہ پاک ہمیں اس گھر بلاتا ہے تو ہم کتنا بڑا فریضہ حج ادا کرنے جاتے ہیں اور وہاں جانا ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو وہاں زیارت و عبادت کو جاتے ہیں اور امن لے کر لوٹتے ہیں۔
شان اور عمار کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم خوشی کوشی اپنے والدین کو رخصت کریں گے (انشاء اللہ)