چھوٹی اور بڑی برائی

285

حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ عمران خان وزیر اعظم تو بن گئے ہیں مگر ابھی تک کنٹینر پر ہی تقریریں فرما رہے ہیں۔ موصوف کی نئی تقریر کا موضوع بڑا حساس ہے فرماتے ہیں یہ کیسا ظلم ہے کہ امریکا میں کم از کم تنخواہ دو لاکھ روپے ماہانہ ہے اور پاکستان میں کم سے کم پندرہ ہزار روپے ماہانہ ہے مگر مہنگائی نے غریب آدمی کا جینا حرام کر رکھا ہے امریکا میں ہنسلے کمپنی کا دودھ 40روپے فی کلو ہے اور پاکستان میں 113روپے ہے۔ دو لاکھ روپے کمانے والا 40روپے فی کلو دودھ خرید رہا ہے اور پاکستان میں 15ہزار روپے کمانے والا 113روپے کلو دودھ خرید رہا ہے۔ خان صاحب ہم بار ہا انہی کالموں میں کہہ چکے ہیں کہ اشیاء ضرورت کی نرخ کم از کم بھارت کے برابر کر دو تاکہ غریب آدمی بھوکا مر جائے بھارت کو آپ وزیر اطلاعات سے بہتر طور پر جانتے ہیں۔ یقینا یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ ایران اور افغانستان کے راستے اشیاء ضرورت جو بیرونی ممالک کی ہوتی ہیں پاکستان میں 40تا80 فی صد کم ہیں۔ خدا جانے عمران خان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ وہ پاکستان کے منتخب وزیرا عظم ہیں مگر انہیں وزارت عظمیٰ سے کوئی دلچسپی نہیں وہ ابھی تک کنٹینرپر ہی کھڑے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے وہ اپنے گھٹنوں کو زیادہ زیادہ سے آرام دینے کے قائل ہوں یوں ہی آرام دہ زندگی گزارنا ہر آدمی کا پیدائشی حق ہے۔ سو یہ بات قابل اعتراض نہیں مگر وزیر اعظم کا اپنی پالیسوں کو تنقید کا ہدف بنانا سمجھ سے بالاتر ہے وہ ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں اور یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ براہ راست اس کے ذمے دار ہیں۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور کرپشن کی ذمے دار اشرافیہ ہے ابھی تک تو عوام و خواص یہی سمجھتے رہے ہیں کہ با اختیار اور مقتدر طبقہ ہی اشرافیہ کہلاتا ہے۔ مگر وزیر اعظم عمران خان کے بیان کے بعد اشرافیہ کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ اشرف نامی ایک بادشاہ سونے سے بہت پیار کرتا تھا اس کے دور میں سونے کے سکے کا رواج ہوا اس سکے کو اشرف بادشاہ کی نسبت سے اشرفی کا نام دیا گیا اس کا بدن دس ماشے ہوا کرتا تھا رفتہ رفتہ اشرفی کا سکہ ختم ہوگیا مگر بادشاہ اور اس کے درباری طبقے کو اشرافیہ کہا جانے لگا اور اب بھی مقتدر طبقے کو اشرافیہ ہی کہا جاتا ہے۔ مگر وزیر اعظم عمران خان کی نظر میں ہر وہ شخص اشرافیہ میں شامل ہے جو ان کی وضع کردہ پالیسوں پر عمل درامد نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی تمام خرابیوں اور لوٹ مار کا ذمہ دار اشرافیہ ہے تو پھر وزیرا عظم اور ان کی کابینہ کیا کررہی ہے۔۔۔؟
ہم نے بار ہا انہی کالموں میں کہا ہے کہ عمران خان تنہا کچھ نہیں کرسکتے جب تک ان کے منتخب وزیر اور مشیر ان کے پالیسوں پر دیانت داری سے عمل نہیں کراتے، آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ عمران خان کو وزیر اعظم کی مسند پر بٹھانے کے لیے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا کردار بہت اہم ہے ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ عوام ان سے بد ظن ہو چکے ہیں سو انہوں نے ایسے حالات پیدا کیے جیسے تیسری پارٹی کو جنم دیا اسے پروان چڑھایا تاکہ آئندہ ایکشن میں لوگ اسے مسترد کرکے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو گلے لگالیں۔ حالات و واقعات شاہد ہیں کہ اب لوگ بر ملا کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور زرداری چور ہوں گے مگر انہوں نے ان کی جیبوں پر ڈاکا نہیں ڈالا، ان کے ہاتھ کا نوالہ نہیں چھینا۔ تحریک انصاف کے دور میں تو عوام کے حلق سے نوالہ نکالا جارہا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سونامی کی طرح بڑھتی جارہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ مہنگائی کے سونامی کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر حالات، بہتر تنخواہ اور بہتر روزگار بہت ضروری ہے۔ شاید وزیر اعظم کو یہ باور کردیا گیا ہے کہ جب تک عوام دال روٹی کے چکر میں پڑے رہیں گے حکومت آرام سے بستر پر پڑی رہے گی جس دن عوام نے ان کے طرز حکمرانی اور بیانیے پر غور کرنا شروع کردیا ان کی حکومت لڑکھڑا جائے گی، جو حکمران اپنے اتحادیوں کو خوش نہ رکھ سکے ان سے کیے گئے وعدہ پورے نہ کر سکے وہ عوام کو کیا ریلیف دے سکتا ہے ان کے رویے سے لگتا ہے کہ موصوف کا سیاسی مشن مخالفین کو رسوا کرنا ہے اور اس رسوائی میں اپنی کارکردگی کو چھپانا ہے مگر عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے، یوں بھی ان کو چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں آدمی اپنے مدت حیات سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ارشاد گرامی ہے کہ سابق حکمران چور تھے، ڈاکو تھے، لٹیرے تھے ان کی نقب زنی نے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کردی ہیں۔ بزدار صاحب بجا فرمایا آپ کی ہمت کی داد دینی پڑے گی آپ اس عمارت میں پر تعش زندگی گزار رہے ہیں جس کی بنیادیں ہی نہیں ہیں مان لیا وہ چور تھے، ڈاکو تھے، لٹیرے تھے مگر آپ نے تو چوروں، ڈاکوں اور لٹیروں کے لیے تربیتی ایجنسی کھول رکھی ہے جس کا جی چاہے کرپشن کی تربیت حاصل کرے اس پس منظر میں سوچیے زیادہ کرپٹ اور بد عنوان کون ہے۔۔۔؟ اور یہ بات بھی یاد رکھیے کہ جب بھی عوام کو برائی کا انتخاب کرنا پڑتا وہ چھوٹی برائی کو منتخب کرتے ہیں۔