پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے پشاور میں سی ٹی ڈی کی جانب سے اسکول ٹیچر کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کرنے اور پولیس ہی کی جانب سے تہکال کے رہائشی نوجوان عامر کو برہنہ کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرفان اللہ آفریدی دہشت گرد نہیں تھا بلکہ اساتذہ کی بھرتی کے لیے ہونے والے ٹیسٹ میں کامیاب ہوکر استاد بنا تھا۔ سی ٹی ڈی نے ایک استاد کو قتل کرکے علم دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ سی ٹی ڈی لوگوں کو اغواء کرکے ماورائے عدالت قتل کررہی ہے ۔ عامر تہکالی کی جانب سے پولیس افسران کو گالیاں قابل مذمت ہیں لیکن پولیس کے بہیمانہ تشدد کی بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ نوجوان کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنانا اور اس کی ویڈیو بنانا دستور کے دفعات 4، 9، 10، 10A، 11، 14اور 25کی خلاف ورزی ہے جو انسانی جان کی حرمت، احترام اور بشری حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ٹی ٹی کی پوسٹ پر حال ہی میں بھرتی ہونے والے عرفان اللہ آفریدی 20روز قبل ایجوکیشن آفس جمرود سے اپنا تقرر نامہ لینے گئے لیکن وہاں سے انہیں سرکاری وردی میں چھپے دہشت گردوں نے اغواء کرلیا۔ عرفان اللہ آفریدی کے والد کی رپورٹ پر پولیس نے ایف آئی آر کاٹنے کے بجائے صرف روزنامچہ پر اکتفا کیا جس کے بعد سی ٹی ڈی نے اسے دہشت گرد قراردیکر پولیس مقابلے میں قتل کردیا۔ یہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرفان اللہ آفریدی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور اس نے حال ہی میں ٹی ٹی کی پوسٹ کے لیے دیا گیا ٹیسٹ پاس کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پشاور پولیس نے جس طرح تہکال کے رہائشی نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیو بنائی اس سے خیبر پختونخوا کی جیلوں اور حوالاتوں کی تصویر کشی آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔ صوبائی حکومت کو اس پر ایکشن لیتے ہوئے اس میں ملوث پولیس اہلکاروں اور افسران کو سزا کے ساتھ ساتھ نوکریوں سے بھی برخواست کرنا چاہیے۔