کیا پی ٹی آئی میں جھگڑا ہو گیا ہے؟ چند ماہ قبل تک پارٹی کی ترجمانی کرنے والے فواد چودھری اچانک کسی اور کی ترجمانی کرنے لگے۔ انہوں نے منگل کو ایک بیان میں کہہ دیا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس صرف چھ ماہ ہیں۔ پارٹی جھگڑوں سے حکومت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جہانگیر ترین اور اسد عمر نے ایک دوسرے کو فارغ کردیا۔ لیکن ان کے اس بیان پر وزیراعظم نے جو مشورہ دیا ہے وہ زیادہ صائب لگتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ فواد چودھری سیاسی گفتگو سے پرہیز کیا کریں۔ کابینہ اجلاس میں اسد عمر نے فواد چودھری کے بیان کو غیر ذمے دارانہ قرار دیا اور فواد چودھری کی وضاحت پر وزیراعظم نے موضوع ہی بدل دیا۔ ایک بات پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہی ہے کہ اگر فواد چودھری حکومت سے مطمئن نہیں تو استعفا دے دیں۔ ان کو چھ ماہ قبل سمجھایا تھا کہ باز آجائیں لیکن وہ نہیں آئے، وزیراعظم لحاظ کرتے ہیں ان کو شرم کرنا چاہیے۔ اس صورتحال پر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی راجا ریاض نے بھی تبصرہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی تباہی کا شکار ہو چکی۔ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ بہت برا سلوک کریں گے۔ انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ تمام معاملات اور اختیارات پر بیورو کریسی حاوی ہو چکی ہے جبکہ فواد چودھری نے کہا تھا کہ فیصلے وزیراعظم کے مشیر کر رہے ہیں اور سیاسی لوگ منہ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس بات کی بھی کوئی نشاندہی کر دے کہ پی ٹی آئی میں سیاسی لوگ کہاں ہیں اور کون کون سے ہیں۔ جہاں تک وزرا کے شکووں کا تعلق ہے تو وہ یقیناً بجا ہوں گے۔ پاکستان میں ہر حکومت اور خصوصاً بھان متی کے کنبوں والی حکومتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ فیصلے کہیں اور کوئی اور کرتا ہے۔ اگر سیاسی لوگ ہوں بھی تو وہ واقعتاً منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ تحریک انصاف میں تو سیاسی لوگ پہلے ہی کم ہیں۔ وزیراعظم کا فواد چودھری کو مشورہ صائب ہے کہ وہ سیاسی گفتگو سے احتراز برتیں۔ وہ اچھا خاصا چاند وغیرہ دیکھا کرتے تھے ان کی باتوں پر حکومت کو بھی اعتراض نہیں ہوتا تھا لیکن چونکہ فواد چودھری اور راجا ریاض وغیرہ جیسے لوگ کسی کے اشارے پر پارٹی میں آئے ہیں اور اسی کے اشارے پر دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں اس لیے یہ بات بڑی سنجیدہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کسی گرداب میں آچکی ہے ابھی اس کی لہریں اکا دکا سامنے آئی ہیں لیکن بی این پی مینگل کا الگ ہونا، چودھری برادران کا ناراض رہنا اور پارٹی کے اندر اِدھر اُدھر سے لائے گئے لوگوں کا اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ الاپنا کسی بڑی خرابی کی نشاندہی کر رہا ہے۔ راجا ریاض نے خدشے کا اظہار کیا ہے یا پیشگوئی۔ لیکن دونوں صورتوں میں ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے کہ اگلے انتخابات میں عوام پی ٹی آئی سے بہت برا سلوک کریں گے کیونکہ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہ کم برا نہیں بلکہ بہت ہی برا ہے۔ جب عوام کو کچھ نہ ملے اور ریاست مدینہ کے دعوے کے برعکس قادیانیوں کی سرپرستی، مذہب بیزاری، بھارت کی چاپلوسی اور کشمیر کا سودا ہو تو پھر عوام کا فرض بنتا ہے کہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ وہ سلوک کریں جس کی وہ مستحق ہو چکی ہے۔