کے الیکٹرک کے ڈسے ہوئے باہر تو نکلیں

284

کے الیکٹرک کی چیرہ دستیوں کے خلاف جماعت اسلامی کراچی پھر سے میدان میںہے اور اس نے کے الیکٹرک اور اس کے سرپرستوںکو متنبہ کیا ہے کہ زاید بلنگ اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو پھر کے الیکٹرک کا گھیراؤ کیا جائے گا ۔ جماعت اسلامی کے الیکٹرک کا گھیراؤ کرے گی اور شاید معاملات کسی حد تک درست ہوجائیں۔ یوں لگتا ہے کہ کراچی میں کسی بھی سطح پر حکومت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے اور جب تک گھیراؤ نہ کیا جائے ، یہاں کے مسائل حل ہی نہیں ہوں گے اور یہ مسائل حل کرنے کا سارا ذمہ جماعت اسلامی ہی کا ہے ۔ نادرا بلاوجہ شہریوں کے شناختی کارڈ نہیں بنا رہی تھی بلکہ پاکستانی شہریوں کے شناختی کارڈ عذر لنگ تراش کر بلاک کیے ہوئے تھے ، جماعت اسلامی نے گھیراؤکیا تو یہ مسئلے کسی حد تک حل ہوئے ۔ بحریہ ٹاؤن ایک ایسی مافیا کا روپ دھار گیا ہے جس نے ہر ایک کو اس کی اوقات کے مطابق خرید رکھا ہے اور اس کے سامنے کسی کو آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں ۔ بحریہ ٹاؤن کے متاثرین اپنے درد کے درماں کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے اور کہیں پر بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔ جماعت اسلامی کراچی نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کا گھیراؤ کیا تو متاثرین کی اشک شوئی ممکن ہوسکی ۔یونیورسٹی روڈ سمیت کراچی کی اہم سڑکیں ٹوٹی ہوئی تھیں ، ان کی ازسرنو تعمیر کے لیے جماعت اسلامی گھیراؤ کررہی تھی ۔ کورونا کے نام پر ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد شہریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جماعت اسلامی میدان میں تھی اور اس نے دو ارب روپے سے زاید کا راشن مستحقین میں تقسیم کیا۔ اب بھی جماعت اسلامی ہی کسی تشہیر کے بغیر شہریوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کررہی ہے ۔ جماعت اسلامی تو اپنا کام کسی ستائش یا صلے کے بغیر احسن طریقے سے کرر ہی ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جن کے حقوق کے لیے جماعت اسلامی روز میدان میں نکلتی اور گھیراؤ کرتی ہے وہی لوگ منظر سے غائب ہیں ۔ کراچی میں 75 لاکھ سے زاید میٹر لگے ہوئے ہیں ۔ یہ 75 لاکھ صارفین کے الیکٹرک کے ستائے ہوئے ہیں ۔ کسی ایک شہری بشمول کے الیکٹرک کے ملازمین کے ، کے الیکٹرک کا تذکرہ کرکے دیکھ لیں وہ پھٹ پڑے گا مگر جب ان صارفین کے حقوق کے تحفظ کی بات ہوگی تو صرف اور صرف جماعت اسلامی کے کارکنان ہی میدان میں ہوں گے ۔ وہی موسم کی سختی بھی برداشت کریں گے اور پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسو گیس بھی ۔ اگر ان 75 لاکھ صارفین کا ایک فیصد بھی سڑکوں پر آجائے تو کسی کو ان کا حق غصب کرنے کی ہمت ہی نہ ہو ۔ جماعت اسلامی کے کارکنان شہریوں کے حقوق کی جنگ میں آگے آگے ہیں ، اس کے بدلے وہ نہ ووٹ مانگ رہے ہیں اور نہ نوٹ مگر اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے وہ لوگ تو گھروں سے نکلیں جن پر ستم ڈھایا جارہا ہے ۔ مہذب دنیا میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی ادارے کو اس طرح سے شہریوں کو لوٹنے کی اجازت نہیں دی جاتی ، جس طرح سے پاکستان میں کیا جارہا ہے ۔ نادرا کو کس نے حق دیا کہ وہ کسی بھی پاکستانی کو اس کے حق شہریت سے محروم کردے یا ملک ریاض کو کس نے اجازت دی کہ قبضے کی زمین پر لوگوں کو پلاٹ دینے کے خواب دکھائے اور کروڑوں روپے فی پلاٹ لے کر وہ بھی نہ دے ۔ اسی طرح کے الیکٹرک بلاجواز اپنے پیداواری یونٹوں کو بند رکھے ، سرکاری تیل کمپنی پی ایس او سے مفت فرنیس آئل ، واپڈا سے مفت بجلی اور سرکاری گیس کمپنی سوئی سدرن سے مفت گیس لے ۔ پاکستان ٹیلی وژن کی لائسنس فیس سمیت کے الیکٹرک جنرل سیلزٹیکس ، ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ جو عوام سے سرکار کے نام پر جمع کیے جاتے ہیں ، کے الیکٹرک سرکار کے کھاتے میں جمع کروانے کے بجائے ڈکار جاتی ہے ۔اس کے بعد سرکار سے مزید 26 ارب روپے نقد زرتلافی کی مد میں وصول کیے ، اس سب کے باوجود بھی پورے شہر میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے ۔ سرکاری اداروں سے مفت گیس ، ایندھن ، بجلی اورزرتلافی وصول کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ سب عوام کی جیبوں سے وصول کیا گیا ۔ ماہانہ بھاری بل اس کے علاوہ ہیں ۔ سرکار میں بیٹھے ہوئے کے الیکٹرک کے نمک خوار گزشتہ مہینوں سے بجلی کے نرخوںمیں اضافے کی اجازت دیتے ہیں جسے مع سود الیکٹرک وصول کرلیتی ہے ۔ ایک دفعہ تو اس کا جائزہ لیا جائے کہ کے الیکٹرک کے منافع میں کیسے اضافہ ہورہا ہے ۔ عوام کی جیبوں پر دن دہاڑے ڈاکا ڈالنے کی اجازت کس نے دی ہوئی ہے ۔ جماعت اسلامی تو وقت کی مافیا کو لگام ڈالنے کے لیے میدان میں آگئی ہے بہتر ہوگا کہ جن کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے وہ بھی باہر نکلیں۔