قومی بجٹ 2020-21ء ایک جائزہ

352

ڈاکٹر سید محبوب
موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو صورت حال اور زمینی حقائق سے یکسر غافل تھی۔ اس کے وزرا اور مشیر انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے رہے۔ 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں اور ملک میں اس قدر خوشحالی لانے کا دعویٰ کیا گیا کہ ایک ٹھیلے والا بھی ٹیکس دے گا۔ اس تناسب سے 2 سال میں حکومت کو 20 لاکھ گھر، 40 لاکھ نوکریاں فراہم کرنی تھیں۔ حکومت گھر اور نوکریاں تو فراہم نہ کرسکی تاہم ہزاروں کو بے گھر اور لاکھوں کو بے روزگار کردیا گیا۔ بجٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک قرضوں اور سود کے ہمالیائی بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ صرف اگلے ایک سال میں پاکستان کو 2 ہزار 9 سو 46 ارب روپے سود کی مد میں ادا کرنے ہیں جو ماہانہ 24505 ارب روپے، یومیہ 8.18 ارب روپے، فی گھنٹہ 340.9 ملین روپے، فی منٹ 56 لاکھ 82 ہزار روپے، فی سیکنڈ 9 لاکھ 44 ہزار روپے کے حساب سے سود ادا کررہا ہے۔ سود کی ادائیگی ایف بی آر کے ٹیکس کا 59 فیصد، جب کہ دفاع کا 128 فی صد، صحت کے بجٹ کا 11,475 فی صد، تعلیم کے بجٹ کا 3,434 فی صد ہے۔ ایک اسلامی جمہوریہ اور ریاست مدینہ کے نقش قدم پر چلنے والا ملک اس قدر سود کے دبائو میں رہے، اس کی نحوستوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اس وقت پاکستان میں کورونا مرض کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے قومی معیشت میں پہلے ہی 3 ہزار ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ملک میں ایک مرتبہ پھر بڑے شہروں کے زیادہ متاثرہ علاقوں میں لاک ڈائون کا نفاذ عمل میں آگیا ہے۔ سندھ 65 ہزار ایک سو 63 مریضوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ پنجاب 61 ہزار 6 سو 78 مریضوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کا رینک 13 واں ہوچکا ہے۔ جب کہ نئے مریضوں کے اعتبار سے پاکستان، روس، میکسیکو کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں کُل مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 68 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ان سطور کی اشاعت تک اس میں اضافہ ہوچکا ہوگا۔ کورونا کے اثرات جولائی اور گست تک مزید پھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ اب بھی لوگ اس مرض کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں اور سیاسی قیادت جس بُری طرح تقسیم اور باہم دست و گریباں ہے اس احساس سے عاری کہ موجودہ حالات مکمل یکسوئی اور قومی یکجہتی کا تقاضا کررہے ہیں۔ اس لیے ٹیکسوں اور معاشی نمو کی شرح کے اہداف زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہیں۔ براہِ راست ٹیکسوں کا ہدف 2 ہزار 43 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جب کہ 2019-20ء میں اس مد میں صرف ایک لاکھ 6 سو 23 ارب روپے وصول کیے گئے تھے۔ موجودہ ہدف 25.87 فی صد زیادہ ہے۔ حکومت کا 2020-21ء میں مزید 2 ہزار ایک سو 57 ارب 50 کروڑ روپے قرض لینے کا ارادہ ہے۔ گویا ایک جانب حکومت یومیہ 8 ارب 81 کروڑ روپے سود کی مد میں ادا کرے گی تو دوسری جانب یومیہ اوسطاً 5 ارب 99 کروڑ روپے قرض دیتی رہے گی۔ گویا ٹیکسوں سے حاصل کی گئی کُل آمدنی کے مساوی حکومت سود کی ادائیگی کررہی ہوگی اور قرض حاصل کررہی ہوگی۔ اس صورتِ حال میں معاشی استحکام کے خواب دیکھنا اور پوری قوم کو خوشحالی، استحکام اور ترقی کے خواب دکھانا خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پاکستان جو سالانہ 2 ہزار 9 سو 46 ارب روپے کا سود ادا کرے گا اس کا 89 فی صد مقامی قرضوں پر ادا کیا جائے گا۔ گویا بیرون ملک قرضوں پر سود کی ادائیگی محض کُل سود کا صرف 11 فی صد ہے۔ اس لیے قومی معیشت سے سود کا خاتمہ حکومت کی پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ پاکستان کا ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب صرف 11 فی صد ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 20 لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں جب کہ محض 6 لاکھ افراد ٹیکس ادا کرنے والے تنخواہ یافتہ افراد ہیں۔ 380 کمپنیاں کُل ٹیکس کا 80 فی صد ادا کرتی ہیں۔ ملک بھر میں 3 لاکھ 41 ہزار بجلی اور گیس کے تجارتی کنکشن ہیں جن میں سے صرف 40 ہزار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں۔ 31 لاکھ کمرشل صرافین میں سے صرف 14 لاکھ یعنی 45 فی صد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ملک بھر میں 5 کروڑ سے زائد بینک اکائونٹس ہیں جب کہ صرف 10 فی صد یعنی تقریباً 50 لاکھ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس ایک لاکھ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف نصف ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ دُنیا بھر میں صدقات، خیرات، زکوٰۃ اور عطیات دینے والی قوم ٹیکس اس قدر کم ادا کرتی ہے۔ اس کی وجہ اعتماد کا بحران ہے۔ حکومتی مشینری پر تاجروں، صنعت کاروں اور عوام کو اعتماد نہیں ہے۔ حکمران عوام اور کاروباری برادری کا اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہی ہے اور ہر مرتبہ ایمنسٹی اسکیم جاری کرکے کالا دھن سفید کرنے اور ناجائز کمائی کو چھپانے کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہے، پھر بھی اس قدر قرض پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ملکی معیشت میں اس وقت جس قدر خیر ہے وہ اسلامی معیشت کے جزوی نفاذ سے ہے۔ یہ نفاذ بھی حکومت کی جانب سے نہیں ہے بلکہ رضا کارانہ ہے۔ اس وقت ملک میں دینی مدارس کے نام پر دنیا کی سب سے بڑی این جی او کام کررہی ہے جس کا ذریعہ آمدنی زکوٰۃ، خیرات، صدقات اور قربانی کی کھالیں ہیں۔ جن کا تعلق دینی احکامات سے ہے۔ اس کے علاوہ دیگر فلاحی ادارے الخدمت، بیت السلام، عالمگیر ویلفیئر، اخوت، انڈس اسپتال، ایدھی سینٹر وغیرہ شاندار خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی آمدنی اور ذرائع بھی اسلامی اقتصادیات کا حصہ ہیں۔ اگر ملک میں ادارے نہ ہوتے تو غربت، بھوک، افلاس سے لاکھوں افراد ہر سال مر رہے ہوتے، لاکھوں افراد علاج سے محروم رہتے، لاکھوں طلبہ و طالبات تعلیم حاصل نہ کرپاتے۔ اس لیے پاکستان کی فلاح، ترقی، استحکام، کامیابی اور نجات کی راہ اسلامی معیشت اور سود سے چھٹکارے میں ہے۔ جس معیشت میں اللہ کی رضا کا حصول شامل نہ ہو، خوف خدا نہ ہو، اللہ کی مخلوق کا حصہ نہ ہو، جو معیشت چند مراعات یافتہ طبقے تک محدود رہے، اس کے فوائد اور ثمرات مخصوص طبقے تک محدود رہیں وہ معیشت کبھی بھی فلاح کا راستہ نہیں پاسکتی، ایسی معیشت استحصالی فکر کے شاخسانہ ہوسکتی ہے لیکن ریاست مدینہ کی پاکیزہ، للہیت اور سیرت رسولؐ سے رہنمائی لینے والی معیشت نہیں ہوسکتی جس نے ’’مواخات‘‘ کا وہ فلاحی نظام دیا جس کی مثال دنیا کے کسی نظام میں نہیں ملتی۔ اس لیے حکومت اپنی ٹیم اور ٹائیگرز پر انحصار کرنے کے بجائے اخوت، الخدمت، شاہد آفریدی فائونڈیشن، بیت السلام، انڈس اسپتال، ٹی ایف پی جیسے اداروں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر عبدالباری اور ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے مخلص، خدا خوفی اور حب الوطنی سے سرشار لوگوں اور ان کی ٹیم سے استفادہ کرے اور ان کے لیے سہولت کار بنے۔ ملک بھر میں تعلیمی اور صحت ایمرجنسی کا اعلان کرے اور ان خدا خوف حضرات اور اداروں کی نگرانی میں فنڈ قائم کرے، ریٹائرڈ سرکاری افراد ریٹائرڈ فوجیوں کی خدمات حاصل کی جائیں، قومی رضا کاروں کا نیٹ ورک بنا کر ملک میں تقسیم، ہنر عام کرنے میں ان کی مدد کرے ورنہ ہر سال اسی طرح خسارے کا بجٹ عوام کی اُمیدوں پر پانی پھیرتا رہے گا۔