چند مفید مشورے (حصہ اوّل)

598

ہم روایت پسند لوگ ہیں، ایک ہی جیسی غلطیوں کا اعادہ کرتے ہیں اور ایک ہی جیسے نتائج کا سامنا کرتے ہیں، دوسروں کے تجربات سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے اور خود جب ہوش آتا ہے تو جو نقصان ہونا ہوتا ہے، وہ ہوجاتا ہے۔ ہماری معاشرتی اور خاندانی زندگی میں روایتی طور پر بہت سے ابہامات ہوتے ہیں، معاملات واضح نہیں ہوتے اور اس کے نتیجے میں آگے چل کر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بعض صورتوں میں تنازعات بہت دور تک چلے جاتے ہیں، قطعِ رحمی، بے رخی، برسرِ مجلس ایک دوسرے کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اور بعض اوقات لڑائی جھگڑے تک نوبت آجاتی ہے۔ اس کی وجہ ان ابہامات اور سماجی روایات سے متعلق اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ہے۔ بعض اہلِ نظر کو شکایت بھی رہتی ہے کہ علماء معاشرتی اور سماجی مسائل پر گفتگو نہیں کرتے اور اصلاحِ معاشرہ میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے، اس لیے چند مفید مشورے پیشِ خدمت ہیں اور ہم علماء سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی مجالسِ دروس اور خطاباتِ جمعہ میں ان مسائل پر گفتگو کریں گے تاکہ معاشرتی تنازعات کو کم کرنے میں مدد ملے:
(۱) بعض اوقات والد اپنے نابالغ بچوں کی شادی اُن کے ماموں زاد، خالہ زاد یا چچازاد کے ساتھ یا کہیں اور طے کردیتے ہیں۔ بعض اوقات دیہی معاشرے میں اِغوا یا قتل کے واقعات ہوتے ہیں تو صلح کی صورت میں چھوٹی بچیوں کے رشتے طے کردیے جاتے ہیں، اسے پنجاب میں ’’ونی‘‘ کہتے ہیں، اسی طرح معمر باپ کسی کی بیٹی یا بہن کا رشتہ لیتا ہے اور اس کے عوض اپنی نابالغ بچی کا رشتہ دے دیتا ہے، اسے ’’وٹہ سٹہ‘‘ کہتے ہیں، عہدِ جاہلیت میں اسے عرب میں ’’نکاحِ شِغار‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس میں لڑکی حقِ مہر سے بھی محروم کردی جاتی تھی اور ایک لڑکی دوسری لڑکی کا بدل بن جاتی یا کسی کی تعدّی کی تلافی کی نذر ہوجاتی۔ یہ سب صورتیں انتہائی نامناسب ہیں، لڑکے کا رشتہ بچپن میں طے کردیا جائے اور آگے چل کر اُسے ناپسند ہو تو وہ طلاق دے سکتا ہے، لیکن اگر لڑکی کا رشتہ اُس کا والد طے کرلے تو اُس کی گلوخلاصی انتہائی مشکل ہوجاتی ہے، کیونکہ بعض صورتوں میں لڑکیاں تعلیم میں آگے چلی جاتی ہیں اور بعض صورتوں میں اس کے برعکس ہوتا ہے، لہٰذا لڑکا لڑکی کے لیے یا لڑکی لڑکے کے لیے قابلِ قبول نہیں رہتے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہائے کرام نے نکاح میں ’’کَفاء َت (Equal Status)‘‘ کا اعتبار کیا ہے اور آج کل اعلیٰ تعلیم اور پرکشش ملازمت بھی کَفائَ ت میں اہم عنصر بن گئے ہیں، پس اگر جبراً شادی کرا بھی دی جائے تو نباہ مشکل ہوجاتا ہے۔ لڑکا طلاق تو دے سکتا ہے، لیکن پھر والدین اسے اپنی توہین اور بے عزتی سمجھتے ہیں اور لڑکی کے لیے تو بے حد مشکلات ہوتی ہیں۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اولاد کے رشتے بچپن یا لڑکپن میں طے نہ کیے جائیں تاکہ بعد میں مسائل پیدا نہ ہوں اور حکومت چاہے تو اس کے لیے کوئی تعزیر مقرر کرسکتی ہے۔
(۲) ہمارے ہاں ایک روایت یہ ہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکے اور لڑکی والے کہتے ہیں کہ شرعی مہر مقرر کردیں۔ ان سے گزارش ہے کہ مہر کی ہر وہ مقدار شرعی ہے، جس پر فریقین کا اتفاق ہوجائے۔
شرعی مہر کی کم از کم مقدار دس درہم چاندی ہے، اس مقدار سے کم مہر نہیں ہوسکتا، جتنا بھی مہر مقرر کیا جائے، سب شرعی ہے۔ ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ کا مہر چار ہزار درہم تھا، (سنن ابودائود)، رسول اللہؐ کی دیگر ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہر 500درہم تھا اور سیدہ فاطمہؓ کا مہر 400 مثقال چاندی تھی، (مرقاۃ المفاتیح)۔ سیدنا عمرؓ جب مسلمانوں کے سربراہ تھے، انہوں نے سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی صاحبزادی سیدہ ام کلثومؓ سے نکاح فرمایا اور مہر چالیس ہزار درہم ادا کیا، (تفسیر قرطبی)۔
بعض اوقات لڑکے کو دبائو میں رکھنے کے لیے زیادہ مہر مقرر کیا جاتا ہے کہ کس نے لینا ہے اور کس نے دینا ہے، یہ سوچ بھی غلط ہے، مہر بیوی کا حق ہے اور اُسے ادا کیا جانا چاہیے۔ اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ عورت جب خلوتِ صحیحہ میں اپنا آپ شوہر کی خدمت میں پیش کرے تو شوہر کو ادائیگی مہر کا حکم دیا ہے، ایک تہذیب یافتہ مرد ایسا ہی کرتا ہے، لہٰذا مہر بیوی کے قریب جانے سے پہلے پہلے ادا کر دینا چاہیے، اگر کوئی شوہر زندگی میں ادا نہیں کرے گا اور بالفرض اس کی وفات بیوی سے پہلے ہوجاتی ہے تو ترکے میں سے تکفین وتدفین کے مصارف وضع کرنے کے بعد سب سے پہلے قرض کی ادائی ہوتی ہے اور اس میں بیوی کا دَینِ مہر بھی شامل ہے، وراثت کی تقسیم کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ پس مہر شوہر کی مالی استعداد کے مطابق مقرر کریں اور اُسے ادا بھی کریں۔ بہتر یہ ہے کہ شوہر کی جانب سے جو زیور بیوی کو دیا جاتا ہے، اسی کو مہر مقرر کر کے اس کی مِلک کردیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ مہر بروقت ادا ہو جاتا ہے، شوہر اپنی شرعی ذمے داری سے بری الذمہ ہوجاتا ہے اور عورت کو اس کا حق مل جاتا ہے۔ نیز عورت کی ملکیت میں ایسا مالِ نامی آجاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، جو ہنگامی ضرورت میں کام آسکتا ہے۔
اسی طرح لڑکے اور لڑکی والے ایک دوسرے کو جو تحائف دیتے ہیں، وہ ہبہ کردیے جائیں اور اس کے لیے باقاعدہ دستاویز مرتب کی جائے تاکہ بعد میں کوئی تنازع پیدا نہ ہو، نکاح فارم میں بھی ایسے اندراجات کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
(۳) ہمارے ملک میں بالعموم ایک روایت یہ بھی ہے کہ کوئی بیٹا یا بھائی ملک یا گائوں سے باہر بڑے شہروں میں جاکرملازمت یا کاروبار کرتا ہے اور وہ اپنی ساری بچت اور اندوختہ (Savings) اپنے والد یا بڑے بھائی کے نام ارسال کرتا ہے۔ والد یا بڑا بھائی اُس سے اپنی خاندانی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں اور اگر رقم وافر ہے تو اپنے نام پر مکان بناتے ہیں، پلاٹ اور جائدادیں خریدتے ہیں۔ جب وہ لمبے عرصے کے بعد واپس آتے ہیں تو اُن کے نام پر نہ کوئی مکان ہوتا ہے اور نہ کوئی جائداد ہوتی ہے اور اگر خدانخواستہ والد صاحب یا بڑے بھائی کا اس دوران انتقال ہوگیا ہو تو اُن کے نام جو بھی جائداد یا ترکہ ہے، سب ورثاء اُس میں سے اپنے اپنے حصے کے طلب گار ہوتے ہیں اور رقم بھیجنے والے کو کوئی قانونی تحفظ نہیں ملتا، ملک کا قانون صرف یہ دیکھتا ہے کہ بینک میں رقم کس کے نام پر ہے اور جائداد کس کے نام پر ہے۔
اسی طرح بعض اوقات ملک سے باہر جانے والے یا کسی بڑے شہر میں ملازمت اختیار کرنے والے مالی آسودگی کی غرض سے کئی برس تک اپنے وطن کی طرف مراجعت نہیں کرتے، حالانکہ وہ شادی شدہ بھی ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن کا انجام انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے، ایک حدیث میں رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تم پر تمہاری جان کا بھی حق ہے، تم پر تمہارے رب کا بھی حق ہے، تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے اور تم پر تمہارے بیوی بچوں کا بھی حق ہے، پس ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو، (سنن ترمذی)‘‘۔ امام عبدالرزاق اپنی سند کے ساتھ ابن جُریج کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’مجھے ایک ثقہ شخص نے بتایا کہ سیدنا عمرؓ نے (راتوں کے) گشت کے دوران ایک عورت کو اپنے شوہر کے فراق میں پُردرد اشعار پڑھتے ہوئے سنا، تو سیدنا عمر نے پوچھا: تمہارا مسئلہ کیا ہے، اُس خاتون نے عرض کی: میرا شوہر چار ماہ سے سفر پر نکلا ہوا ہے اور مجھے اس کی یاد ستارہی ہے، سیدنا عمرؓ نے فرمایا: تمہارے دل میں کوئی برا ارادہ پیدا ہورہا ہے، اس نے عرض کی: اللہ کی پناہ! ایسا ہرگز نہیں ہے، سیدنا عمر نے فرمایا: اپنے جذبات پر قابو پائو، میں اس کی طرف کسی قاصد کو بھیجتا ہوں، چنانچہ آپ نے اس کی طرف قاصد بھیجا، پھر سیدنا عمر اُمُّ المومنین سیدہ حفصہ کے پاس آئے اور فرمایا: ایک معاملے نے مجھے مشکل میں ڈال دیا ہے، میں آپ سے پوچھنے آیا ہوں، میری مشکل حل کریں، انہوں نے پوچھا: ایک عورت اپنے شوہر کے بغیر کتنے دن گزار سکتی ہے، سیدہ حفصہ نے حیا سے سرجھکا لیا (کیونکہ وہ آپ کی صاحبزادی تھیں)، سیدنا عمر نے فرمایا: حق بیان کرنے میں کوئی حیا نہیں ہے، تو سیدہ حفصہ نے فرمایا: تین ماہ یا زیادہ سے زیادہ چار ماہ، تو سیدنا عمر نے حکم جاری فرمایا کہ مجاہدین کو چار ماہ سے زیادہ گھروں سے دور نہ رکھا جائے، (مصنف عبدالرزاق)‘‘۔
لہٰذا ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، آئیڈیل ازم زیادہ عرصے نہیں چلتا، جو شخص پیسے کماتا ہے، اپنی استطاعت اور دوسروں کی ضروریات کے مطابق اُن کے گزر اوقات کے لیے رقم الگ دے اور باقی نقد کی صورت میں یا بینک بیلنس کی صورت میں یا غیر منقولہ جائداد کی صورت میں اپنے نام پر رکھے۔ ایسی صورت میں نہ کوئی جھگڑا پیدا ہوگا، نہ نفرتیں جنم لیں گی اور نہ کسی کی حق تلفی ہوگی۔
(۴) اگر مکان یا پلاٹ مشترکہ ہے یا باپ کی ملکیت ہے اور اس کو تعمیر کرنا ہے یا اُس میں توسیع کرنی ہے، مزید منزلیں بنانی ہیں، وغیرہ۔ تو اس وقت معاملات کو طے نہیں کیا جاتا، کسی ایک بیٹے کی کمائی اس پر لگادی جاتی ہے، یہ طے نہیں ہوتا کہ آیا وہ بطورِ ہبہ دے رہا ہے یا بطورِ قرض دے رہا ہے، لیکن جب وراثت کی تقسیم کا وقت آتا ہے تو یہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں، ہر دارالافتاء کو ایسے سوالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ مفتی یہ مسئلہ حل کرے، افتاء اور قضا دوالگ منصب ہیں۔ پس بہتر ہے کہ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے اور یہ معاملات پیسا لگانے سے پہلے طے کرلیے جائیں تاکہ نہ بعد میں مسائل پیدا ہوں اور نہ نفرتیں جنم لیں، ان کاموں کے لیے باقاعدہ دستاویز مرتب ہونی چاہیے اور جن افراد کا مفاد اس سے وابستہ ہے، گواہوں کی موجودگی میں ان سب سے دستخط لینے چاہییں۔
(جاری ہے)