افروز عنایت
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، جس بندے کو رب العزت نے توفیق دی ہو سواری اور آنے جانے کا خرچ اور وہاں کی ضروریات کو پورا کرنے کی۔۔۔ اور اپنے پیچھے اہل و عیال کی طرف سے مطمئن ہو اور صحت اور تندرستی بھی عطا کی ہو اور ایسا بندہ حج نہ کرے تو سخت گنہگار ہے۔
حدیثِ مبارکہ ہے کہ جس شخص کو ظاہری مجبوری، یا ظالم بادشاہ، معذور کرنے والی بیماری مانع حج نہ ہو اور پھر وہ حج کیے بغیر مر جائے تو اس کو اختیار ہے کہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر مرے۔ (مشکوٰۃ)
اسی طرح رب العالمین کا فرمان ہے کہ: ’’اور اللہ کے لیے لوگوں کے ذمے ہے اس گھر کا حج کرنا۔ جو کوئی پا سکے اس کی طرف راہ، اور جو شخص منکر ہو تو اللہ تعالیٰ تمام جہاں والوں سے بے پروا ہے‘‘ (پارہ نمبر 4 آیت 1)۔ یعنی صاحبِ حیثیت اور صاحبِ صحت کو حج کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے، یہ نہ ہو کہ وقت نکل جائے۔ لہٰذا جب رب العزت نے مجھے توفیق عطا کی تو حج کے لیے رختِ سفر باندھا۔ 45 دنوں کے سفرِِ حج کا ایک ایک پل، ایک ایک لمحہ چاہے وہ مکہ میں گزارے گئے ہوں یا مدینہ میں، میرے لیے ان کی یاد آج بھی باعثِ تسکین ہے۔
حج کی تربیتی کلاس میں مولانا صاحب کی بیان کی ہوئی روایت جسے سن کر میرے جسم کا رواں رواں لبیک اللّٰھم لبیک کی صداؤں سے مجھے جھنجھوڑ کر اپنی خوش بختی کا احساس دلا رہا تھا، اور شکرانے میں ناچیز اپنے رب کے آگے سربسجود صرف آنسوؤں کا نذرانہ ہی پیش کر پا رہی تھی، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب کعبے کی تعمیر مکمل کی تو رب العزت نے کہا کہ اب منادی کرکہ بندے اللہ کے گھر کا طواف آکر کریں۔ حضرت ابراہیمؑ نے عرض کی: یااللہ میری آواز ان سب تک کیسے پہنچے گی؟ رب العزت نے فرمایا کہ تُو منادی تو کر، یہ آواز اللہ کے حکم سے ازل سے ابد تک آنے والے تمام بندوں کی ارواح تک پہنچے گی چاہے وہ ماں کے رحم (مادر شکم) میں ہی ہو، اور جس نے لبیک کہا اسے زندگی میں حج نصیب ہوگا (یہ اس روایت کا مفہوم ہے)۔
چنانچہ جب مکہ کی مقدس زمین پر میرا پہلا قدم پڑا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہماری ارواح نے بھی حضرت ابراہیمؑ کی آواز پر لبیک کہا، اس لیے ہم بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں رب نے حج کی سعادت عطا کی، اور اب اس حج کو رب الکریم حج مبرور فرمائے۔ (آمین)
مکہ مکرمہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے گھر (بیت اللہ) کی تعمیر کے لیے ساری دنیا میں سے اس سرزمین کو منتخب کیا اور تمام دنیا سے لوگ اللہ کی عبادت کے لیے یہاں حاضری دیتے ہیں۔ فرمانِ الٰہی اور احادیثِ مبارکہ سے اس شہر کی فضیلت واضح ہے۔ اس شہرِ مقدس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی ایسی بابرکت اور عظمت والی جگہیں رکھی ہیں جو اس کی عظمت اور تقدس میں اضافے کا باعث ہیں۔
چونکہ ہمارا قافلہ حج کے مناسک سے بہت دن پہلے مکہ پہنچ گیا تھا لہٰذا ان مقدس مقامات کی زیارت نصیب ہوئی مثلاً مسجد الحرام، حجراسود، رکنِ یمانی، ملتزم، مقام ابراہیمؑ ، صفاو مروہ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ، زمزم۔ اس کے علاوہ اس شہر میں واقع کچھ تاریخی مقامات جن کے بارے میں روایات موجود ہیں، کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔ غارِ حرا، جبل الرحمۃ، مولدِ رسولؐ اللہ، مسجدِ عائشہ، مسجدِ جن، جنت المعلیٰ وغیرہ۔
ان میں سے کچھ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کررہی ہوں۔
مسجدالحرام: جس کے بارے میں آپؐ کا ارشاد ہے ’’میری اس مسجد ]مسجد نبوی[ میں نماز دوسری مساجد میں نماز سے 50ہزار گنا زیادہ افضل ہے، سوائے مسجد حرام کے، اور مسجد حرام میں نماز دوسری مساجد میں نماز سے ایک لاکھ گنا زیادہ افضل ہے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے مسجد الحرام کی اہمیت اور فضیلت واضح ہے، اور خوش نصیب ہیں عمرہ اور حج کرنے والے کہ اس سعادت سے وہاں بار بار فیض یاب ہوتے ہیں۔
کعبہ شریف: یہ واحد عمارت ہے جس کے گرد رب العزت نے طواف کا حکم دیا اور اسے حج اور عمرے کا لازمی رکن بھی قرار دیا۔ اور اس کے علاوہ بھی طوافِ کعبہ کا اجر عظیم ہے۔
حجر اسود: یہ جنت سے اتارا ہوا پتھر ہے جو دودھ کی طرح سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے کالا کردیا۔ (جامع ترمذی)
اگر ممکن ہوسکے تو اس کا بوسہ لیں کیونکہ اس کا اجر ہے۔ چونکہ جب ہمارا قافلہ مکہ پہنچا تو حاجیوں کا اتنا رش نہ تھا، لہٰذا حجراسود کو بوسہ دینے کی سعادت بھی حاصل ہوئی (الحمدللہ)۔
رکن یمانی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رکن یمانی کو چھوتے تھے اور ہاتھ سے اس کا مسح فرماتے تھے۔
حجر: حجر کعبے کے شمال میں واقع مستدیر دیوار کا نام ہے۔ یہ دیوار رکن شامی اور غربی کے درمیان ہے۔ یہ کعبہ ہی کا حصہ ہے۔ کیونکہ قریشِ مکہ کے پاس اس کی تعمیر کے لیے حلال مال کی کمی ہوگئی تو حضرت ابراہیمؑ کی ڈالی ہوئی تمام بنیاد پر کعبے کی تعمیر نہ ہوسکی، اس طرح ان بنیادوں کو ایک دیوار کے ذریعے گھیر دیا گیا۔ اس لیے اس کا نام حجر پڑا۔
مقام ابراہیمؑ : یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیمؑ نے کھڑے ہوکر کعبہ کی اونچی عمارت کی تعمیر کی۔ سورۃ آل عمران کی آیت 97 میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’اس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیمؑ ہے، اس میں جو بھی آجائے وہ امن پاجاتا ہے‘‘ (سبحان اللہ)۔ اس مقام پر بارہا نماز (نفل) پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ رب العزت قبول فرمائے۔ (آمین)
زمزم: زمزم مسجد حرام میں موجود ایک مبارک کنواں ہے جو حجر اسود کی مشرقی جانب اور مقام ابراہیمؑ کے جنوب میں واقع ہے۔ زم زم کے پانی کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے۔ اسی مبارک پانی سے آپؐ کا سینہ مبارک دھویا گیا۔ آپؐ کی حدیثِ مبارکہ کے مطابق یہ روئے زمین پر سب سے بہترین پانی ہے۔ اس پانی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ بغیر کھائے پیے صرف اسے پینے سے بندہ ’’سیر‘‘ ہوجاتا ہے۔ اس چیز کا مشاہدہ مجھے بار بار ہوا (سبحان اللہ)۔ زم زم کا پانی شفا ہے۔ مناسک حج کے اختتام پر جب مجھے فلو اور بخار ہوگیا تو تمام دن میرا گزارا شہد اور آب زم زم پر تھا، اور دونوں چیزوں نے مجھے تقویت عطا فرمائی۔
صفا و مروہ: یہ مکہ میں واقع دو پہاڑ ہیں جو کعبہ کے مشرقی جانب ہیں۔ حج و عمرہ کرتے ہوئے ان ہی دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی جاتی ہے رب العزت کے حکم کے مطابق (یعنی دوڑا جاتا ہے)۔
منیٰ: منیٰ میں قیام و حج سے متعلق احکام کی انجام دہی حجاج کرام کے لیے لازمی ہے، مثلاً
عرفات: حجاج کرام 9 ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھیر کر ذکر الٰہی اور دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں۔
مزدلفہ: عرفات سے واپس لوٹتے ہوئے حجاج کرام کو مزدلفہ میں رات گزارنی ہوتی ہے، جہاں کے روح پرور مناظر تمام زندگی بندے کے دماغ پر نقش رہ جاتے ہیں۔ رب العزت ہر مسلمان کو ایسے مناظر دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک اور بات جو میں نے اس سرزمینِ مقدس پر نوٹ کی، کہ کچھ لوگ غیر شرعی اعمال میں ملوث نظر آئے۔ اپنے ہر عمل میں شریعت اور سنتِ رسولؐ کو مدنظر رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ کوئی بھی غیر شرعی عمل ثواب کے بجائے گناہ کا موجب بنتا ہے، یعنی مسنون و شرعی طریقے پر طواف، عمرہ اور حج کے مناسک کی ادائیگی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اور اس کی معلومات ہمیں مستند احادیث اور دینی کتب سے مہیا ہوسکتی ہیں۔
مکہ مکرمہ میں کچھ تاریخی مقامات ہیں جن کی شرعی طور پر تو کوئی فضیلت نہیں لیکن آپؐ اور صحابہ کرامؓ کے تعلق سے مسلمان ان مقامات کی زیارت کرتے ہیں۔
مکہ مکرمہ کی قریبی زیارتیں:
23 اکتوبر کو کارواں نے پیدل زیارتوں پر جانے کا پروگرام بنایا۔ بعد نمازِ عشاء کارواں مولانا صاحب کی رہنمائی میں روانہ ہوا۔ ہماری پہلی منزل حرم پاک سے تین یا چار منٹ کے فاصلے پر مسجد رقم تھی۔ اس جگہ پہلے حضرت عبدالمطلب کا مکان تھا، یہیں حضرت حمزہؓ عم الرسولؐ کی ولادت ہوئی۔ حضرت حمزہؓ کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ نہ صرف آپؐ کے چچا بلکہ دودھ شریک بھائی بھی تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی بہن تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت حمزہؓ کا اسلام قبول کرنا آپؐ کے چہرۂ انور پر تبسم لانے کے لیے ہوا کیونکہ حضرت حمزہؓ آپؐ سے بے انتہا محبت کرتے تھے، باوجودیکہ آپؓ نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن اگر کوئی کافر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرتا تو آپؓ بڑی دلیری سے اس کا گریبان پکڑتے۔ ایک مرتبہ حضرت حمزہؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ کس طرح آج آپؓ نے ابوجہل کی پٹائی کی ہے کیونکہ وہ بدبخت آپؐ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ آپؐ خاموش رہے۔ حضرت حمزہؓ نے پوچھا: کیا آپؐ کو خوشی نہیں ہوئی؟ آپؐ نے جواب دیا کہ مجھے خوشی اُس وقت ہوگی جب آپ ایمان لائیں گے۔ حضرت حمزہؓ نے فرمایا: میں آپؐ کے چہرۂ انور پر تبسم اور خوشی دیکھنے کے لیے ابھی اسلام قبول کرتا ہوں۔ چنانچہ آپؓ اسی وقت مسلمان ہوگئے۔
مسجد رقم رات زیادہ ہونے کی وجہ سے بند تھی۔ یہاں پانچ نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد مسجد بند ہوگئی تھی۔ ہم نے یہاں دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہاں بار بار آنے کی توفیق نصیب فرما۔ ذرا آگے بڑھے تو وہ علاقہ تھا جسے محلہ مسفلۃ کہا جاتا ہے۔ یہیں حضرت ابراہیمؑ اور ان کے کنبے کا قیام تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی واحد بستی ہے جسے کسی خاتون نے آباد کیا۔ اس کا نام حضرت ہاجرہ نے ہی مسفلۃ رکھا تھا۔
ہماری اگلی منزل مقیرۃ الشبیکۃ تھی۔
باب فہدالملک سے آگے بڑھے، سامنے کی طرف جبل ابوقبیس تھا۔ روایت ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے اسی جبل سے پتھر لیا گیا اور اسی جبل کے بارے میں آپؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ مکہ اور جبل ابوقبیس پرکبھی زلزلہ نہیں آسکتا۔ باب اجیاد، باب اسماعیل سے گزرتے ہوئے ہم آگے بڑھے، گھڑی کے سامنے سے گزرے، رات کے 12:40 ہوئے تھے۔ 12:50 پر کارواں مقبرہ الشبیکۃ پہنچا۔ چار دیواری کے اندر بڑا میدان تھا۔ سامنے ایک بڑا ہنی گیٹ تھا جس کے جھروکوں سے اندر کا منظر نظر آرہا تھا۔ مولانا نسیم الدین نے بتایا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں دورِ جاہلیت میں کفار اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ مولانا نسیم الدین نے ایک صحابی کا واقعہ بھی بتایا کہ وہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اس کیے پر روتے اور ملال کرتے تھے کہ کس طرح انھوں نے دورِ جاہلیت میں اپنی بچیوں کو زندہ دفن کردیا تھا۔ اللہ انہیں اس ظلم پر معاف فرمائے۔ آپؐ نے انھیں تسلی دی کہ اللہ بڑا غفورالرحیم ہے، اس سے معافی مانگو، وہ ضرور معاف فرمائے گا کیونکہ یہ گناہ تم سے کفر کی حالت میں سرزد ہوا۔ میں تصور کی آنکھ سے اس تمام واقعے کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے میرے آگے ایک فلم چل رہی ہو کہ کس طرح وہ ننھی منی بچیاں روئی اور گڑگڑائی ہوں گی۔ قافلے کے تمام لوگوں کی آنکھیں واقعہ سن کر ڈبڈبانے لگیں، ساتھ ہی اپنے مسلمان ہونے پر فخر اور تشکر بھی محسوس ہورہا تھا، خصوصاً ہم خواتین یہ سوچ رہی تھیں کہ یہ واحد دین ہے جس نے عورت کی ذات کو ہر روپ میں عزت و احترام کا درجہ دیا، چاہے وہ ماں ہو، بیٹی، بہن، بیوی ہو یا کوئی عام عورت۔ مولانا نسیم الدین نے مزید ایک روایت بیان کی کہ حضرت سمعیہؓ اور حضرت یاسرؓ دونوں میاں بیوی اسلام کے پہلے شہید ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ انہیں جب شہید کیا گیا تو آپؐ نے انہیں جنت المعلیٰ میں دفن کرنے کے لیے کہا، لیکن ابوجہل آڑے آگیا کہ یہ ہمارا آبائی قبرستان ہے، ہم انہیں یہاں دفن نہیں ہونے دیں گے۔ آپؐ کو معلوم ہوا تو آپؐ نے انہیں مقبرہ الشبیکۃ میں دفن کرنے کے لیے کہا۔ ابوجہل پھر آڑے آگیا کہ یہ میری زمین ہے۔ آخر اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے اس زمین کو خرید لیا، پھر حضرت سمعیہؓ اور حضرت یاسرؓ کو یہاں دفن کیا گیا۔ اُس وقت سے یہ زمین وقف ہے اور کسی حکومت کی ملکیت نہ رہی بلکہ موجودہ حکومت نے اس میدان پر بلڈوزر گھمانے کی بھی کوشش کی، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام بلڈوزر اور مشینیں یہاں آکر بند ہوجاتی ہیں۔ یہاں فاتحہ خوانی کے بعد کارواں واپس پلٹا، کیونکہ ہماری اگلی منزل جنت المعلیٰ تھی۔ جنت المعلیٰ کے راستے میں تین مساجد آتی ہیں مسجد جن، مسجد شجرۃ، مسجد رایۃ۔ سب سے پہلے ہم مسجد جن پہنچے جس کے بارے میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ ایک صحابی عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ یہاں موجود تھے کہ جن آپؐ سے ملاقات کے لیے آئے۔ حضرت جبریلؑ نے آپؐ کو اطلاع دی۔ آپؐ نے اس صحابی کے گرد قرآنی آیات سے حصار قائم کیا۔ دھواں سا ہوا، پھر جن آئے جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے جانے کے بعد اس صحابی نے آپؐ سے حصار کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: جن آئے تھے، میں نے تمہارے گرد حصار اس لیے قائم کیا کہ اگر کوئی شریر ہو تو تمہیں نقصان نہ پہنچائے۔ رات زیادہ ہونے کی وجہ سے مسجد بند تھی، ہم نے باہر ہی سے زیارت کی اور مسجد شجرۃ کی طرف روانہ ہوئے جو کہ زیادہ دور نہ تھی، چند منٹ میں قافلہ وہاں پہنچ گیا۔ شجرۃ عربی زبان میں درخت کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ یہاں سے گزر رہے تھے کہ مکہ کے ایک طاقتور پہلوان نے آپؐ کو لڑنے کے لیے چیلنج کیا۔ آپؐ نے اس کے کندھے پر صرف ہاتھ رکھا تو وہ گر گیا۔ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا لیکن وہ وعدے کے مطابق مسلمان نہیں ہوا بلکہ کہنے لگا کہ وہ سامنے جو درخت ہے آپؐ اسے حکم دیں کہ وہ یہاں قریب آئے۔ آپؐ نے اس کو کہا کہ تم خود اس سے کہو وہ اللہ کے حکم سے یہاں میرے قریب آئے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ وہ درخت آپؐ کے سامنے آگیا۔ پہلوان نے کہا کہ اسے واپس جانے کے لیے کہیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم اس سے جانے کے لیے خود کہو، یہ درخت اللہ کے حکم سے واپس اپنی جگہ چلا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ سبحان اللہ یہ معجزہ اللہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ اس واقعے کی یاد کے مطابق یہاں مسجد شجرۃ تعمیر کی گئی۔ مسجد کے بالکل سامنے ہی ایک درخت لگا ہوا ہے۔ ہماری اگلی منزل مسجد رایۃ تھی جو مکہ پوسٹ آفس کے بالکل سامنے ہے۔ رایۃ عربی زبان میں جھنڈے کو کہتے ہیں، روایت ہے کہ فتح مکہ کے بعد اس جگہ آپؐ نے کفارِ مکہ کو بلایا اور تاریخی خطاب فرمایا اور پرچم اسلامی لہرایا، ساتھ ہی کفارِ مکہ کے لیے عام معافی کا بھی اعلان فرمایا۔
اس طرح تاریخ انسانی میں پہلی بار نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے سزا کے بجائے کھلے دل سے معاف کرنے اور عفو و درگزر کی عظیم مثال قائم کی۔ جو قوم مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھی اُس پر غلبہ پانے کے بعد کسی ملامت کے بغیر اسے معاف کردیا۔ یہ آپؐ ہی کی شانِِ عظمت تھی۔ یہ مثال اُس ہستی نے قائم کی جس کے بارے میں رب العزت کا ارشاد ہے کہ ’’ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا‘‘۔ تینوں مساجد حسنِ تعمیر کا خوبصورت نمونہ تھیں۔ مسجد رایۃ کی زیارت کے بعد قافلہ آگے کی طرف بڑھا۔ رات کافی ہوچکی تھی، اگرچہ زیادہ رونق نہ تھی لیکن سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت جاری تھی، بلاخوف و خطر پیدل ہمارا قافلہ جس میں جوان، بوڑھے، بچے، خواتین سب شامل تھے رات 1:30 بجے جنت المعلیٰ پہنچا۔ حدِّنظر تک پھیلا یہ قبرستان جس میں اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کا مدفن بھی ہے، آپؐ کے خاندان کے کافی افراد اسی قبرستان میں دفن ہیں۔ مولانا صاحب نے نشاندہی کی کہ ہرے دروازے کے پاس تیسرے نمبر پر حضرت خدیجہؓ کی قبرِ مبارک ہے۔ ہم سب نے اہلِ قبور اور خصوصاً اُم المومنین خدیجۃ کبریٰؓ کے لیے فاتحہ پڑھی۔ قبرستان کے آس پاس اور سڑکوں پر روشنی کا اچھا انتظام ہے، ساتھ ہی آسمان پر چاند کی روشنی تھی۔ باوجود تین ساڑھے تین گھنٹے پیدل سفر کے ہر شخص ہشاش بشاش نظر آرہا تھا، نہ آنکھوں میں نیند اور نہ ہی پیروں میں تھکن کا احساس۔ اجتماعی دعا کے بعد وہیں قافلے والوں کی تواضع آئس کریم سے کی گئی۔ اس سرزمین پر ہر چیز کا اپنا ہی مزا اور لطف ہے۔ وہ گھڑی، وہ لمحے، وہ آئس کریم، راستے میں خوش گپیاں، مولانا صاحب کی پُراثر باتیں سب ہی یادگار ہیں۔ کارواں کے سب افراد ایک دوسرے سے یوں گھل مل گئے تھے جیسے برسوں کی شناسائی ہو، اور اُس وقت تو بالکل یوں محسوس ہورہا تھا کہ ہم سب ایک ہی فیملی ہیں اور ایک ہی مقصد کے تحت ہم سفر ہیں۔
رات دو بجے ہوٹل پہنچے۔ میری ایک یہ بھی بری عادت ہے کہ اگر تھکن زیادہ ہو تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی ہے، لیکن سبحان اللہ اس سرزمین پر پہنچ کر تو جیسے سب کچھ ہی بدل گیا تھا۔ میری عادتیں، میری سوچ۔۔۔ جیسے ہی سر تکیے پر رکھا خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگی۔ چند گھنٹے کی بے سدھ نیند لے کر فجر میں اُٹھی تو بالکل تازہ دم تھی۔
اس سفرِ مبارک کا دوسرا عمرہ 25 اکتوبر (2010ء) کو کارواں کے ساتھ ادا کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس عمرہ کا احوال اور زیارت مقام مقدسہ کا تاریخی پس منظر بھی بڑا دلچسپ ہے، اور پہلے عمرے کی طرح اِس بار بھی ہر شخص کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ بعد نماز عشا مسجد جعرانہ کی طرف روانہ ہوئے، یہ ایک خوبصورت اور وسیع مسجد ہے۔ نفل ادا کرنے کے بعد مسجد سے ملحق وسیع احاطے میں کارواں کے تمام افراد جمع ہوئے۔ مولانا صاحب کی رہنمائی میں عمرے کی نیت و اجتماعی دعا کی گئی، پھر اس علاقے کے تاریخی پس منظر کو بیان کیا گیا۔ قریب ہی شہداء حنین کے مزارات تھے۔ قبیلہ بنوسعد (جہاں آپؐ نے مدتِ رضاعت گزاری)، طائف کے راستہ یانوح میں ’’جعرانہ‘‘ سے آگے جنوب مشرق میں ہی بیس کلومیٹر آگے شحمہ کی پہاڑی بستی میں آباد تھا اور وادی حنین بھی مشرق میں کسی جگہ واقع تھی۔ اسی وادی میں غزوہ حنین پیش آیا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کے بارہ ہزار کے لشکر کے مقابلے میں کفار کا لشکر 30,000 نفوس پر مشتمل تھا۔
حب گھمسان کا رن پڑ رہا تھا تو سرکارؐ نے حضرت عباسؓ کو فرمایا کہ مجھے ایک مٹھی کنکریوں کی دو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کی مٹھی بھر لی اور اسے کفار کی طرف پھینکا اور زبانِ پاک سے فرمایا ’’دشمنوں کے چہرے بدنما ہوجائیں، ان کی مدد نہ کی جائے‘‘۔ چنانچہ دشمن کا کوئی سپاہی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ کنکریاں نہ پڑی ہوں اور دیکھنے سے معذور نہ ہوگیا ہو۔ آپؐ کی پھینکی ہوئی کنکریاں میزائل کی طرح ایک ایک کرکے اپنے ہدف کے کافر کو لگتی گئیں اور وہ معذور ہوتے گئے۔ آپؐ نے اللہ کے حکم سے جنگِ بدر اور پھر غزوہ حنین کے موقع پر کافروں کے لشکر پر کنکریاں پھینکیں جس کے باعث کافر جنگ کرنے کی قوت سے معذور ہوگئے۔ غزوہ حنین میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے صرف چار شہید ہوئے (1) حضرت ایمن بن ام ایمن، (2) حضرت یزید بن رمعہ بن الاسود، (3) حضرت سراقہ بن الحرث عجلانی، (4) حضرت ابو عامر بن اشعری۔
ان چاروں شہداء حنین کی تدفین سے فارغ ہوکر آپؐ نے صحابہ سے پانی تلاش کرنے کے لیے کہا۔ ایک صحابی نے آکر بتایا کہ قریب ہی پانی کا کنواں تو ہے لیکن اس کا پانی انتہائی کڑوا ہے۔ یہ سن کر آپؐ کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا لعابِ دہن کنویں میں ڈالا جس کی بدولت کنویں کا پانی انتہائی شیریں ہوگیا۔ پھر آپؐ نے عمرہ کا احرام باندھا۔ اس موقع پر کفار کے لشکر کے جو قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے وہ حضرت سعدیہ کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت سعدیہ آپؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئیں۔ آپؐ نے اپنی چادرِ مبارک حضرت سعدیہ کے لیے بچھائی اور ان کو عزت دی۔ حضرت سعدیہ کی سفارش پر آپؐ نے قیدیوں کو چھوڑ دیا۔ قیدیوں نے جب آپؐ کا اپنی رضاعی والدہ کے ساتھ حسنِ سلوک دیکھا تو متاثر ہوئے اور سب مسلمان ہوگئے۔
ہم سب تصور کی آنکھ سے اس واقعہ کو دیکھ اور محسوس کررہے تھے۔ ہم سب نے ان شہداء حنین کو (جو یہاں جعرانہ میں چار دیواری کے احاطے میں دفن ہیں) سلام پیش کیا اور حرم کی طرف روانہ ہوئے تاکہ عمرہ ادا کریں۔ اب حرم میں پہلے کی نسبت رش بڑھ گیا تھا، لیکن اس رش کے باوجود اللہ نے آسانی فرمائی۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد تہجد اور نمازِ فجر ہم سب نے حرم پاک میں ہی ادا کی۔ حرم پاک میں گزاری اس رات کا ہر پل، ہر لمحہ میرے دل و دماغ میں پیوست ہے، جس کی وجہ سے میں نے اپنے باری تعالیٰ کو اپنی شہ رگ سے قریب محسوس کیا۔ چاروں طرف دودھیا روشنی، آسمان پر آہستہ آہستہ پھیلنے والی سپیدی، درمیان میں اللہ کا گھر اپنی پوری آب و تاب و شان و شوکت کے ساتھ اپنے رب کی وحدانیت اور ربوبیت کی گواہی دے رہا تھا۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد حرم پاک میں ہی خواتین کے حصے میں کمر سیدھی کرنے کے لیے ذرا لیٹ گئی تو اونگھ آگئی۔ پچھلے دو دنوں سے سوئی نہیں تھی اس لیے ایک گھنٹے تک بے خبر سوتی رہی۔ جب اُٹھی تو تازہ دم تھی۔ مجھے خود حیرانی ہورہی تھی کہ مجھے جگہ تو کیا بستر بدلنے سے بھی کہیں آسانی سے نیند نہیں آتی، اتنے لوگوں کے درمیان کیسے بے خبر بے سدھ سوئی رہی! سبحان اللہ یہ سب میرے رب کی رحمت تھی۔
جیسے کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ اس سرزمین پر اللہ کی ہر نعمت پر آنکھیں چھلک پڑتی ہیں، سو اس وقت بھی میری یہی کیفیت تھی۔ شاید تمام پریشانیوں سے آزاد ہوکر یکسو ہوکر اپنے رب کی طرف راغب ہونے کا یہ نتیجہ تھا۔ ایسے جذبات کی یہاں واپس آکر میں نے بہت کمی محسوس کی۔