قائد اعظم اور اسلامی پاکستان

236

سید اقبال چشتی

ابو جہل (عمر بن ہشام) اپنے مکہ کے بڑے نا مور ساتھیوں کے ساتھ محو گفتگو ہے اورگفتگو کا محور نبیؐ کی نبوت اور دعوت اسلام ہے۔ ایک فرد ابوجہل کو مخاطب کر کے کہتا ہے ’’تمہارا کیا خیال ہے کیا محمد ؐ سچے نبی ہیں؟‘‘
اس پر ابو جہل کہتا ہے ’’میں قسم کھاتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے سچے نبیؐ ہیں۔‘‘
اس جواب پر سارے اسلام دشمن حیرت سے ابوجہل کو دیکھتے ہیں اور فوراً پوچھتے ہیں ’’تو پھر کیا ارداہ ہے؟‘‘ اس بار ابو جہل پھر قسم کھاتا ہے اور کہتا ہے ’’میں قسم کھاتا ہوں کہ ایمان نہیں لاؤں گا۔‘‘
یہ تو ابو جہل تھا جس نے حقیقت کا اعتراف کر نے کے باوجود اپنی جاہلانہ روایات کا ساتھ دیتے ہوئے نبیؐ کی نبوت کو ماننے سے انکار کردیا تھا اس لیے اللہ کے نبئ مہربانؐ نے عمر بن ہشام ‘ جو مکہ کا سردار تھا‘ کو ’’ابو جہل‘‘ کا خطاب دیا تھا بعد میں ابو جہل تو اپنے انجام کو پہنچا لیکن آج بھی ابوجہل کے پیرو کار اسی انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور ’’میں نہ مانوں‘‘ کی صدا لگاتے رہتے ہیں اور قیام پاکستان کے مقاصد کو سیکولر ریاست کی جدوجہد کا ثمر گردانتے ہیں ان میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی شامل ہیں جنہوں نے جشن آزادی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں یہ کہا کہ ’’پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بننے دیں گے‘ پاکستان ملائیت کے لیے وجود میں نہیں آیا تھا۔‘‘ عوام کو پیغام دیا کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کو جدید‘ حقیقی طور پر جمہوری اور لبرل ملک بنانے کا عزم کریں۔
محترم زرداری صاحب یہ بھول جاتے ہیں کہ انگریزوں نے پاکستان ہمیں طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا کہ جس کا جیسا دل چا ہے اس ملک کو چلانا شروع کردے۔ یہ ملک لاکھوں قربانیوں اور ایک عظیم جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا تھا اس کی بنیادوں میں شہداء کا خون شامل ہے اور برصغیر کے مسلمانوں نے اپنا خون سیکولر یا لبرل پاکستان کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے لیے بہایا تھا پاکستان کی پوری تحریک اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے حاصل کیا گیا تھا لیکن کیا کریں کہ وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے ایک سازش کے تحت اقتدار پر قبضہ کرلیا اورستر برسوں سے انہیں کی حکمرانی ہے۔ آج تک اس ملک میں ملاؤں کی حکومت قائم نہیں ہوئی اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی زرداری اور ان کے حواری کئی بار حکمرانی کے منصب پر آنے کے با وجود عوام کو آسودگی فراہم نہیں کر سکے اور اپنا اقتدار جاتا دیکھ کر اسلام کے خلاف بیان دے کر مغرب کو خوش کرنے کے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں خواندگی کا تناسب ویسے ہی بہت کم ہے لیکن شاید ہمارے یہ لیڈران بھی مطالعے کا شوق نہیں رکھتے اگر یہ لیڈران مسلم تاریخ کو پڑھنے میں شرم محسوس کر تے ہیں تو کم از کم تحریک پاکستان پر لکھی گئی کتابوں کا ہی مطالعہ کر لیا کریں کہ قائد اعظم‘ جن کی قیادت میں قیام پاکستان کی جدوجہد ہوئی‘ بانی پاکستان نے کن بنیادوں پر تحریک پاکستان چلائی تو ان کو یہ بیان دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
11 ستمبر قائد اعظم محمد علی جناح کا یومِ وفات ہے۔ آج کے دن جب ہمارا قائد ہم سے جدا ہواتھا تو بھی اسے پاکستان اور اسلام ہی کی فکر تھی لیکن قدرت نے قائداعظم کو موقع نہیں دیا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ان کے فرمودات اور تقاریر آج بھی موجود ہیں۔کچھ حوالہ جات قائد اعظم کی تقریروں کے پوری قوم کی خد مت میں پیش ہیں کہ جن کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنایا گیا تھا وہ اپنے ذہنوں سے پاکستان اور اسلام کو الگ کر نے کی سوچ نکال کر پھینک دیں۔
26 دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے قرآن مجید کا حوالہ یوں دیا کہ ’’ہماری عظیم المرتبت کتاب قرآن مجید ہے اور یہی مسلم انڈیا کا آئین ہے‘ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہماری وحدت زیادہ سے زیادہ استوار ہوتی جائے گی۔ ایک اللہ‘ ایک کتاب ایک رسول ؐ اور ایک قوم۔‘‘
اسی اجلاس میں نواب بہادر یار جنگ نے قائد اعظم کے سا منے یہ تقریر کی تھی کہ ’’یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ہمارا مطالب�ۂپاکستان اس غرض سے ہے کہ ایسی مملکت قائم کریں جس کی بنیاد و اساس قرآنی نظام پر رکھی جائے۔‘‘ بہادر یار جنگ کے نظریے کی قائد اعظم نے سر ہلاکر تصدیق کی تھی۔ اگر ذرہ برابر بھی یہ نظریہ سیکولر بنیاد پر ہوتا تو پاکستان سے باہر یعنی انڈیا میں رہ جانے والے مسلمان تو کیا پاکستان کے مسلمان بھی کبھی پاکستان کی حمایت نہ کرتے اور پاکستان کا وجود میں آنا بھی بہت مشکل ہوجاتا‘ بلکہ مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمان بھی سیکولر ازم کی بنیاد پر چلائی جانے والی تحریک پاکستان کے قیام کی تحریک میں کبھی حصہ نہ لیتے اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
’’جدا ہو دین سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘
اور بلاشبہ یہی چنگیزیت ہی دراصل سیکولر ازم ہے۔ اس حوالے سے مولانا مودودی نے بھی فرمایا تھا کہ ’’اگر قیامِ پاکستان کی تحریک اسلام کے نام پر نہیں چلائی جاتی تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ برصغیر کے مسلمان قیام پاکستان کی تحریک میں اپنا خون تو کیا پسینہ بھی بہانا پسند نہیں کرتے۔‘‘ یقیناً یہ اسلام ہی کا جذبہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو جس نعرے نے ایک پلیٹ فارم اور ایک قیادت کے گرد مجتمع کیا وہ اسلام ہی کا نعرہ تھا۔ لوگ قائد اعظم کی انتھک محنت کو دیکھ رہے تھے کہ ان کا قائد صرف ان کے حقوق اور ان کی آزادی کی جدوجہد کے لیے سرگرم ہے اسی لیے قائد اعظم نے25 دسمبر 1942( برتھ ڈے کی استقبالیہ تقریر) کے موقع پر ان کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا تھا ’’مسلمانان برصغیر اس قدر میرا اکرام و احترام کر رہے ہیں اور میرے لیے اس قدر الفت و محبت کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ آخر اس کا راز کیا ہے ظاہر ہے اس کا راز صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ لا کھوں، کروڑوں لوگوں کے دلوں میں جو بات اور آرزو چھپی ہوئی تھی‘ وہ میں نے برملا کہہ دی ہے‘ جرأت مندی سے کہہ دی ہے‘ میں نے پوری ذمہ داری سے آپ کی خد مت کی ہے اور آپ کی رہنمائی پوری دیانت داری سے کی ہے۔ ایک ہی چیز میرے پاس ہے خدمت‘ میں یقین دلاتا ہوں کہ میں مسلمانان برعظیم کی اور اسلام کی خدمت برابر کرتا رہوں گا۔‘‘
یہ اسلام ہی کی خدمت کا صلہ تھا کہ آپ کو ’’قائد اعظم‘‘ اور ’’بانی پاکستان‘‘ کہا گیا۔ اگر بانئ پاکستان اسلامی تعلیمات کو نہیں جا نتے تو کبھی بھی پاکستان کی تحریک اسلام کے حوالے سے نہیں چلاتے لیکن ان کا اسلام اور اس کی تعلیمات کا قدر گہرا مطالعہ تھا کہ انہوں نے دہلی میں مسلم لیگ کے 30 ویں اجلاس کے موقع پر لیگی رہنماؤں کو مخا طب کر کے کہا کہ ’’میں مسلم لیگ کے رہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پنجاب جائیں اور وہاں جا کر خود غرضی، قبائلی تصورات، حرص و حسد اور طبقاتی کشاکش کو دور کریں اور اس کی جگہ اسلام سے محبت اور ملت سے محبت کر نے کا جذبہ ابھاریں‘ لوگوں کو سمجھائیں کہ ان کی زندگی اور سر بلندی سب کچھ اسلامی تعلیمات میں مضمر ہے۔‘‘
قائد اعظم نے اس علاقے میں جہاں تعصب اور خود غرضی اور قبائلی رسم و رواج اور تصورات تھے‘ ان کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے ختم کیا کیو نکہ اسلام ہی سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے اور ایک طاقت بناتا ہے۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کی ایسی طاقت کو‘ جو بکھری ہوئی تھی‘ ایک جگہ جمع کیا اور ان کو بتایا کہ تم ایک قوت ہو اور اس قوت کو چند عناصر نے اپنے مفاد کے لیے ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ اس لیے آپ کی دوررس نگاہوں نے یہ دیکھ لیاتھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے یکجا کیا جائے۔
مسلم لیگ کے 22 مارچ 1940کے اجلاس میں قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں فر مایا ’’اگربرطانیہ مخلص ہے تو وہ انڈیا کو دو خود مختار مملکتوں میں تقسیم کر دے ’’مسلم انڈیا‘‘ اور ’’ہندو انڈیا‘‘ مسلمانان ہند کو اب بحیثیت خادم اسلام آگے بڑھ جانا چاہیے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ معاشرتی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی سطح پر منظم ہو گئے تو آپ ایک ایسی طاقت ہوں گے کہ ہر ایک قبول کرے گا۔ بعد میں مسلم انڈیا کا مطالبہ پاکستان کے مطالبے میں تبدیل ہوگیا جب ’’پاکستان کا مطلب کیا‘ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تو کسی نے نہیں کہا تھا کہ ہم یہ ملک اسلام کے لیے نہیں بلکہ سیکولرازم کے لیے حاصل کر رہے ہیں تحریک پاکستان کی تمام تر جدوجہد ایک اسلامی فلاحی ریاست کے حصول کے لیے تھی لیکن مغرب کے ایجنٹ اس وقت بھی یہ پروپیگنڈا کر تے تھے اور قیام پاکستان کے بعد ان کا پروپیگنڈا زیادہ ہو نے لگا تھا تاکہ لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کردیا جائے کہ پاکستان انڈیا کی طرح ایک سیکولر ملک ہوگا۔ لیکن قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی قائد اعظم نے اس کا منہ توڑ جواب دیا۔
25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن میں منعقدہ جلسہ میلاد النبیؐ سے خطاب کرتے ہو ئے قائد اعظم نے فرمایا ’’ہمارے رسولؐ عظیم ترین انسان تھے اور ایسے انسانِ کامل کہ دنیا کی آنکھ نے آپؐ جیسی کوئی بڑی شخصیت کبھی نہیں دیکھی۔ تیرہ سو سال پہلے آپؐ ہی نے اسلامی جمہوریت کی بنیاد رکھی‘ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کچھ لوگ دانستہ شر انگیزی کر تے ہیں اور پروپیگنڈا کر تے ہیں کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلامی اصول آج بھی ویسے ہی نافذ العمل ہیں جیسے تیرہ سو سال پہلے نافذ تھے۔‘‘
آج پوری دنیا جا نتی ہے کہ انسانوں کے بنائے ہو ئے قوانین دنیا میں ناکامی سے ہمکنار ہو چکے ہیں لیکن دینِ اسلام کے فراہم کردہ تمام قوانین‘ جو انسانوں کی دین و دنیا کی فلاح کے ضامن ہیں‘ آج بھی زندہ و جاوید ہیں صرف ان کو نافذ کرنے کی دیر ہے۔ ہمارے مغرب نواز پاکستانی لیڈر مغرب کے اشاروں پر اسلام کے خلاف بیان دے کر لوگوں کی ذہن سازی کر نے کی کو شش کر تے ہیں کہ شاید ہم نے یہ بیان دیا ہے تو لوگ اس پر سوچیں گے اور اس کی حمایت میں بات کریں گے‘ لیکن یہ ملک اسلام کے ما ننے والوں کی اکثریت کا ملک ہے اور اس ملک کی غالب اکثریت اسلام ہی کے نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے جو بھی اس ملک کے آئین کو اسلام سے الگ کر کے بنانے کی کو شش کرے گا کبھی کامیاب نہیں ہو گا کیو نکہ لوگ اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر نے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں لیکن اگر اسلام سے ہٹ کر بات ہوگی توکوئی فرد بھی باہر نہیں آئے گا پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کی جدوجہد کا مشورہ دینے اور ملائیت کو برا بھلا کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ مسلمان دنیا میں آنے کے بعد سے لے کر اس دنیا سے رخصت ہونے کے تمام مراحل میں ان ملاؤں کے تم محتاج ہو‘ بے نظیر کا جنازہ کسی پارٹی لیڈر نے نہیں بلکہ مولوی نے پڑھایا تھا۔ محترم زرداری صاحب! آپ اس ملک کے صدر رہ چکے ہیں اور اب آپ کبھی صدر نہیں بن سکیں گے‘ اگر اس ملک کا آئین بدلنا تھا اور سیکولر نظام کو رائج کرنا تھا تو اپنے دور حکومت میں کر لیتے یا پھر لبرل ازم کے نفاذ کی جدوجہد ہی کا آغاز کردیتے لیکن آپ کو معلوم ہے کہ یہ قوم لبرل ازم کے نعرے کے گرد کبھی جمع نہیں ہوگی اس لیے اس طرح کے خواب دیکھنا بند کردیں اور اپنی پوری توجہ عوام کی خدمت اوراس ملک کی تعمیر اور ترقی پر لگائیں باہر بیٹھ کر راحت و سکون کی زندگی میں اس طرح کے بیانات آپ کو زیب نہیں دیتے‘ ملک میں آئیں اور ہر طرح کی جدوجہد غریب عوام کے لیے کریں۔ مزار قائد پر جا کر حاضری لگانے کے سوا آپ نے کچھ نہیں کیا‘ اسلام کو تو آپ سمجھ نہیں سکے اور نہ ہی قائد اعظم ہی کو سمجھ سکے‘ قوم کے لیے سب کچھ قربان کر نے والے قائد اعظم کو ہی کم ازکم سمجھ لیتے جنہوں نے اپنی راحت و سکون کی زندگی غریبوں کی بہتری اور خو ش حالی کے لیے وقف کر دی تھی۔ قائد اعظم نے کراچی میں پاکستان کے آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ ’’اگر ہم یہ چا ہتے ہیں کہ اس عظیم مملکت کو مسرور و خوش حال بنائیں تو لازمی ہوگا کہ پورے جذبے سے اپنی تمام تر توجہ قوم کی بہتری پر مرکوز کر دیں خاص طور پر عوام اور غریبوں کی بہتری پر۔‘‘
اسی طرح ورکرز کنونشن سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ ’’میں بو ڑھا آدمی ہوں‘ اللہ نے مجھے اتنا کچھ عطا کیا ہے کہ میں اپنی زندگی راحت و آسائش کے ساتھ اطمینان سے گزار سکتا ہوں‘ پھر کیا بات ہے کہ میں اس طرح خون پسینہ ایک کرتا رہتا ہوں‘ ہر طرف مارا مارا پھرتا ہوں اور اتنی مشقتیں اٹھاتا ہوں یقیناً سرمایہ داروں اور امیروں کے لیے نہیں صرف تمہارے لیے‘ تم غریبوں کے لیے۔‘‘
پیپلز پارٹی نے غریب عوام کی حالت بدلنے کے لیے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا لیکن کئی بار حکمرانی کا منصب حاصل کر نے کے بعد بھی ملک کی حالت تو کیا لاڑکانہ کی بھی حالت نہیں بدلی۔ اگر زمینداری نظام‘ جو بھارت نے 1952 میں ختم کر دیا تھا‘ پاکستان بھی ختم کر دیتا تو یہ ملک سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے چنگل سے آزاد ہو جاتا۔ لیکن افسوس لیاقت علی خان کو‘ جو اس زمینداری نظام کے خاتمے کا اعلان کر نے والے تھے‘ اس اعلان سے قبل ہی قتل کرادیا گیا یقیناً یہ قتل اسلام کے خلاف سازش کر نے والے اُن جاگیرداروں نے ہی کرایا ہوگا جو اس ملک کو سیکولر ریاست دیکھنے کے خواہش مند تھے اور اپنی اجاراہ داری چا ہتے تھے‘ وہ تما م جاگیردار اور سرمایہ دار جو عوام کے حقوق کو پامال کر کے پھولے پھلے ہیں کہ جس نے ان کو حد درجہ خود غرض بنا دیا ہے‘ ایسا خود غرض کہ ان سے معقولیت کی توقع بھی دشوار ہوگیا ہے‘ عوام کا استحصال ان کے رگ و پے میں سرائیت کر چکا ہے‘ یہ اسلام کا سبق تک فراموش کر بیٹھے ہیں‘ حرص و ہوس اور خود غر ضی نے دوسروں کے مفادات کو پامال کرکے اپنے آپ کو فربہ کرنے کی راہ پر ان کو لگا دیا ہے‘ مال و دولت کی حرص ہے کہ ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی۔ سرمایہ داروں اور جا گیرداروں نے ستر سالوں میں پاکستان کوصرف لو ٹا ہے‘ دیا کچھ بھی نہیں۔ پاناما لیکس اور کرپشن کی داستانیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں‘ ان جاگیرداروں اور سر مایہ داروں سے بہتری کی اُمید فضول ہے۔ جس طرح ابوجہل نے اپنی قوم کو جہالت‘ غربت اور بدامنی کے تحفے دیے‘ اُسی طرح ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے اس جدید دور میں پاکستانی قوم کو جہالت، غربت اور بد امنی کے تحفے دیے ہیں۔ اگر عوام ترقی اور خوش حالی چا ہتے ہیں تو انہیں اسلامی نظام کو تھامنا ہوگا‘ ترقی اور خوش حالی کا سفر اسلامی پاکستان اور خوش حال پاکستان کے نعرے میں پو شیدہ ہے۔