شاید یہ اموات و وفات کا موسم ہے۔ روز ایک نئی خبر سننے کو مل جاتی ہے۔ آج سید منورحسن کی بھی سناؤنی آگئی۔
1970ء کے انتخابات کی گہما گہمی تھی۔ کیوں نہ ہوتی؟ ایک طویل مدت کے بعد ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کی بنیاد پر اور پارلیمانی نظامِ حکومت کے لیے انتخابات ہو رہے تھے۔ لوگ بڑے جوش و خروش سے شریک تھے۔ آر سی ڈی گراؤنڈ سعودآباد (کراچی) میں جماعتِ اسلامی کے جلسے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ میدان میں چاروں طرف رنگارنگ بینرز اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ آسمانی، زرد، سبز اور سفید بینرز۔ کیوں نہ اُن بینرز پر لکھے ہوئے چند نعرے بھی یہاں لکھ دیے جائیں۔ تاکہ … روشن ہمارے بعد بھی ’یاد‘ کا اِک شجر رہے:
’’پاکستان کا مطلب کیا … لا الٰہ اِلا اللہ‘‘ … ’’آئینِ ریاست کیا ہوگا … محمدٌ رسول اللہ‘‘ … ’’انقلاب، انقلاب … اسلامی انقلاب‘‘ … ’’روٹی، کپڑا اور مکان … سب کا ضامن ہے قرآن‘‘ … ’’ووٹ دو میزان کو … بچالو پاکستان کو‘‘ … ’’پاکستان کے دو بازو … ایک ترازو، ایک ترازو‘‘۔
وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے پہلی بار اسی گراؤنڈ میں جماعت اسلامی کا پرچم لہراتے دیکھا۔ سبز و سفید پرچم جس کے بائیں گوشے میں موجود آسمانی پٹی اسے ممتاز کرتی ہے۔ اور سب سے بڑا امتیاز تو اس کے سبز حصے پر سب سے اوپر آویزاں کلمۂ طیبہ کا خوبصورت طغریٰ ہے۔ آر سی ڈی گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سید ذاکر علی کو اس حلقے سے قومی اسمبلی کی رُکنیت کے لیے کھڑا کیا گیا تھا اور سید آصف علی کو صوبائی اسمبلی کی رُکنیت کے لیے۔ جوش و خروش بہت تھا۔
جلسے کے اسٹیج سے جوں ہی ایک ’نوجوان اور شعلہ بیان مقرر‘ سید منور حسن کو خطاب کی دعوت دی گئی، مجمع میں بھونچال آگیا۔ پورا گراؤنڈ نعروں سے گونج اُٹھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے پُرجوش طالب علموں کا جوش و خروش تھمنے ہی میں نہیں آتا تھا۔ ابھی 1964ء سے 1966ء تک وہ لگاتار تین سال اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اسٹیج سے بار بار ’بس، بس‘ کی ہدایات جاری ہونے کے باوجود کسی کے بس میں نہ تھا کہ وہ ان نوجوانوں سے ’بس‘ کروا سکے۔ حل یہ نکالا گیا کہ منور صاحب خود مائک سنبھال لیں۔ جیسے ہی ان کی آواز اُبھری … ’نحمدہٗ و نصلّی علیٰ رسولہٖ الکریم‘ … مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ منور صاحب کے چمکتے ہوئے سیاہ بال بڑے سلیقے سے ترشے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے بائیں طرف کی مانگ نکال رکھی تھی۔ اُس زمانے میں وہ کوٹ، پتلون اور ٹائی والے لباس میں بڑے ’کیوٹ‘ لگتے تھے۔ سرخ و سفید بھرے بھرے چہرے پر ویسی ہی چھوٹی تراش خراش کی سیاہ ڈاڑھی تھی جیسی جماعتِ اسلامی والوں کی ہوتی ہے۔ دمِ تقریر ہونٹوں پر ایک خفی سی مسکراہٹ رہتی جو بوقتِ مزاح گوئی ’جلی حروف میں‘ بدل جاتی۔
تقریر کا آغاز کرتے ہی اُنہوں نے سامعین کی سماعت، بصارت، توجہ اور حمایت ہر چیز کو اپنی مٹھی میں لے لیا۔ جیسے جیسے اُن کی طبیعت کی جولانی اور شگفتہ بیانی بڑھتی جارہی تھی، ویسے ویسے سامعین کی کیفیتِ سکون بھی طغیانی میں تبدیل ہوتی جارہی تھی۔ جب اُنہوں نے اس بات پر بھٹو صاحب سے ’ہمدردی و غمگساری‘ کا اظہار کیا کہ: ’’جیل کے اندر اُن کو سالن میں بوٹیاں کم دی جاتی ہیں‘‘۔ تو قہقہوں کا ایک طوفان اُبل پڑا۔ اُن کی تقریر عوامی سطح پر مقبول ترین تقریر ہوتی تھی۔ جب کہ جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں کی تقریریں فلسفیانہ اور اچھی خاصی ’تربیتی تقریریں‘ ہوتی تھیں۔ مرحوم سید ذاکر علی تو اپنی انتخابی تقاریر میں ’شہد کے خواص‘ بھی بیان فرمایا کرتے تھے۔
اُس زمانے میں ہم اسلامی جمعیت طلبہ کے حلقۂ مدارس کے نئے نئے کارکن تھے۔ جلسے کے اختتام پر، ہجوم میں گھرے ہوئے، منور صاحب سے بدقت تمام ’آٹوگراف‘ لیا اور اُن سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل کیا۔ بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے تربیتی پروگراموں میں اُن سے ’استفادہ‘ کرنے کا خوب، خوب موقع ملا۔ ان پروگراموں میں ان کا طرزِ تخاطب تو ’عوامی انداز‘ والا نہیں ہوتا تھا، مگر اُن کی کرشماتی شخصیت کا سحر، اُن کی بے تکلفی، اُن کی برجستہ گوئی اور اُن کی شگفتہ مزاجی لڑکوں کا دل موہ لیتی تھی۔ وہ ’تربیتی پروگراموں‘ میں مشفقانہ اور ناصحانہ انداز نہیں اختیار کرتے تھے۔ وہاں اُن کا انداز ’دوستانہ‘ ہوا کرتا تھا۔ شوخی اور برجستہ گوئی سے وہ نوجوان طلبہ کو اپنا گرویدہ بنالیتے تھے۔ کسی کو اُن سے کسی قسم کی اجنبیت نہیں رہتی تھی۔ دورانِ تقریر میں ہم نے اُن کو سامعین پر انفرادی توجہ دیتے ہوئے دیکھا جو بڑے بڑے مقرروںکے بس کی بات نہیں۔ لوگ بوکھلا جاتے ہیں۔ لطیفہ گوئی سے دلوں میں اُتر جانا کوئی منور صاحب سے سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تربیتی تقریریں بڑی مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ لوگوںکے اطوار بدل جاتے تھے۔ اسی ضمن میں ایک ایسا قصہ یاد آیا جس کو سنانے سے قبل منور صاحب کے معتقدین سے ’گستاخی معاف‘ کہنا ضروری ہے۔ منور صاحب خود تو ہماری گستاخیاں ہمیشہ معاف کرتے رہے ہیں۔
سیدمنورحسن اپنی تقریر کے دوران میں جب پھلجھڑیاں چھوڑنے پر آتے ہیں تو پہلے صرف ایک چنگاری نکلتی ہے۔ پھر دو تین۔ اس کے بعد پانچ چھ۔ اور جب پھلجھڑیوں کا فوارہ سا پھوٹ بہتا ہے تو سامعین کے قہقہوں کے طوفان اُمڈ پڑتے ہیں۔ ہم اہلِ کراچی تو اُن کی اس ادا سے مانوس تھے۔ مگر ’نئے سننے والوں‘ کے لیے ’خشک موضوعات‘ کو اِس طرح سے ’تر‘ کرنا شاید کچھ عجیب سی بات تھی۔ ایک بار جامعہ کراچی کی چھوٹی مسجد میں اسلامی جمعیت طلبہ کی سہ ماہی تربیتی نشست ہورہی تھی۔ مربی تھے سید منور حسن۔ عنوان تھا: ’دعوتِ دین اور اُس کا طریقۂ کار‘۔ منور صاحب یہ سمجھارہے تھے کہ ’داعی‘ کو لٹھ مار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ آپ کسی کو ’جاہل‘ اور کسی کو ’ابوجہل‘ سمجھ کر خود کو جلیل القدر پیغمبر سمجھنے لگیں۔ مسجد کارکنان سے بھری ہوئی تھی۔ مجمع کے وسط میں شعبۂ معارفِ اسلامیہ کے ایک ایسے ساتھی بھی بیٹھے ہوئے تھے جو صوبہ سرحد سے (جسے اب صوبہ خیبر پختون خوا کہا جاتا ہے) تعلق رکھتے تھے۔ اُنہوں نے جب اِ س ’کافَر ملا‘ کو ’مسخری‘ کرتے دیکھا تو گھبرا کر اپنے دائیں بائیں کے ساتھیوں کو دیکھنے لگے۔ جب دیکھا کہ سارے ساتھی مسکرا رہے ہیں، تو اُن کے چہرے سے بھی گھبراہٹ کے آثار دور ہوئے۔ اب دوسروں کی دیکھا دیکھی یہ بھی مسکرانے لگے۔ مگر ابھی تو منور صاحب کی پہلی پھلجھڑی چھوٹی تھی۔ دوسری چھوٹی تو اِن کا چہرہ کھل اُٹھا۔ تیسری پر سب کے ساتھ ساتھ ان کا بھی زور دار قہقہہ بلند ہوا۔ لیکن جب پھلجھڑیوں کا فوارہ سا پھوٹ بہا تو اِن سے رہا نہ گیا۔ اب داد دینے کا انداز دیکھیے۔ جس طرح آپ التحیات کی حالت میں بیٹھتے ہیں، اُسی طرح بیٹھے بیٹھے وہ گھٹنوں کے بَل بلند ہوگئے۔ ہاتھ بڑھا بڑھا کر ’التحیات‘ والی انگشتِ شہادت سے بار بار مقرر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، اور منہ سے ایسی آواز نکل رہی ہے، جیسی آواز قہقہوں کے درمیان نکالنے کی کوشش کی جاتے تو آدھی نکلتی ہے اور آدھی نہیں نکلتی۔ اِس حالت میں اُن کے آس پاس کے لوگوں کو جو الفاظ اُن کی بے قابو ہنسی کے طوفان میں سنائی دیے وہ کچھ اس قسم کے تھے…
’’یار… یہ ملا … بڑا … اَرامی … اے‘‘۔
ایک سادہ لوح پٹھان طالب علم کی طرف سے اس سے اچھا خراجِ تحسین کچھ اور نہیں ہوسکتا تھا۔ اُس مجمع کے ’علاقۂ وسطی‘ سے ایک ’چھت شگاف‘ اجتماعی قہقہہ بلند ہوا۔ مگر تجسس بھرے لوگوں کے پوچھنے پر بھی یہ جملہ اُس وقت اِس محدود حلقے تک ہی محدود رہنے دیا گیا۔ آگے نہ بڑھنے دیا گیا۔ جو بھی پوچھتا بس اُس کے آگے دانت نکال کر دونوں کانوں کو ہاتھ لگا لیا جاتا۔
1977ء کی انتخابی مہم اور بعد ازاں ملک گیر تحریک میں منور صاحب نے ایک منفرد اندازِ تقریر ایجاد کیا۔ بہت چھوٹے چھوٹے فقرے۔ جو آسمان کی طرف چہرہ کرکے، آنکھیں موند کر اور منہ کھول کر بولے جاتے۔ وجد آفریں انداز میں بات کہنے کا ایک دِل کش اُسلوب۔ پہلے بات کا ایک پہلو پیش کرنا، پھر یکایک پہلو بدل کر نعرہ لگانا: ’’… لیکن نہیں …‘‘ اور پھر دوسرے پہلو پر آجانا۔ یہ ساری ادائیں ملک بھر کے عوام کو بے حد پسند آئیں۔ 1977ء کی تحریک میں منور صاحب قومی سطح کے قائد بن کر اُبھرے۔ ایک عوامی جلسے میں منور صاحب کا خطاب سن کر ولی خان حیرت سے پکار اٹھے تھے کہ:
’’جماعتِ اسلامی نے ایسے ہیرے کہاں چھپا کر رکھے ہوئے تھے؟‘‘
1977ء کے انتخابات میں بھٹو صاحب نے ’بلامقابلہ انتخاب‘ اور ’اغوا برائے انتخابی کامیابی‘ جیسے اقدامات کے ذریعہ سے پورے الیکشن پر ہی دھاندلی کا جھرلو پھیر دیا تھا۔ ورنہ سید منور حسن صاحب نے ڈیفنس، پی ای سی ایچ ایس وغیرہ والے حلقۂ قومی اسمبلی میں اپنے حریف جمیل الدین عالیؔ پر 70,000 (ستّرہزار) سے کچھ زائد ووٹوں سے ’سبقت‘ حاصل کرکے 1977ء کے انتخابات میں ایک قومی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ افسوس کہ اس قومی اسمبلی کو بیٹھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ منور صاحب یہ تاریخی ریکارڈ لیے باہر ہی کھڑے رہ گئے۔
سیدمنورحسن پر اقبالؔ کا یہ مصرع پوری طرح صادق آتا ہے:
اُس کی نفرت بھی عمیق، اُس کی محبت بھی عمیق
جن لوگوں کو اس مصرع کے کسی بھی پہلو سے سابقہ پڑا ہے، وہ اس کی ضرور تائید کریں گے۔ مگر منور صاحب کی محبت ہو یا نفرت، اس کی بنیاد ’اخلاص‘ پر ہوتی ہے۔ آپ منور صاحب کی رائے یا طرزِ عمل سے اختلاف تو کر سکتے ہیں، مگر اُن کا کوئی بدترین سے بدترین مخالف بھی اُن پر یہ الزام عائد نہیں کرسکتا کہ منور صاحب نے کوئی کام محض ’ذاتی مفاد‘ کے لیے کیا ہو۔ 1985ء کے ’غیر جماعتی‘ انتخاب کے نتائج آنے کے بعد، جب کراچی سے بقول شخصے ’’جماعتِ اسلامی کا صفایا ہوگیا تھا‘‘ نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے مکان پر کراچی بھر کے کارکنان کا اجتماع منعقد ہوا۔ اُس وقت منور صاحب امیر جماعتِ اسلامی کراچی تھے۔ اُنہوں نے انتخابی ناکامی پر احتساب کا آغاز اپنی ذات سے کیا اور پھر کراچی بھر کے کارکنان نے دیکھا کہ منور صاحب جیسے ’مجمع پر قادر‘ مقرر کو اپنے جذبات پر قابو نہ رہا۔ وہ بلند آواز سے رونے لگے۔ یہ تو آنکھوں دیکھا واقعہ تھا۔ تقویٰ اور خوفِ الٰہی پر مبنی ایسے کئی واقعات ہم نے دوسروں سے بھی سنے۔
منور صاحب نے خود ہم سے نوک جھونک کرکرکے ہمیں بھی اپنی بارگاہ میں شوخ و گستاخ کر دیا تھا۔ ایک بار جماعتِ اسلامی کے ایک انتہائی سنجیدہ اجتماع میں ہم ’جسارت‘ کے سابق مدیر منتظم کشش صدیقی مرحوم کے ساتھ اجتماع گاہ پہنچے تو منور صاحب نے ہمیں دیکھتے ہی شگوفہ چھوڑا:
’’اچھا …تو آپ گویا کالم کے موضوع کی تلاش میں یہاں بھی آپہنچے ہیں‘‘۔
نہایت انکسار سے عرض کیا: ’’جی ہاں … کشش صاحب نے بتایا تھا کہ آپ بھی یہاں تشریف لا رہے ہیں‘‘۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ یہ عاجز اسلام آباد میںآئی پی ایس کے ڈائریکٹر برادر خالد رحمن کے دفتر میں بیٹھا اُن سے ’اوور اے کپ آف ٹی‘ کچھ بقراطیاں کر رہا تھا۔ اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی چیخ اُٹھی اور چیختی ہی چلی گئی۔ یقینا کوئی اہم فون تھا۔ کیوں کہ ابھی چند لمحے قبل خالد بھائی نے تاحکم ِثانی کوئی کال ٹرانسفر نہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ فون پر بات کر چکے تو ہم سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا:
’’منصورہ سے منور صاحب کا فون تھا۔ کل صبح کی پرواز سے لاہور سے آرہے ہیں اور ائرپورٹ سے سیدھے ایبٹ آباد چلے جائیں گے، تحریکِ محنت کے پروگرام میں شرکت کے لیے۔ کل ہی واپس لاہور جانا چاہتے ہیں، مگر واپسی کا ٹکٹ ان کے پاس نہیں ہے۔ ٹکٹ خریدنا بھی ہے اور انہیں ائر پورٹ پر پہنچانا بھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹکٹ پہنچائے گا کون؟ ابھی تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کریں گے۔ اتنی دیر میں فیصلہ بھی کرلینا ہے‘‘۔
فدوی نے عرض کیا:’’یہ ذمے داری خاکسار کو سونپ دیجیے، مگر یہ نہ بتائیے گا کہ ٹکٹ پہنچائے گا کون‘‘۔
خالد بھائی نے ایساہی کیا۔ فون آیا تو فرمایا: ’’میرے سامنے ایک صاحب بیٹھے ہیں جنہوں نے یہ ذمے داری لے لی ہے۔ کل صبح ائر پورٹ پر آپ کو ٹکٹ مل جائے گا‘‘۔
اگلی صبح اسلام آباد ائر پورٹ پر لاہور سے آنے والی پرواز کے جہاز کی سیڑھیوں کے سامنے ہم موجود تھے۔ منور صاحب (جو اُس وقت جماعتِ اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے) جہاز سے اُترے تو پی آئی اے والوں نے پکڑ کر اُنہیں ’وی آئی پی کوچ‘ میں بٹھا دیا۔ ہم بھاگم بھاگ کوچ میں سوار ہوئے اور جاکر خاموشی سے منور صاحب کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ اُنہوں نے گویا کنکھیوں سے اپنے ہم نشیں کو دیکھا اور پھر پہچان کر ایک پُرجوش نعرہ مارا:
’’اخّاہ! ارے بھئی آپ یہاں کیسے؟‘‘
عرض کیا: ’’آپ کے خادم کو ایک ناخوشگوار ذمے داری سونپی گئی ہے‘‘۔
یہ سن کر منور صاحب خاصی سنجیدگی سے کوئی ناخوشگوار خبر سننے کے لیے تیار ہوگئے۔ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور نہایت سنجیدگی سے عرض کیا:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آپ جیسے ہی یہاں اُتریں آپ کو فوراً واپسی کا ٹکٹ تھما دیا جائے‘‘۔
منور صاحب نے چوٹ سَہ کر پہلے تو دائیں بائیں دیکھا پھر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے فرید پراچہ صاحب سے کہنے لگے:
’’آپ انہیں پہنچانتے ہیں؟ یہ ہیں ابونثر!‘‘
یہ گویا ہماری شرارت کو اُن کی شرافت کا منہ توڑ جواب تھا۔ اب فرید پراچہ صاحب کو بھی اطمینان ہو اکہ یہ کسی ’ایجنسی کا بندہ‘ نہیں ہے۔
جنوری 2013ء میں ’گلشن تعلیم‘ کے کیمپس کا افتتاح کرنے اسلام آباد تشریف لائے۔ اب وہ امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے۔ خاصے نحیف و نزار ہوچکے تھے۔ چلنا مشکل تھا۔ لوگوں نے سہارا دے کر اسٹیج تک پہنچایا۔ صدارتی خطاب کا موقع آیا تو بات سے بات نکلی اور ملک بھر کے ’کالم نگاروں‘ پر برس پڑے۔ یکایک ہم پر نظر پڑی تو یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ:
’’سامنے ہی ابونثرؔ بیٹھے ہیں، سوچ رہے ہوں گے کہ شاید مجھے ہی دیکھ کر یہ ساری باتیں کہہ رہے ہیں‘‘۔
اب آخر میں ایک ایسا قصہ جو ہم نے سنا تو اپنے بڑے بھائی محترم محفوظ الرحمن صدیقی سے تھا، مگر سناتے اپنے الفاظ میں ہیں:
اس تحریر کی ابتدا میں ہم نے منور صاحب کا جو سراپا کھینچا ہے، اُس میں اُن کے بال بھی چھوٹے ہیں اور ڈاڑھی بھی۔ قارئین شاید سوچ رہے ہوں کہ یہ لمبے، پٹے بالوں اور لمبی ڈاڑھی والا انقلاب کب آیا؟ خیر کسی بھی شخص کی زندگی میں اس قسم کے انقلابات تو کسی بھی وقت آ سکتے ہیں، ایسے کسی انقلاب کے لیے کوئی بڑی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کبھی کبھی کسی چھوٹی سی بات سے ’تحریک‘ ہو جاتی ہے۔
کراچی میں (غالباً لیاقت آباد میں) ایک دیندار گیسو تراش تھے۔ اُنہوں نے اپنی دکان پر یہ اطلاع نامہ آویزاں کر رکھا تھا کہ:
’’یہاں شیو نہیں بنائی جاتی‘‘۔
باریش افراد کے ’خط‘ بنانے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ منور صاحب بھی ان ہی گیسو تراش صاحب کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے۔ ایک روز وہ منور صاحب کا خط بناتے بناتے کہنے لگے: ’’آپ اتنی چھوٹی ڈاڑھی کیوں رکھتے ہیں؟ آپ کے نانا کی ڈاڑھی تو بڑی تھی‘‘۔
منور صاحب نے اللہ جانے اس فقرے کو اُن کی خوش مزاجی سمجھا یا اُن کی غلط فہمی، مگر ہُوں ہاں کرکے خاموش ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے پھر یہی بات کہی۔ منور صاحب تب بھی چپ ہی رہے۔ مگر جب وہ بار بار ایک ہی بات کہتے رہے کہ:
’’بھئی، آپ اتنی چھوٹی ڈاڑھی کیوں رکھتے ہیں؟ آپ کے نانا کی ڈاڑھی تو بڑی تھی‘‘۔
تو منور صاحب سے رہا نہ گیا۔ کہنے لگے: ’’اپنے نانا کو تو خود میں نے نہیں دیکھا۔ آپ نے کہاں سے دیکھ لیا؟‘‘
اِس پر اُنہوں نے بس ایک مختصر سا سوال کیا اور منور صاحب کے دل پرجو چوٹ پڑی وہ فوراً کارگر ہوگئی۔ باربر صاحب نے بس اتنا پوچھا تھا:
’’کیا آپ سیّد نہیں ہیں؟‘‘
منور صاحب کی سب سے نمایاں صفت یہ تھی کہ جو دل میں ہوتا وہی زبان پر آتا۔ اُن کی بعض باتوں پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ مگر دنیا نے بالآخر دیکھ لیا کہ یہ شخص دُوربیں اور دُور اندیش تھا۔ کل جو بات اکیلے منور صاحب کہتے تھے آج وہ سب کے لبوں پر ہے۔
ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق