چمچے زیادہ گرم ہیں

484

 

 

وفاقی حکومت اور اقتدار کے ایوانوں میں کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے اور چونکہ پی ٹی آئی خود ایک ایسی دیگ بن گئی ہے کہ اس میں مختلف جگہوں سے ’’دانے‘‘ لاکر ڈالے گئے ہیں اس لیے اس کی کھچڑی نہیں کھچڑا بن رہا ہے اس دیگ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ چمچہ دیگ سے زیادہ گرم ہے اور اس میں مزید خصوصیت یہ ہے کہ چونکہ جگہ جگہ سے جوڑ کر کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا لا کر دیگ چڑھائی گئی تھی اس لیے چمچے بھی ایک نہیں کئی کئی ہیں اور ہر چمچہ دیگ سے زیادہ اور پہلے والے سے بھی زیادہ گرم نکلتا ے چنانچہ عید، بقر عید اور محرم کا چاند دو دو ماہ قبل دیکھنے والے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چودھری نے فرما دیا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس چھ ماہ ہیں۔ پارٹی کے اندرونی جھگڑوں سے حکومت کو نقصان ہوا ہے جہانگیر ترین اور اسد عمر نے ایک دوسرے کو نکال دیا۔ ان کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے مشیر فیصلے کررہے ہیں اور سیاسی لوگ منہ دیکھ رہے ہیں۔ فواد چودھری صاحب کا شکوہ بھی بجا ہے اور پہلی مرتبہ سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ انہیں چھ ماہ آگے کا حال بھی نظر آنے لگا ہے۔ جتنا گرم وفاق کا چمچہ تھا اس سے زیادہ گرم صوبے کا چمچہ نکلا اور کہنے لگے کہ فواد چودھری مطمئن نہیں تو استعفیٰ دیدیں۔ گزشتہ دنوں وہ خود بھی مطمئن نہیں تھے لیکن استعفیٰ نہیں دیا۔ کیونکہ آجکل استعفی جلدی قبول ہو جاتا ہے۔ پارٹی میں ’’دانوں‘‘ کی کمی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ و معاملہ فہم نہیں لیکن فواد چودھری کے معاملے میں تو انہوں نے معاملہ فہمی کا ریکارڈ توڑ دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ وہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔ یہ بات بجائے خود حیران کن ہے کہ فواد چودھری عیدین کے چاند اور سائنس کے تجربات سے نکل کر اچانک سیاست پر بات کرنے لگے۔ ان کی ہلکی پھلکی باتوں سے ہمارا بھلا ہو جاتا تھا اور بہت سے لوگوں کو کالم لکھنے میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔لیکن اس مرتبہ عمران خان کے جملے نے کالم لکھنے کی آسانی فراہم کردی۔ فواد چودھری فردوس عاشق اعوان، مراد سعید، فیصل واوڈا، فیاض الحسن چوہان، زرتاج گل، شہباز گل وغیرہ قسم کے لوگوں کو پارٹی میں رکھا اس لیے گیا ہے کہ یہ ٹی وی چینلز کے لیے مواد فراہم کرتے ہیں۔ اس حوالے سے شیخ رشید تو یدطولیٰ رکھتے ہیں بلکہ اگر بولنے کے حوالے سے بات کی جائے تو اب ید طولیٰ کے بجائے ہر کس و نا کس کی گز بھر کی زبان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں اصل بات جو کہی ہے وہ پارٹی میں کہیں دور سے آئے ہوئے دانے راجا ریاض نے کی ہے۔ بلکہ یہ جملہ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ پوری پارٹی میں عمران خان کے ساتھ صرف اسد عمر ہیں جن کو تحریک انصاف کا کہا جاسکتا تھا۔ بہرحال راجا ریاض کے بیان میں سب کچھ ہے۔ انہوں نے جس چیز کو خدشے کے طور پر بیان کیا ہے وہ دیوار پر لکھی ہوئی بات نظر آرہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کے ساتھ نہایت برا سلوک کریں گے۔ راجا ریاض کو سیاسی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اولین سیاسی پارٹی کا نام تلاش کرنا مشکل لگ رہا ہے اس لیے کہیں سے لایا ہوا دانا بہتر ہے۔ ان کے خدشے کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ جب انتخابات میں پی ٹی آئی والے ووٹ مانگنے جائیں تو لوگ فہرست لے کر کھڑے ہوں جناب ایک کروڑ ملازمتوں میں سے کتنی باقی رہ گئیں۔ لوگ الٹا بیروزگار کیوں کر دیے گئے۔ پچاس لاکھ میں سے کتنے گھر بن گئے۔ اور گھر والوں کو بے گھر کیوں کر دیا اور ہاں ریاست مدینہ کا کیا ہوا۔ جب یہ جوابات مل سکیں تو جس سلوک کے یہ مستحق ہو گئے ہیں وہی سلوک کیا جائے شاید راجا ریاض اس حوالے سے کچھ جانتے ہیں۔ لیکن اب لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگ اس کے نتائج نہیں جانتے۔ کوئی بات نہیں جان جائیں گے۔
اگر فواد چودھری کو کسی نے دلی دکھا دی ہے تو پھر زیادہ دن نہیں لگیں گے بقول شخصے جوتیوں میں دال بٹے گی ۔ سیاسی پارٹیوں میں لوگوں کا ناراض ہونا فطری ہوتا ہے لیکن یہاں تو کوئی سیاسی پارٹی ہی نہیں سب کو بھیجا گیا ہے ۔ خواہ’’ بھیجا‘‘ ہو یا نہیں ۔ فردوس عاشق اعوان اب حکومت کی ترجیحات کے بجائے وہ کام کر رہی ہیں جس کا عمران خان نے فواد چودھری کو مشورہ دیا ہے ۔ انہوں نے بھی کورونا کے بارے میں زبر دست انکشاف کیے ہیں کہ وہ کہاں کہاں سے حملہ آور ہوتا ہے ۔ ان کی خدمات تو ڈبلو ایچ او کے حوالے کی جانی چاہئیں تاکہ وہ نئے ایس او پیز تجویز کر سکیں کہ صرف ماسک ہی کافی نہیں۔
فواد چودھری سے پاکستان کے سلیکٹرز کو بڑی توقعات ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ کسی نئے کنبے کا حصہ ہوں گے ۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اینٹ ہوں گے یا روڑا ۔ فی الحال تو عمران خان کی راہ میں روڑا اٹکانے میں مصروف ہیں ۔ بے اختیار وہ صاحب یاد آ گئے جنہوں نے کہا تھا کہ اگلے چھ ماہ تک حکومت کے بارے میں سب اچھا بتایا دکھایا اور لکھا جائے ۔ وہ تو کسی اور ذمے داری پر چلے گئے لیکن ایسا لگا کہ کہانی چھ ماہ ہی کی تھی۔ پہلے چھ ماہ تو تعریفوں کی بات کی گئی گویا تحریک انصاف کی کہانی چھ ماہ کی ہے ۔ چھ ماہ تعریفوں کے چھ ماہ تنقیدوں کے اس کے بعد نیا پٹارا نئی پارٹی ۔ خرابی یہ ہے کہ پاکستان میں تجربات کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا ۔ کرکٹ ٹیم کے سلیکٹرز ایک کھلاڑی غلط شامل کر لیں ۔ پورا ملک سر پر اُٹھا لیا جاتا ہے لیکن یہاں تو پوری کی پوری ٹیم ہی نا اہل اتار دی ایک آواز بھی سلیکٹرز کے بارے میں نہیں آتی۔ وہ خود ہی سوچ لیں کہ لوگ کیا کیا کہہ سکتے ہیں۔ اگر ٹیم کا سلیکشن ٹھیک ہو گا تو سب کچھ ٹھیک ہو گا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ جو کام عوام کو کرنا تھا یعنی سلیکشن وہ کسی اور نے سنبھال لیا ہے تو پھر مسائل کیسے حل ہوں گے۔ عوام سے صرف ٹیکس، حکومت کے احکامات پر عملدرآمد، غریب کے اور امیر کے الگ الگ قوانین کی پابندی کرو اور اب کورونا میں حکومتی ایس او پیز پر عمل کرو۔ حکومتی نمائندے کریں نہ کریں عوام ضرور کریں۔ سلیکٹڈ ٹیم اور کپتان کوئی اور لائے اور عوام سے کہا جائے کہ چھ ماہ اچھا اچھا لکھو۔ اور اب نا پسندیدہ رہنما نے دوسرے نا پسندیدہ رہنما سے صلح کر لی۔ فواد چودھری بھی بتا نہیں سکیں گے کہ چھ ماہ شروع کب سے ہوں گے۔