حسینہ واجد کا مودی کو ’’شٹ اپ پیغام‘‘

2318

بنگلا دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے مودی کو ’’شٹ اپ پیغام بھیج دیا‘‘ اور کہا کہ ’’بہت ہوگیا اب بس بس بس اور اب کر دو‘‘۔ بنگلا دیش کے وزیرِ خارجہ اے کے عبدالمومن نے چین اور بنگلا دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر بھارت کی بے جا بیان بازی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ بھارت کو بیان بازی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات وسیع پیمانے پر ہیں۔ جن ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ہوں انہیں گفتگو میں سفارتی آداب کا مکمل خیال رکھنا ضروری ہے۔ بھارت نے چین بنگلا دیش تعلقات پر جس انداز سے گفتگو کی ہے اس سے بنگلا دیش کی توہین ہوئی ہے اور یہ بدتمیزی کہلاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے بھارت اس طرح کی گفتگو سے پرہیز کرے۔ 1971ء میں بنگلادیش کے قیام کے بعد بھارت کے بارے میں کسی بنگلا دیشی وزیرِ خارجہ نے اس قدر سخت بیان جاری نہیں کیا ہو گا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کس قدر کشیدہ ہوچکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان مودی حکومت کے آتے ہی تناؤ شروع ہو گیا تھا۔ اوپر جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب سفارتی بیان بازی ہے لیکن عملی اور جنگی میدان میں کیا ہو رہا ہے وہ سب کچھ خلیج بنگال، چاٹگام، صدر کھاٹ ڈھاکا اور کاکسس بازار میں کھلے عام دیکھا جاسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق خلیج بنگال میں چین کا ’’شیان زیرو ون‘‘ چاٹگام اور کاکسس بازار کے ساحلی علاقوں میں چین کے ریسرچ جہاز نظر آرہے ہیں۔ یہ بات زبان عام پر ہے کہ میانمر میں تباہ برباد ہونے والے مسلمانوں کا دنیا میں کوئی سہارا نہیں ہے اور دنیا بھر کے مسلمان میانمر کے مسلمانوں کی اس صورتحال سے دکھی اور پریشان ہیں۔ اب چین ان کی مدد کے لیے میدان میں آگیا اور ہزاروں ٹن گندم ان کی مدد کے لیے بھیج دی اس کے علاوہ چین بنگلا دیش اور میانمر کے درمیان جاری کشیدگی کو بھی ختم کرانے کے لیے سرگرم ہوگیا ہے یہ ساری صورتحال بھارت کو پسند نہیں ہے۔
نریندرمودی نے وزیر اعظم بنتے ہی بنگلا دیش کا دورہ کیا اور اپنے دورے کی پہلی پریس کانفرنس میں بنگلا دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کو بھارت کا مخالف قرار دے دیا اور کہا کہ بنگلا دیش میں بھارت مخالف اور پاکستان کی حامی ’’جماعت ِ اسلامی‘‘ بنگلا دیش میں 25سے 30فی صد ووٹ کی حقدار بنی بیٹھی ہے اور وزیر اعظم حسینہ واجد جماعتِ اسلامی کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب بنگلا دیش میں انتخابات ہونے والے تھے۔ اس دورے میں مودی نے یہ بھی کہا کہ جب تک بنگلا دیش میں جماعت موجود ہے بنگلا دیش بنگالیوں کا ملک نہیں بن سکتا اس لیے ’’جماعت اسلامی‘‘ کو ختم کیا جائے۔ اس کے علاوہ بھارت بنگلا دیش سے لداخ دولت پور اور نیپال جیسی ایک موٹر وے ’’میانمر، بنگلا دیش سے چین کی سرحد تک بنانا چاہتا ہے‘‘۔
بھارت کی تمام تر کوشش کے باوجود بنگلا دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد چین دشمن موٹر وے بنانے کے لیے تیار نہیں ہو سکیں اور انہوں نے بھارت کو صاف انکار کر دیا۔ جس کے بعد بھارت نے میانمر میں اپنے اثر رسوخ سے مسلمانوں پر مظالم کا آغاز کر دیا جس کے منفی اثرات سے بنگلا دیش برما کے مہاجرین کے بوجھ سے براہ راست متاثر ہوا، بنگلا دیش میانمر کے ساتھ مختصر سی سرحد کے علاوہ تین طرف سے بھارت سے ملا ہوا ہے 1971ء سے قبل پاکستان کے دونوں بازوؤں میں نسلی و لسانی خلیج بڑھتی گئی جسے مغربی پاکستان کی عاقبت نا اندیش حکومت نے مزید وسیع کر دیا جو بالآخر 1971ء میں ایک خونیں جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں بنگلا دیش کے قیام کا سبب بنی۔ اس جنگ میں علیحدگی پسندوں کو بھارت کی مکمل مدد حاصل رہی اور بھارت کی سازش کے ذریعے بنگلا دیش وجود میں آیا شیخ مجیب الرحمن کو بھارت نے ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا موجودہ بنگلا دیش میں بھارت زبردستی اپنا حکم منوانا چاہتا ہے اور بنگلا دیش کی کٹھ پتلی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد بھارت کی ایجنٹ بنی ہوئی تھیں۔ تاریخ میں ملکوں کے درمیان دوستی اور دشمنی کا تبدیل ہونا ایک عام سی بات ہے اور اب ایساہی کچھ ہونے جارہا ہے۔
نریندرمودی کا تعصب دنیا کے لیے سب سے بڑا کورونا وائرس ہے۔ بنگلا دیش میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مظاہروں میں شدت آئی ہے بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے، ہندو فلسفے کا پرچار کرنے والے، مسلمانوں کے لیے زندگی کو مشکل بنانے والے، انتہا پسند اور تعصب پسند ہندوؤں کی سرپرستی کرنے والے نریندر مودی کے خلاف بنگلا دیش کے عوام میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ یہ سب جاری تھا کہ بنگلا دیش نے ’’سی پیک‘‘ میں شمولیت کا اعلان کر دیا اب صورتحال یہ ہے کہ نیپال، سری لنکا اور بنگلا دیش چین کے بنائے ہو ئے ’’سی پیک‘‘ کا حصہ بن گئے ہیں۔ بھارت نے متنازع شہریت کا بل بنایا تو بنگلا دیش نے ایک سفارتی وفد بھارت بھیجا جس کے ساتھ بھارتی حکومت نے انتہائی ذلت آمیز سلوک کیا جس پر بنگلا دیش کو بھارت پر سخت غصہ آیا اس کے ساتھ ہی چین نے اپنی مصنوعات پر بھارت میں پابندی لگتے ہی فوری طور پر بنگلا دیشی مصنوعات کے لیے چین میں امپورٹ ڈیوٹیز ختم کر دیں۔ اب بنگلا دیش بھارتی دوستی سے نکل کر چین کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مودی اپنے ہی چنگل میں اس بری طرح پھنس چکا ہے کہ اگر وہ سی پیک روکنا چاہتا ہے تو جنگ ناگزیر ہے یہ بھاری پتھر اٹھانے کی اس کی بوڑھی ہڈیوں میں سکت نہیں۔ دنیا میں عالمی مدبر اور بصیرت افروز شخصیت بن کر ابھرنے والے چین کے صدر شی جن پنگ عزم صمیم کی علامت ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پراربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے وہ بھارتی جارحیت کے خلاف جنگ پر 100 ارب مزید خرچ کردیں گے۔ لیکن بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ اب خود بھارت کے لیے تجویز کیا جارہا ہے کہ مودی روس کے ذریعے سی پیک کا حصہ بن جائے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ کوئی امریکی ہتھیار چینی برتری سے بھارت کو نہیں بچا سکتا۔ بھارتی وزیراعظم اور ان کے وزراء اور سروسز چیفس اور وزیر دفاع کے بیانات ان کی بوکھلاہٹ کا ثبوت بن کر سامنے آرہے ہیں۔ یہ متضاد بیانات جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں مودی کا دعویٰ تھا کہ ان کے کسی علاقے پر چین نے قبضہ نہیں کیا لیکن وزراء اور سروسز چیفس کے بیانات اس دعوے کی نفی کر رہے ہیں خود بھارتی حزب اختلاف نے مودی کے بے بنیاد دعوؤں کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیے ہیں۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے قیام بنگلا دیش کے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی بنگلا دیش کے دورے پر گئیں تو انہوں فخر وغرور میں ڈوبی ہوئی آواز سے اعلان کیا کہ ’’دو قومی نظریے کو انہوں نے خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے‘‘، لیکن آج اندرا گاندھی کے ہندوستان کے وزیر اعظم کے ہر منصوبے کو بنگلا دیشی خلیج بنگال میں غرق کر رہے ہیں اور دو قومی نظریہ کل کی طرح آج بھی زندہ ہے اور بھارت اللہ کے حکم سے ٹکڑے ہونے کے در پر ہے۔