سیاست میں نظریے کا حوالہ

487

ہارون رشید
سید منور حسن چلے گئے، سیدزادہ چلا گیا، سیاست سے نظریئے کا حوالہ چلا گیا، اس کو اپنے موقف کے صحیح ہونے کا یقین ہوتا تها، اسی لیے جب ایک ادارے نے ان سے ان کے بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تو ببانگ دہل سید صاحب نے کہا کہ ادارے کو سیاست میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے.. جب سب کی زبانیں کانپ جاتی تهیں تو سید زادہ للکار کر گمشدہ افراد کے بارے میں سوال کرتا تھاکہ کہاں ہیں وہ انہیں بازیاب کیا جائے۔
ایک وقت تھاکہ اکیلے سید صاحب وار آن ٹیرر کو امریکہ کی جنگ قرار دیتے تھے تو ریاست، ریاستی ادارے، ان کے گماشتے اور میڈیا منور صاحب پر پل پڑتے تهے لیکن سید صاحب کے موقف میں ذرہ برابر بھی کبھی فرق نہیں آیا اور پھرایک وقت آیا کہ منور صاحب کا موقف ریاستی بیانیہ قرار پایا اور ریاستی اداروں نے نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کو پرائی جنگ قرار دیا بلکہ آیندہ بهی کرائے پر کسی کو خدمات نہ دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ منور صاحب کی اخلاقی فتح تھی اور ان کے مخالفین کی اخلاقی پستی کا یہ عالم تها کہ ان پر لعن طعن کرتی گزگز بھرلمبی زبانوں میں سے کسی ایک کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس 78سالہ بوڑھے پر کی گئی دشنام طرازی پر معافی یا ندامت کا کوئی ایک حرف ہی بول دیتے…
منور صاحب جب بولتے تھےتو محسوس ہوتا تها کہ جیسے الفاظ ہاتھ باندهے ان کے سامنے کھڑے ہوں، زبان میں ایسی روانی کسی اور کے ہاں کم ہی دیکھی، اچھی اردو بول سکنے والوں میں ایک اور شخص کی کمی ہو گئی ۔
منور صاحب بڑے صاحب تقوی بھی تھےمنصورہ کی مسجد میں ایک بار نماز پڑهنے کا موقع ملا، سلام پھیراتو قریب ہی منور صاحب نماز ادا کر رہے تهے، میں ان کی نماز دیکھتاہی رہ گیا… محسوس ہوتا تھاکہ نماز پڑھتے ہوئے منور صاحب اس دنیا میں موجود ہی نہ ہوں، ایسے ڈوب کر اور جذب کے عالم میں نماز ادا کرتے کسی اور کو نہیں دیکھا۔
جب ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا نام لیتے وقت لوگوں کی زبانیں لڑکھڑا جایا کرتی تهیں اس وقت کراچی میں رہ کر ایم کیو ایم کی دہشتگردی کو جس طرح منور صاحب للکارتے تهے، یہ بھی انہی کا حوصلہ تھا۔
دریا میں بھی رہے اور مگرمچھ سے بھی کبھی نہ گھبرائےیہاں تک کہ مگرمچھ اپنے انجام کو پہنچ گیا تو پھر سب کی زبانیں کھل گئیں۔
آج رب کا بندہ اپنے رب کے حضور پہنچ گیا۔
زہر ہلاہل کو کبھی قند نہ کہہ سکنے والی زبان آج خاموش ہو گئی۔
وہ سیاست میںنظریہ، بہادری، متانت، سنجیدگی، تہذیب اور کردار سب کچھ تھے۔
اُن کی سیاست سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کیا کوئی ایک بھی ہے جو اُن کے اجلے کردار پر سوال اٹھا سکے؟
اناللہ واناالیہ راجعون…. اللہ سید صاحب کا معاملہ انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ کرے۔ آمین ثم آمین