کیا پاکستان بنانا ری پبلک ہے؟

597

پاکستان اس وقت بنانا ریپبلک میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ گو کہ اس اصطلاح سے ارباب اقتدار بہت برا مانتے ہیں اور ان کا اصرار یہی ہے کہ ملک اب بھی مقتدر ہے اور آئین و قوانین کے تحت چلایا جارہا ہے تاہم زمینی حقائق یہی ہیں کہ اقتدار کے جتنے بھی سوتے ہیں ، وہ سب کے سب اب خشک ہوچکے ہیں اور ملک مختلف مافیاز کی فرمائشوں اور ہدایات کے مطابق چلایا جارہا ہے ۔ یہ مافیاز اپنے مفادات کے تحت تشکیل پاگئی ہیں اور انہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی حقیقی و مجازی انتظامیہ ، عدلیہ ، مقننہ ،میڈیا اور سیاسی پارٹیوں سمیت سب کو ہی خرید رکھا ہے ۔ اب ہر طرح کے سگ آزاد ہیں کہ وہ جس طرح چاہیں اس ملک کو نوچیں ، کھسوٹیں اور کھائیں ۔ عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے تشکیل دیے گئے سارے ہی ادارے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے ان طفیلیوں کا تحفظ بھی کرتے ہیں اور اگر کہیں پر کوئی شہری احتجاج کرنے کی ہمت کرلے تو اسے موقع پر ہی قرار واقعی سزا دے کر اپنے مالکوں سے حق وفاداری بھی ادا کرتے ہیں ۔ جمعہ کی شب پٹرولیم کی قیمتوں میں ملک کی تاریخ کا ریکارڈ اضافہ بھی ملک میں ایسی ہی مافیا کے دیے گئے املا پر عمل کی شرمناک مثال ہے ۔ پٹرولیم کی عالمی قیمتیں کورونا کی وبا کے ساتھ ہی کریش ہوگئیں تاہم پاکستان میں اس کے اثرات آنے میں ڈیڑھ ماہ سے زاید عرصہ لگا ۔ اس پورے عرصہ میں ملک میں پٹرولیم کی مارکیٹنگ کرنے والی کمپنیوں نے بلا خوف و خطر اور بلا روک ٹوک زبردست منافع خوری کی ۔ ملک میں پٹرول کی کمپنیوں اور قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے والا سرکاری ادارہ اوگرا اس عرصے میں کہیں خواب غفلت کا شکار رہا ۔ یکم جون کو جب تیل کی قیمتیں کم کی گئیں حالانکہ بین الاقوامی مارکیٹ کے لحاظ سے یہ بھی زیادہ تھیں ،تو ملک میں تیل فراہم کرنے والی ساری ہی کمپنیاں سوائے سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل کے چراغپا ہوگئیں اور انہوں نے ملک بھر میں پٹرول کی سپلائی معطل کردی ۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ان تیل کمپنیوں کے مالکان اور انتظامیہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردیا جاتا مگر پاکستان میںسرکارکبھی بڑھکیں مارتی رہی اور کبھی ان سے تیل کی بحالی کی درخواستیں کرتی رہی۔ سرکاری تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پٹرولیم ڈویژن اس پورے کھیل میں تیل کمپنیوں کی پشت پناہی کررہا تھا مگر سرکار ان سرکاری کارندوں کی گوشمالی بھی نہ کرسکی ۔ ملک میں 25 روز تک تیل کی فراہمی معطل رکھنے والی ان کمپنیوں کے ساتھ اسی پٹرولیم ڈویژن نے مذاکرات کیے اور ان کی فرمائش پر ملک کی تاریخ میں پٹرولیم کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کردیا ۔ اس اضافے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کچن کیبنٹ کا خصوصی اجلاس راتوں رات بلایا گیا جس نے ربر اسٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہوئے اس اضافے کوبرضا و رغبت منظور کرلیا ۔ معمول کے مطابق کمی یا اضافے کا اطلاق ہر ماہ کی پہلی تاریخ سے ہوتا ہے مگر مافیا کے لاڈلوں کے فرمائش پر اس کا اطلاق بھی فوری طور پر کردیا گیا اور یوں عمران خان نیازی اور ان کے سلیکٹروںنے عوام کو ایک مرتبہ پھر یہ پیغام دیا کہ ملک اب بنانا ریپبلک بن چکا ہے ۔ عمران خان اور ان کے سلیکٹر چاہتے کیا ہیں ،یہ اب تک واضح نہیں ہوسکا ہے ۔ عمران خان کے پہلے دن سے کیے جانے والے اقدامات کو دیکھ کر یہی تصویر بنتی ہے کہ عمران خان اور ان کے سلیکٹر محض انفرادی مفادات چاہتے ہیں ۔ عمران خان نیازی نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلا وار معیشت ہی پر کیا اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی جو بے قدری کی ، وہ اب تک جاری ہے ۔ روپے کی بے قدری کے یہ شاک اب تک جاری ہیں جس کے باعث ملک کی معیشت کی کشتی ایک ایسے گرداب میں پھنس گئی ہے جس سے بچاؤ کی کوئی صورت اب نظر نہیں آتی ۔ کورونا سے قبل انہوں نے شرح سود اتنی بلند سطح پر رکھی کہ اس نے ملک کے صنعتی و زرعی شعبوں کو وینٹی لیٹر پر پہنچادیا ۔ دنیا بھر میں جب شرح سود تین تا چار فیصد تھی تو پاکستان میں شرح سود 13 فیصد سے اوپر تھی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا سے منافع خوروں نے وہاں کے بینکوں سے کم شرغ سود پر قرض لیا اور پاکستان میں بھاری شرح سود پر جمع کروادیا اور مزے کیے ۔ اب بھی جب پوری دنیا میں شرح سود صفر سے ایک فیصد کے درمیان ہے تو پاکستان میں شرح سود سات فیصد ہے جو کہ اب بھی بہت زیادہ ہے ۔ اس کے بعد ہر قسم کی مافیا کی پشت پناہی دیدہ دلیری سے جاری ہے ۔ ملک میں کار بنانے والی کمپنیاں نہ تو بین الاقوامی معیار کو اپناتی ہیں اور نہ ہی ان کی قیمتیں مناسب ہیں ۔ ان کار بنانے والی کمپنیوں کے دبئی کو تو چھوڑیں پڑوسی ملک بھارت میں دستیاب ماڈلوں کے معیار اور قیمتوں سے موازنہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی صارفین کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے ۔ ا س کے باوجود اس کار مافیا کی ہدایت پر ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگادی گئی ۔ اس حقیقت کے کھلا راز ہونے کے باجود بحریہ ٹاؤن میں اول تا آخر جھوٹ کا کاروبار ہو رہا ہے ۔ جو زمین موجود ہے وہ صوبائی حکومتوں کی ملی بھگت سے پوری قیمت ادا کیے بغیر قبضہ کرلی گئی ہے ، اور یہ زمینیں بھی بھاری قیمت وصول کیے جانے کے باوجود ابھی تک الاٹیز کے حوالے نہیں کی جارہی ہیں ۔ اس کے علاوہ زمین کی موجودگی کے بغیر روز ایک نئی اسکیم کا اعلان کردیا جاتا ہے مگر سرکار کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی ۔ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے سرکار نے انتہائی مہنگے معاہدے کیے ۔ اب ان معاہدوں کی میعاد ختم ہوئے بھی ایک برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر سرکار اس مافیا کے سامنے دم سادھے بیٹھی ہے اور صارفین ان کمپنیوں کی مہنگی ترین بجلی خریدنے پر صرف اس لیے مجبورہیں کہ سرکار اس مافیا کے سامنے بھی بوجوہ دم مارنے کی جراٗت نہیں رکھتی ۔ کے الیکٹرک جیسے ادارے بنانا ریپبلک کی بہترین مثال ہیں ۔ کے الیکٹرک سرکار سے مفت فرنیس آئل ، مفت گیس اور مفت بجلی لیتا ہے ، ان سب کے بدلے وہ اپنے صارفین سے کئی گنا زاید بل وصول کرتا ہے ۔ حکومت کو بلیک میل کرتا ہے کہ اگر مفت فرنیس آئل اور گیس نہیں دو گے تو لوڈ شیڈنگ ہوگی ۔ اس پر بھی سرکار کے الیکٹرک کے املا پر سر ہلاتی رہتی ہے ۔ کے الیکٹرک اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر وہ ادائیگیاں بھی نہیں کرتا جو اپنے صارفین سے ٹی وی ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس ، ود ہولڈنگ ٹیکس کے نام پر جمع کرتا ہے مگر سرکار اس مافیا کے سامنے بھی دم سادھے بیٹھی رہتی ہے ۔ملک میں چینی کا اسکینڈل سامنے آیا ، سارے ہی کردار سامنے تھے مگر کچھ بھی نہیں ہوسکا اور دیکھتے ہی دیکھتے چینی کی قیمت 85 روپے فی کلوپر پہنچ گئی ۔ عمران خان کی حکومت آنے کے بعد سے آٹے کی قیمت تقریبا دگنی ہوچکی ہے اور اب ایک نیا گندم اسکینڈل سامنے کھڑا ہے ۔ جس کے نتیجے میں عوام پر آٹا بم گرنے ہی والا ہے ۔ عمران خان کی حکومت نے جمعہ کو جو پٹرول بم عوام پر گرایا ہے اس کے بعد عمران خان نیازی تو عوام کے سامنے برہنہ ہو ہی گئے ہیں مگر اب ان کے سلیکٹروں پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ سیاستداں ہی کرپٹ اور نااہل ہیں مگر اب تو سلیکٹر حکومت کے براہ راست نگراں اور ہر معاملے میں پوری طرح دخیل ہیں ۔ ان کی مرضی کے بغیر اب تو عدالتیں بھی فیصلے نہیں دیتیں ۔ اب تو ہر انتظامی شعبے کے براہ راست نگراں بھی یہی ہیںتو پھر اب کسے مورد الزام ٹھیرایا جائے اور کس سے امید باندھی جائے ۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں کوئی حقیقت عوام سے چھپی نہیں ہے ۔ ہر شخص آگاہ ہے کہ دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے اوراس کے مقابلے میں پاکستان میں کیا ہورہا ہے ۔ عمران خان اوران کے سلیکٹروں کو اندازہ نہیں ہے کہ اگر ایسے میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور امریکا کی طرح کوئی پرتشدد احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تو ملک کس راہ پر ہوگا۔