سیدمنورحسن پر اقبالؔ کا یہ مصرع پوری طرح صادق آتا ہے:
اُس کی نفرت بھی عمیق، اُس کی محبت بھی عمیق
جن لوگوں کو اس مصرع کے کسی بھی پہلو سے سابقہ پڑا ہے، وہ اس کی ضرور تائید کریں گے۔ مگر منور صاحب کی محبت ہو یا نفرت، اس کی بنیاد ’اخلاص‘ پر ہوتی ہے۔ آپ منور صاحب کی رائے یا طرزِ عمل سے اختلاف تو کر سکتے ہیں، مگر اُن کا کوئی بدترین سے بدترین مخالف بھی اُن پر یہ الزام عائد نہیں کرسکتا کہ منور صاحب نے کوئی کام محض ’ذاتی مفاد‘ کے لیے کیا ہو۔ 1985ء کے ’غیر جماعتی‘ انتخاب کے نتائج آنے کے بعد، جب کراچی سے بقول شخصے ’’جماعتِ اسلامی کا صفایا ہوگیا تھا‘‘ نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے مکان پر کراچی بھر کے کارکنان کا اجتماع منعقد ہوا۔ اُس وقت منور صاحب امیر جماعتِ اسلامی کراچی تھے۔ اُنہوں نے انتخابی ناکامی پر احتساب کا آغاز اپنی ذات سے کیا اور پھر کراچی بھر کے کارکنان نے دیکھا کہ منور صاحب جیسے ’مجمع پر قادر‘ مقرر کو اپنے جذبات پر قابو نہ رہا۔ وہ بلند آواز سے رونے لگے۔ یہ تو آنکھوں دیکھا واقعہ تھا۔ تقویٰ اور خوفِ الٰہی پر مبنی ایسے کئی واقعات ہم نے دوسروں سے بھی سنے۔
منور صاحب نے خود ہم سے نوک جھونک کرکرکے ہمیں بھی اپنی بارگاہ میں شوخ و گستاخ کر دیا تھا۔ ایک بار جماعتِ اسلامی کے ایک انتہائی سنجیدہ اجتماع میں ہم ’جسارت‘ کے سابق مدیر منتظم کشش صدیقی مرحوم کے ساتھ اجتماع گاہ پہنچے تو منور صاحب نے ہمیں دیکھتے ہی شگوفہ چھوڑا:
’’اچھا …تو آپ گویا کالم کے موضوع کی تلاش میں یہاں بھی آپہنچے ہیں‘‘۔
نہایت انکسار سے عرض کیا: ’’جی ہاں … کشش صاحب نے بتایا تھا کہ آپ بھی یہاں تشریف لا رہے ہیں‘‘۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ یہ عاجز اسلام آباد میںآئی پی ایس کے ڈائریکٹر برادر خالد رحمن کے دفتر میں بیٹھا اُن سے ’اوور اے کپ آف ٹی‘ کچھ بقراطیاں کر رہا تھا۔ اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی چیخ اُٹھی اور چیختی ہی چلی گئی۔ یقینا کوئی اہم فون تھا۔ کیوں کہ ابھی چند لمحے قبل خالد بھائی نے تاحکم ِثانی کوئی کال ٹرانسفر نہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ فون پر بات کر چکے تو ہم سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا:
’’منصورہ سے منور صاحب کا فون تھا۔ کل صبح کی پرواز سے لاہور سے آرہے ہیں اور ائرپورٹ سے سیدھے ایبٹ آباد چلے جائیں گے، تحریکِ محنت کے پروگرام میں شرکت کے لیے۔ کل ہی واپس لاہور جانا چاہتے ہیں، مگر واپسی کا ٹکٹ ان کے پاس نہیں ہے۔ ٹکٹ خریدنا بھی ہے اور انہیں ائر پورٹ پر پہنچانا بھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹکٹ پہنچائے گا کون؟ ابھی تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کریں گے۔ اتنی دیر میں فیصلہ بھی کرلینا ہے‘‘۔
فدوی نے عرض کیا:’’یہ ذمے داری خاکسار کو سونپ دیجیے، مگر یہ نہ بتائیے گا کہ ٹکٹ پہنچائے گا کون‘‘۔
خالد بھائی نے ایساہی کیا۔ فون آیا تو فرمایا: ’’میرے سامنے ایک صاحب بیٹھے ہیں جنہوں نے یہ ذمے داری لے لی ہے۔ کل صبح ائر پورٹ پر آپ کو ٹکٹ مل جائے گا‘‘۔
اگلی صبح اسلام آباد ائر پورٹ پر لاہور سے آنے والی پرواز کے جہاز کی سیڑھیوں کے سامنے ہم موجود تھے۔ منور صاحب (جو اُس وقت جماعتِ اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے) جہاز سے اُترے تو پی آئی اے والوں نے پکڑ کر اُنہیں ’وی آئی پی کوچ‘ میں بٹھا دیا۔ ہم بھاگم بھاگ کوچ میں سوار ہوئے اور جاکر خاموشی سے منور صاحب کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ اُنہوں نے گویا کن اکھیوں سے اپنے ہم نشیں کو دیکھا اور پھر پہچان کر ایک پُرجوش نعرہ مارا:
’’اخّاہ! ارے بھئی آپ یہاں کیسے؟‘‘
عرض کیا: ’’آپ کے خادم کو ایک ناخوشگوار ذمے داری سونپی گئی ہے‘‘۔
یہ سن کر منور صاحب خاصی سنجیدگی سے کوئی ناخوشگوار خبر سننے کے لیے تیار ہوگئے۔ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور نہایت سنجیدگی سے عرض کیا:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آپ جیسے ہی یہاں اُتریں آپ کو فوراً واپسی کا ٹکٹ تھما دیا جائے‘‘۔
منور صاحب نے چوٹ سَہ کر پہلے تو دائیں بائیں دیکھا پھر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے فرید پراچہ صاحب سے کہنے لگے:
’’آپ انہیں پہنچانتے ہیں؟ یہ ہیں ابونثر!‘‘
یہ گویا ہماری شرارت کو اُن کی شرافت کا منہ توڑ جواب تھا۔ اب فرید پراچہ صاحب کو بھی اطمینان ہو اکہ یہ کسی ’ایجنسی کا بندہ‘ نہیں ہے۔
جنوری 2013ء میں ’گلشن تعلیم‘ کے کیمپس کا افتتاح کرنے اسلام آباد تشریف لائے۔ اب وہ امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے۔ خاصے نحیف و نزار ہوچکے تھے۔ چلنا مشکل تھا۔ لوگوں نے سہارا دے کر اسٹیج تک پہنچایا۔ صدارتی خطاب کا موقع آیا تو بات سے بات نکلی اور ملک بھر کے ’کالم نگاروں‘ پر برس پڑے۔ یکایک ہم پر نظر پڑی تو یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ:
’’سامنے ہی ابونثرؔ بیٹھے ہیں، سوچ رہے ہوں گے کہ شاید مجھے ہی دیکھ کر یہ ساری باتیں کہہ رہے ہیں‘‘۔
اب آخر میں ایک ایسا قصہ جو ہم نے سنا تو اپنے بڑے بھائی محترم محفوظ الرحمن صدیقی سے تھا، مگر سناتے اپنے الفاظ میں ہیں:
اس تحریر کی ابتدا میں ہم نے منور صاحب کا جو سراپا کھینچا ہے، اُس میں اُن کے بال بھی چھوٹے ہیں اور ڈاڑھی بھی۔ قارئین شاید سوچ رہے ہوں کہ یہ لمبے، پٹے بالوں اور لمبی ڈاڑھی والا انقلاب کب آیا؟ خیر کسی بھی شخص کی زندگی میں اس قسم کے انقلابات تو کسی بھی وقت آ سکتے ہیں، ایسے کسی انقلاب کے لیے کوئی بڑی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کبھی کبھی کسی چھوٹی سی بات سے ’تحریک‘ ہو جاتی ہے۔
کراچی میں (غالباً لیاقت آباد میں) ایک دیندار گیسو تراش تھے۔ اُنہوں نے اپنی دکان پر یہ اطلاع نامہ آویزاں کر رکھا تھا کہ:
’’یہاں شیو نہیں بنائی جاتی‘‘۔
باریش افراد کے ’خط‘ بنانے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ منور صاحب بھی ان ہی گیسو تراش صاحب کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے۔ ایک روز وہ منور صاحب کا خط بناتے بناتے کہنے لگے: ’’آپ اتنی چھوٹی ڈاڑھی کیوں رکھتے ہیں؟ آپ کے نانا کی ڈاڑھی تو بڑی تھی‘‘۔
منور صاحب نے اللہ جانے اس فقرے کو اُن کی خوش مزاجی سمجھا یا اُن کی غلط فہمی، مگر ہُوں ہاں کرکے خاموش ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے پھر یہی بات کہی۔ منور صاحب تب بھی چپ ہی رہے۔ مگر جب وہ بار بار ایک ہی بات کہتے رہے کہ:
’’بھئی، آپ اتنی چھوٹی ڈاڑھی کیوں رکھتے ہیں؟ آپ کے نانا کی ڈاڑھی تو بڑی تھی‘‘۔
تو منور صاحب سے رہا نہ گیا۔ کہنے لگے: ’’اپنے نانا کو تو خود میں نے نہیں دیکھا۔ آپ نے کہاں سے دیکھ لیا؟‘‘
اِس پر اُنہوں نے بس ایک مختصر سا سوال کیا اور منور صاحب کے دل پرجو چوٹ پڑی وہ فوراً کارگر ہوگئی۔ باربر صاحب نے بس اتنا پوچھا تھا:
’’کیا آپ سیّد نہیں ہیں؟‘‘
منور صاحب کی سب سے نمایاں صفت یہ تھی کہ جو دل میں ہوتا وہی زبان پر آتا۔ اُن کی بعض باتوں پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ مگر دنیا نے بالآخر دیکھ لیا کہ یہ شخص دُوربیں اور دُور اندیش تھا۔ کل جو بات اکیلے منور صاحب کہتے تھے آج وہ سب کے لبوں پر ہے۔
ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق