سردار مینگل کی مراجعت

308

بلوچستان نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کے مابین قریباً دوسال قربت رہی، اس امتزاج پر گہرے شبہات کا اظہار ہو تا رہا، بلکہ ہنوز نقد و جرح کا سامنا ہے۔ چناں چہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے مراجعت اختیار کر لی اور کمزور و مصلحت کوش حزب اختلاف کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ حکمران اتحاد سے مفارقت کا اعلان پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل نے بدھ 17جون 2020ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا کہ مزید تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں ہوگا۔ حکمران اتحاد سے علٰیحدگی کا فیصلہ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں مشاورت کے بعد کیا گیا۔ بی این پی نے 25جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اپنی چار نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف کا حکومت بنانے میں ساتھ دیا تھا۔ بی این پی ساتھ نہ دیتی تو شاید تحریک انصاف کی حکومت تشکیل نہ پاتی یا انہیں حکومت سازی میں مزید مشکلات کا سامنا ہوتا۔ یہ جماعت عام انتخابات میں صوبے کی بڑی قوم پرست جماعت بن کر سامنے آئی۔ بلوچستان اسمبلی کی سات جنرل نشستیں جیتیں۔ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد اس وقت ان کے صوبائی اسمبلی میں ارکان کی تعداد دس ہے۔ صوبے میں حکومت بنانے کا ماحول نہ بن سکا۔ اس بنا بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی حزب اختلاف کی بینچوں پر بیٹھ گئیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے مرکز میں تحریک انصاف کی مشروط حمایت کر رکھی تھی۔ یعنی اپنے چھ نکات کے ساتھ اتحاد کا حصہ بنی۔ یہ نکات اس طرح ہیں۔ 1۔ لاپتا افراد کا مسئلہ پختہ عزم کے ساتھ حل کیا جا ئے گا اور مستقبل میں جبری گمشدگیوں کا تدارک کیا جائے گا۔ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے گا۔ 2۔ بلوچستان کے جغرافیائی شناخت کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ اس سلسلے میں تمام جماعتوں سے مشاورت کرکے بلوچستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے گی۔ 3۔ وسائل کی تقسیم شفاف اور منصفانہ انداز میں کی جائے گی۔ معدنی وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے مقامی سطح پر ریفائنریز لگائی جائیں گی۔ 4۔ بلوچستان سے نقل مکانی کے خدشات ختم کرنے کے لیے پانی کے ذخائر محفوظ کرنے کی خاطر بڑے ڈیمز بنائے جائیں گے۔ 5۔ وفاق اور فارن سروسز کی ملازمتوں میں بلوچستان کے چھ فی صد کوٹے پر عملدرآمدکیا جائے گا۔ 6۔ تمام افغان مہاجرین کو با عزت طریقے سے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ گویا یہ نکات وفاق کے ہاں توجہ کے لائق نہ ٹھیرے۔
بی این پی کے نزدیک لا پتا افراد یا گمشدگیوں کا نکتہ سردست فوری توجہ کا حامل تھا۔ اس ضمن میں اختر مینگل نے کہا تھا کہ اگر ان کے چار ووٹوں سے کوئی لاپتا بلوچ منظر عام پر آتا ہے تو وہ حکومت سازی میں تحریک انصاف کی حمایت کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ تب عمران خان نے واضح بھی کیا تھاکہ لاپتا افراد کا مسئلہ ان کے بس سے باہر ہے۔ جس کے لیے طے ہوا کہ سردار اختر مینگل کی ملاقات افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے کرائی جائے گی۔ مگر بظاہر یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان پہلا معاہدہ 18اگست 2018ء کو ہوا۔ جس کے لیے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور سردار یار محمد رند کوئٹہ آئے اور یہاں معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بہر حال اس عرصہ بی این پی بارہا معاہدے پر عملدرآمد کی جانب توجہ دلاتی رہی۔ معاہدے کے نام پر بی این پی نے صدر مملکت کے انتخاب کے وقت تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو ووٹ دیا۔ نیز اس شرمناک کھیل کا حصہ بھی بنی جس کی بنیاد پر پارلیمانی سیاسی روایات و اقدار کا جنازہ نکالتے ہوئے میر صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ جس میں وائٹل رول پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا۔ اس گندے کھیل کی شروعات بلوچستان سے ہوئی۔ جہاں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان کے علاوہ جمعیت علماء اسلام ف، بلوچستان نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ق، عوامی نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی اور مجلس وحدت مسلمین اس کھیل کا حصہ تھیں۔ پھر سینیٹ الیکشن میں یکجائی دکھائی۔ سینیٹ کے انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے ضمیر فروخت کیے۔ جس کے نتیجے میں کئی آزاد امیدوار سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے جن میں صادق سنجرانی بھی شامل تھے۔ چناں چہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں بھی بی این پی ناروا سیاست کا حصہ بنی تھی۔ فوج کے سربراہ کی توسیع کا معاملہ گنجلک ہوا تو بھی بی این پی ہمنوا بنی رہی، اور آرمی ایکٹ منظوری میں اپنی ہاں شامل کرلی۔
سردار اختر مینگل اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی جماعت نے ان موقعوں یا مشکل وقتوں میں حکمران اتحاد کا ساتھ دیا۔ بلوچ عوام کو بتایا گیا کہ وہ (بی این پی) کوشش یا معاہدے کے تحت 418لاپتا افراد کی بازیابی میں سرخرو ہوئی ہے۔ مگر ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ معاہدے کے بعدبھی 500افراد لاپتا ہوئے۔ اور مزید ایک ہزار افراد لاپتا کرد یے گئے۔ ان کے مطابق لاپتا ہونے والے ان افراد کی فہرست تیار کی جارہی ہے۔ اس ذیل میں یہ حقیقت مد نظر رہے کہ لاپتا افراد سے متعلق دعوے دار سیاسی جماعتیں اور دیگر فورمز حکومت کو مطلوب لاپتا افراد کے کوائف فراہم نہیں کرسکی ہیں۔ بلکہ ان کے دعوئوں میں مبالغہ کا عنصر شامل رہا ہے۔
لاپتا افراد بارے کمیشن بھی بارہا نشاندہی کرچکا ہے کہ کمیشن کو مطلوب معلومات مہیا نہیں کی جاتیں۔ یقینا بلوچستان کے اندر سے لوگ لاپتا افراد ہورہے ہیں۔ مگر یہ پہلو نگاہ میں رہے کہ صوبے کے اندر چند مسلح تنظیمیں ریاست کے خلاف سرگرم ہیں۔ ان سے نوجوانوں کی بڑی تعداد وابستہ ہے۔ جو براہ راست عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ چناں چہ یہ حقیقت سردار اختر مینگل پر بھی پوری طرح عیاں ہے کہ جب تک مسلح کارروائیاں ہوں گی تو لوگ لازم لاپتا ہوں گے۔ بلا شبہ کسی کا ماورائے عدالت غائب کیا جانا خلاف ِ قانون ہے۔ کچھ عرصہ قبل ضلع قلات کے نواح میں ایک جھڑپ میں کالعدم تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی کے دو افراد شہداد بلوچ اور احسان بلوچ مارے گئے۔ تنظیم نے اپنے لوگوں کے مرنے کی تصدیق کرلی ہے، کہا کہ فورسز سے جھڑپ میں ان کے دو کامریڈ جاں بحق ہوگئے۔ تربت کا رہائشی شہداد بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈیفنس اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں ایم اے تھا اور یونیورسٹی کے شعبہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز میں ایم فل کی ڈگری کے لیے ایڈ مشن بھی لے رکھا تھا جو مارچ 2015ء میں ایک بار تربت سے لاپتا بھی ہوچکا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اْن کی بازیابی کے لیے آواز بھی اٹھائی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سردار اختر مینگل آگاہ تھے کہ ان کی حکمران اتحاد سے تعاون کی سیاست اس ذیل میں بھی کارگر ثابت نہیں ہوگی۔ اپنے اس فیصلے و معاہدے سے ان کو رجوع کرنا ہی تھا۔ چناں چہ سوال یہ ہے پرکیوں حکمران اتحاد کا ساتھ دیا؟۔ یہ اہم سوال ہے اور آئندہ دنوں شاید مترشح ہوں۔ بی این پی روز ِ اول سے اس حقیقت سے بھی آگاہ تھی کہ دو کشتیوں کی سواری عوام میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھی جارہی۔ خواہ جواز کے لیے کتنے نکات پیش کیے گئے ہوں۔ بہر حال تحریک انصاف انہیں منانے کے ضمن میں اب بھی پراْمید ہے۔ حکمراں اتحاد اس علٰیحدگی کے بعد بھی چنداں تشویش میں نہ ہے وہ اس لیے کہ متحدہ حزب اختلاف بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اعلیٰ ایوانوں میں ضمیر کا سودا کرنے والے ار کین (حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے) موجود ہیں۔