پروفیسر ڈاکٹر شکیل الرحمن فاروقی
اعلیٰ تعلیم وہ چوتھی منزل ہے جو طالب علم کو متفرق علوم میں ایک متوازی معیار تک پہنچانے کے بعد کسی ایک منتخب مضمون میں عمودی ترقی دیتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے فرانسیسی نژاد فلسفہ کے پروفیسر ایمریطس ژاں لوک ماریوں نے 2013ء میں شائع ہونے والے اپنے اہم مقالے میں یونیورسٹی اور یونیورسیلیٹی یعنی جامعہ اور آفاقیت کے تعلق پر بحث کی ہے۔ لاطینی زبان کے لفظ یونیورسٹی کا مفہوم ہے ’’اساتذہ اور طلبہ کی برادری‘‘۔ یعنی جامعہ اساتذہ اور طلبہ کی برادری کا وہ مرکز ہے جہاں حقیقی علم کے اعلیٰ ترین درجے کی تدریس و تحقیق میں آفاقیت ملحوظِ خاطر رکھی جائے۔ تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے میں صرف ایک پنجاب یونیورسٹی آئی جبکہ کراچی میں سندھ یونیورسٹی کے قیام کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ پشاور یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ سندھ یونیورسٹی کراچی سے حیدرآباد منتقل کی گئی اور کراچی میں کراچی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتدا ہی سے جامعات قائم کرنے والے اکابرین پروفیسر اے بی اے حلیم، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین خان، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اور دیگر اہم شخصیات نے یہ اہتمام کیا کہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے خود مختار ہوں، لہٰذا قواعد و ضوابط میں جمہوری اقدار کا خاص خیال رکھا گیا کہ اساتذہ اور طلبہ کی رائے فیصلوں اور پالیسیوں میں شامل رہے تاکہ انہیں شعوری آزادی حاصل رہے۔ بلا شبہ ایک عرصے تک پاکستان کی جامعات جمہوری روایات کا گہوارہ رہیں۔
قیام پاکستان 1947ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایکٹ آیا جس کے مقاصد تعلیم و تحقیق کی ترویج، ملک بھر کی جامعات میں ہم آہنگی، درس و تدریس، امتحانات اور تحقیق کے معیار کا تعین اور دیکھ بھال، قومی اتحاد اور یکجہتی کا فروغ اور تدریسی و تحقیقی سرگرمیوں کی قومی ضروریات سے مطابقت کا اہتمام کرنا تھے۔ یہ تمام مقاصد پورے کرنے کا شاید کوئی احسن طریقہ بھی ہوسکتا تھا لیکن اس سے قبل یونیورسٹی ایکٹ کے ذریعے رؤسائے کلیہ جات کے انتخابات کا سلسلہ ختم کردیا گیا جو جمہوری اقدار پہ پہلی نقب تھی۔ سال 1984ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے صدرنشین مارشل لا کے تحت طلبہ یونینز پر پابندی لگوانے کا محرک ثابت ہوئے اور جامعات میں جمہوری اقدار پروان چڑھنے کے تمام امکانات معدوم ہو گئے۔ نوے کی دہائی کے آخر تک یہ تصّور عام ہوگیا کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے اور مطالبہ ہونے لگا کہ اسے ختم کیا جائے۔ اکیسویں صدی کا سورج پاکستان میں جمہوریت کے زوال اور آمریت کا عر وج لے کر طلوع ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں خبر آنے لگی کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ختم کردیا جائے گا اور اس کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن لے گا۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ، اساتذہ نے بڑے پیمانے پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایجنڈے کی مخالفت بھی کرنا چاہی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن بن تو گیا لیکن اساتذہ نمائندوں سے مذاکرات کرنے والے پسِ پردہ چلے گئے اور اچانک دوسرے چہرے نمودار ہوگئے۔ جو لوگ اساتذہ سے مشاورت کررہے تھے ان سے یہ تاثر ملتا تھا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو امریکی نظامِ تعلیم سے مطابقت میں لانا مقصود ہے اور اس امر پر بحث کی جا سکتی ہے کہ اس میں حرج کیا ہے؟
اگر امریکی نظام دنیا بھر میں بہترین ہے تو یوں ہی سہی، کچھ سہولتیں بھی اس طرح کی ہوجاتیں مگر یہ ہو نہ سکا۔ نظام کی تبدیلی کا ذمہ ایسی قیادت کے ہاتھ میں گیا جو برطانوی استعمار سے مرعوب تھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی نظام، برطانوی مزاج اور دیسی بد انتظامی کے امتزاج سے روز بروز ایک ناکارہ ادارے میں ڈھلتا چلا گیا۔ اساتذہ قیادت گفت و شنید اور کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی اپناتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے قریب ہوتی چلی گئی۔ کانفرنس، اجلاس، جہاز کے ٹکٹ، قیام و طعام کے اخراجات وغیرہ کا بوجھ بڑھتا چلا گیا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے کئی گنا زیادہ بڑا ہاتھی بنتا چلا گیا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنی ناقص پالیسیاں منوانے ہر جامعہ کی خود مختاری میں دخل دینے لگا اور اتنا بکھیڑا پھیلا لیا کہ جب مالیاتی تنگی آگئی تو وزیرِ اعظم کی سنت کے مطابق جامعات کو چندے پہ چلانے کی نوبت آگئی۔ اساتذہ اٹھارویں ترمیم کا ساتھ دیتے رہے لیکن صوبائی خود مختاری جامعات کی خودمختاری پر نظر جمائے بیٹھی تھی۔ جامعات کے وسائل بالخصوص زر اور زمین بدعنوان نوکر شاہی اور قانون شکن سیاستدانوں کے لیے لقمۂ تر کی حیثیت رکھتے ہیں
حکمران بدترین معاشی حالات میں بھی حکومت کے اخراجات کم کرنے کی کوئی کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے ادارے تعلیم و تحقیق سے زیادہ ملازمین اور اعلیٰ افسران کی ایک بڑی فوج ظفر موج پر اخراجات کیے جارہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی ہائر ایجوکیشن شعبہ جات اور کمیشن بھی شامل ہوگئے۔ اب نوکر شاہی کو بھی حصّہ چاہیے۔ صوبۂ پنجاب کی جامعات کے ایکٹ میں تبدیلی اور جامعات میں نوکر شاہی اور عدلیہ سے سربراہان اور افسران کا تقرر جامعات کی خود مختاری، علم و دانش، درس وتدریس، تعلیم و تحقیق اور ملک و قوم کی ترقی میں ایک بہت بڑا رخنہ ہیں۔
شعور و فکر کو گرفت میں لینے ایسی ترامیم جامعات کے بنیادی تصّور کے خلاف ہیں جو پاکستان میں پہلے ہی سے دگرگوں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کو مزید پستیوں میں دھکیل دیں گی۔ یہ فسطائیت یا فاشزم کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ بیرونی امداد پر خرمستیاں پاکستان میں تعلیم کی چوتھی منزل کو کھنڈرات میں تبدیل کرچکی ہیں اور شاید ہمارے بین الاقومی مخیر حضرات بھی یہی چاہتے ہیں کہ نہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں اور نہ ہماری معیشت سنبھل سکے۔ وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی علمی تحقیق کو دفاعی پروگرام کے مطابق کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ ایک خیال، ایک تصور، ایک طاقت، فسطائیت ہی لا سکتی ہے جس کی انتہا اعلیٰ تعلیمی اداروں پر ہوتی نظر آرہی ہے۔