جوبائیڈن کا کشمیر، چین کی سیاچن پر قبضہ کی تیاریاں

1078

امریکی میں ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کیا کہ مودی نے کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35-A میں تبدیلی کرکے بھارت کو خطرناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 370 اور متنازع شہریت بل بھارت میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھارت کی مخالفت اور کشمیریوں کی حمایت میں جس طرح کھل کر بات کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’امریکا کی انتخابی مہم میں کشمیر ایک برننگ ایشو کے طور پر قائم و دائم رہے گا‘‘۔ بھارت کی ماضی کی حکومتوں، چاہے کانگریس ہو یا بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کی‘ نے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو کبھی نہیں چھیڑا، یہ الگ بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فوج، پولیس اور دیگر نوعیت کے مظالم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کی گئی مگر 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ کی سرکردگی میں اس تار کو بھی چھیڑا دیا اور گزشتہ 5 اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا، جہاں تعلیمی ادارے مسلسل11ماہ سے بند ہیں، غذائی اجناس کی صورت حال سے دنیا ناواقف ہے، اسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں بلکہ وہاں پر بھارتی فوج کا بسیرا ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ مئی میں کشمیر میں 90نو جوان شہید ہو چکے اور پاکستان سمیت پوری دنیا خاموش ہے۔
5 اگست سے آج تک کشمیر میں انسانی حقوق کا چراغ گل ہے اور اس خطۂ جنت نظیر میں جبر کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی اور پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرار داد اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلی گئی۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت نے جولائی کے آخر میں عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے دعوؤں کے بعد ماہ اگست شروع ہوتے ہی جبر کا بدترین سلسلہ شروع کیا۔ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے دعوؤںکے بعد نریندر مودی کو بھارتی میڈیا میں سخت تنقید کا سامنا تھا اور انہوں نے امریکی صدر کو ثالثی کی پیش کش سے متعلق خبر کو غلط قرار دیا تھا لیکن تنقید اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہیں اپنے دفاع میں مشکل پیش آرہی تھی مودی نے اس کا حل یہ دریافت کیا کہ اپنے انتخابی منشور پر عمل شروع کیا جائے اور ملک میں جاری بحث کا رخ ہی بدل دیا لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاوہ بھارت میں بھی بڑے پیمانے پر آرٹیکل 370 کے خاتمے کی مخالفت کی گئی۔ یہ صورتحال جاری تھی کہ 5مئی کو چین نے آرٹیکل 370 اور 35 اے سے متاثر لداخ اور گلوان ویلی پر 70کلو میٹر علاقے پر حملوں کے بعد قبضہ کر لیا۔
جوبائیڈن کے اس بیان کے بعد بھارت میں آگ لگ گئی اور پورے بھارت میں جوبائیڈن کے اس بیان کی سخت مذمت کی جارہی ہے۔ اُدھر دوسری جانب امریکا میں موجود بھارتی لابی نے اس بات کی کوشش شروع کردی ہے کہ امریکی انتخابات میں کشمیر کو ترجیح بنیاد پر سامنے آنے سے روکا جائے۔ اخبارات کے مطابق امریکا بھارت میں اپنی فوجیں اتارنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ امریکا یہ کام کیسے کرسکے گا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان سے شکست خوردہ امریکی فوج کا مورال کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑنے سے یکسر خالی ْہے۔ طالبان سے امریکی افواج کی شکست اور افغانستان سے اُن کی واپسی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی فوجی خشکی پر لڑائیوں سے ناواقف ہیں۔ محلِ وقوع کے مطابق امریکا کے دوجانب بڑے بڑے سمندر ہیں، ایک طرف ایشیا پیسیفک اور دوسری طرف اٹلانٹیکا کا طویل ترین سمندر موجود ہے جس کی وجہ سے امریکا کو اس بات کی ضرورت کبھی بھی محسوس نہیں ہوئی کہ ملک کے دفاع کے لیے اعلیٰ پیمانے کی بری افواج تیار کرے اس کے برعکس امریکا نے بحری فوج کی تیاری پر خصوصی توجہ دی لیکن امریکا بحری تجربے کے باوجود چین سے بہت دور ہے، چین کے 300سے زائد بحری بیڑے ہیں اس کے برعکس امریکا کے پاس 296بحری بیڑے ہیں امریکا کے بحری بیڑے دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن چین کے تمام بحری بیڑے ایشیا پیسیفک تک محدود ہیں۔ اس کے برعکس چین ماسٹر مارشل آرٹ رجمنٹ تیار کرکے فوری طور پر تبت، لداخ، گلوان ویلی اور سیاچن پر بھیجنے کی تیاری کررہا ہے۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ چین نے ماسٹر مارشل آرٹ (ایم ایم اے) کے تحت 10 لاکھ سے زیادہ افراد رجمنٹ کے لیے تیار کیے گئے ہیں جن کا کام جوڈو کراٹے اور دیگر اسی طرح کی لڑائی لڑنا ہوگا۔ چین کے تمام ایم ایم اے سینٹر میں لاکھوں کی تعداد میں برسوں سے لداخ، تبت میں لڑائی کے لیے مارشل آرٹ ماسٹر تیار کیے جارہے ہیں۔ جن کی اب ضرورت پڑی چکی ہے اور فوری طور پر ان تمام افراد کو بھارتی سرحدوں پر بھیجا جارہا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ پتا چلتا ہے کہ امریکی فوج کو کشمیر محاذ پر ناکامی کا سامنا ہوگا۔ ابتدائی طور پر امریکی فوجوں کو یہ بات سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہوگی کہ ان علاقوں میں لڑائی کا طریقۂ کار کیا ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا ہے کہ امریکی افواج زمینی لڑائی سے یکسر نابلد ہے اور اسے اس بات کا قطعی علم نہیں ہے کہ زمینی لڑائی میں اس کو کون کون سے طریقے اور کہاں کس حکمت عملی کے تحت لڑائی کرنی ہے۔ اس کے برعکس چینی افواج کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ وہ کن علاقوں میں کس حکمت عملی کے تحت جنگ میں شریک ہوں۔ امریکا شاید یہ سمجھ رہا تھا کہ چین صرف لداخ اور اسی طرح کے چند علاقوں پر قبضے کے بعد بھارتیوں کو ڈرا دھمکا کر واپس چلا جائے گا لیکن چین نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ فوری طور پر سیاچن گلیشیر پر بھی قابض ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے بھارتیوں کو آگاہ کردیا ہے کہ وہ ایل او سی اور ایل اے سی کے درمیان موجود گلیشیر کو خالی کردے اس لیے کہ سیاچن گلیشیر چین کا حصہ ہے۔
ایک جانب یہ سب کچھ ہو رہا ہے کہ اور دوسری جانب پاکستان جس کا 70برس سے یہی کہنا ہے ’’کشمیر ہماری شہ رگ ہے‘‘ لیکن وہ بھارت پر حملہ کر نے سے قاصر ہے اور صرف ایل او سی پر شہادتوں کی گنتی میں مصروف نظر آرہا ہے۔ چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ بلند، بحرہِ عرب سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے اور چینیوں لداخ، گلوان ویلی، اور اب سیاچن گلیشیر پر بھی قابض ہو کر یہ ثابت کر دے گا کہ ’’جنگ باتوں سے نہیں قبضے سے جیتی جاتی ہے‘‘۔ بھارت باتوں کا نہیں لاتوں کا بھوت ہے۔ وہ مذمت سے نہیں چین کی طرح مرمت سے ٹھیک ہو گا۔