ایک صاحب نہایت غصے کے ساتھ مجھ سے گلہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ حبیب صاحب آپ کے فلاں جاننے والے نے میری ’’بے عزتی‘‘ خراب کر کے رکھ دی۔ پہلے تو میں نے خیال کیا کہ شاید وہ بے عزتی کی خرابی کا لفظ غلط استعمال کر گئے ہیں لیکن ان کے چہرے پر چھائی گہری سنجیدگی اور اضمحلال کو دیکھ کر میں نے سوال کیا کہ حضرت خراب تو عزت ہوا کرتی ہے، تو نہایت سنجیدگی سے فرمایا کہ عزت پہلے ہی کب تھی، بے عزتی ہی بچی تھی اس کو مزید داغ لگا دیا گیا۔ یہ سن کر بے اختیار مجھے ہنسی آ گئی لیکن فوراً ہی یہ احساس ہوا کہ ان کا غصہ اور اضملال میری ہنسی نے اور بھی سوا کر دیا ہے۔
قومی اسمبلی میں ہوا بازی کے وزیر مملکت نے پاکستان ہی کو نہیں، پوری دنیا کو یہ رپورٹ سنا کر جھنجھوڑ ڈالا جب انہوں نے رپورٹ میں درج یہ جملے ادا کیے کہ پاکستان کے کل 860 ساٹھ ہوا بازوں میں سے 264 ہوا باز (پائلٹس) جعلی ڈگری ہولڈر ہیں۔ ان کی اس رپورٹ کو سن کر مجھے اپنے وہی دوست یاد آ گئے جن کے نظریہ کے مطابق ان کی ’’بے عزتی‘‘ مزید خراب کر دی گئی تھی۔ وزیر ہوا بازی کی اسمبلی میں پیش کی گئی اس رپورٹ کے حوالے سے پاکستان میں جو شور مچنا تھا وہ مچ ہی گیا ہوگا، اس شور کو تو پھر بھی کسی نہ کسی صورت دبایا جا سکتا ہے لیکن اس نے پوری دنیا میں پاکستان کی ’’بے عزتی‘‘ میں مزید کتنے ’’بلیک ہولز‘‘ لگائے ہوں گے، ان میں سے کچھ تو سی این این سے نشر کیے جا چکے ہیں اور کچھ آنے والا وقت عملی طور پر سامنے لے کر آئے گا۔
بے شک موجودہ حکومت کا ان جعلی ڈگریوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں لیکن پاکستان 22 یا 24 ماہ پہلے تو معرضِ وجود میں نہیں آیا ہے کہ دنیا اپنے کھڑے ہوجانے والے کان محض اس لیے دوبارہ بٹھا لے گی کہ چلو معاملہ نئے سرے سے ’’ریاستِ مدینہ‘‘ بنانے کا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ جعلی ڈگری کے حامل ہوا باز جہاز اُڑا رے رہے ہیں، اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایسے سارے ہوا باز سخت ترین سزاؤں کے ساتھ فارغ بھی کیے جا سکیں گے؟ جعلی معاملات خواہ، ڈگریوں کے یا مختلف سرٹیفکیٹس کے ہوں، یہ سب بھڑ کے چھتے جیسے ہوتے ہیں اور جب ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک پوری چین سامنے آتی چلی جاتی ہے جس کی ہر کڑی دوسری کڑی سے نہایت مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہے اور ایک ڈگری لاکھوں کے بھید کھولنا شروع کر دیتی ہے لہٰذا پاکستان کے سارے معززین کی عزتوں کو بچانے کے لیے چند گناہ گاروں سے ’’این آر او‘‘ کرنا مجبوری بن جاتی ہے اور یوں سارے معاملات پر یا تو منوں مٹی ڈال دی جاتی ہے یا پھر انہیں دریا برد کرنا پڑ جاتا ہے۔
بات صرف پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں کی نہیں، ہمارے سیاست دان ہوں، اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے سارے ذمے داران ہوں، لاکھوں ماسٹرز ڈگری ہولڈرز ہوں، پی ایچ ڈی ہوں یا تمام اہم محکموں کے اہم عہدوں پر بیٹھے عہدیداران، شاید ہی ان میں سے کوئی اصلی ڈگری ہولڈر موجود ہو اور اگر وہ اصلی ڈگری ہولڈر ہو بھی تو اپنی کرسی تک پہنچنے کے جو قانونی مراحل ہیں، ان سے گزرا ہو۔ 99 فی صد سے زیادہ افراد، جو جہاں بھی اور جس عہدے پر بیٹھے ہیں سب کے سب قائد اعظم، وزرا و سفرا یا پھنے خانوں کے مرہونِ منت ملیں گے۔ لہٰذا جن کے مرہونِ منت ہیں ان کی خدمت کرنا بہر صورت ان پر ملک کی خدمت سے کہیں زیادہ افضل ہوتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اس حال کو پہنچا ہوا ہے کہ اب اسے دنیا بھر میں اگر کوئی فکر لاحق رہتی ہے تو وہ صرف اور صرف اپنی ’’بے عزتی‘‘ کے تحفظ کی رہتی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں جو جس عہدے پر ہے، جس جس کے پاس جعلی ڈگری ہے، جو ہر قانونی مرحلے کو نظرانداز کرکے کسی بھی محکمے میں بھرتی ہوا ہے، ان سب جعلی کاموں کی پہلی اینٹ 1973 کے آئین میں ’’کوٹا سسٹم‘‘ بنا کر رکھ دی گئی تھی۔ کوٹا سسٹم کی ضرب بظاہر پورے پاکستان میں صرف سرحد کے دوسری جانب سے آنے والوں پر پڑتی دکھائی دیتی تھی اس لیے آج تک پورے پاکستان کو یہ قانون ’’کالا‘‘ نہیں دکھائی دیا۔ جب شہروں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ دیہات کے جعلی ڈگری ہولڈروں کے مقابلے میں ابوجہل سمجھا جائے گا تو پھر جو کچھ آج پاکستان بھگت رہا ہے وہ اس سے اب بھی بہت کم ہے جو آئندہ سامنے آنے والا ہے۔
دریاؤں کے بہتے پانی کے راستے مسدود کرنے سے دریا خشک نہیں ہو جایا کرتے بلکہ وہ بپھر جاتے ہیں یا اپنا رخ بدل لیا کرتے ہیں۔ کوٹا سسٹم کی وجہ سے کراچی یا سندھ کے شہری ’’صومالین‘‘ نہیں بن گئے بلکہ آج بھی پورے پاکستان میں سب سے خوش حال وہی ہیں اور پورے ملک کی 70 فی صد معیشت کا انحصار ان ہی پر ہے البتہ پاکستان اپنی تسبیح کے دانوں کو بار بار پرونے کی تگ و دو میں ضرور مصروف ہے۔ یہ مقامِ غور و فکر ہے ان ارباب اختیار و اقتدار کے لیے جس کے لیے احمد فراز کچھ یوں ارشاد فرما گئے ہیں کہ:
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی اوروں کا برا سوچتے ہیں