پاکستان عالمی سیاست کے تقاضوں کو پورا کرے گا؟

344

وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خود ہی اعلان کر دیا ہے کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ کرسی مضبوط ہے، کرسی آج ہے کل نہیں ہوگی۔ میں نے نہیں کہا کہ میری حکومت نہیں جانے والی، کرسی آنی جانی چیز ہے‘ جب تک ہم نظریے اور اصول پر قائم ہیں کوئی ہماری حکومت نہیں گراسکتا اپوزیشن کی جانب انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ مجھے مائنس کرکے یہ بچ جائیں گے‘ میں اگر مائنس ہو بھی گیا تو ان کی جان نہیں چھوٹے گی۔ اپنے مشن پر کاربند ہوں اور اس کو مکمل کریں گے۔ ہم ہر جگہ تحقیقات کریں گے اور جنہوں نے عوام کا استیصال کیا ہے ان کے پیچھے جائیں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسٹاک ایکسچینج حملہ بھارت نے کرایا۔ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے منصوبہ وہیں پر بنا۔ ہماری ایجنسیاں پہلے بھی 4حملے روک چکی ہیں‘ میں پاکستان کے سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘ نواز شریف نے اسی سیٹ پر کھڑے ہوکر جعلی کاغذات لہرائے‘ مسلم لیگ (ن) کا کوئی دین ایمان نہیں۔ یہ کبھی جہادیوں سے پیسے لیتے ہیں اور کبھی لبرل بنتے ہیں‘ 6 ‘ 7لوگ این آر او لینا چاہ رہے ہیں‘ یہ این آر او بھول جائیں۔
سوال یہ ہے کہ عمران، نواز شریف اور زرداری حکومت کی آمد اور رخصتی کیا پاکستان یا پاکستانی عوام کے لیے کی جاتی ہے یا اس کے مقاصد عالمی سیاست کے بے مقصد مطالبات کو پورا کرنا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی ’’عالمی ساہوکاروں کی مدد اور تعاون کے لیے کی جاتی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ اس پورے تناظر میں دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ملک میں کچھ ایسی تبدیلی ہو رہی ہے جس کا تعلق ’’دستور‘‘ سے ہو گا۔ ہم نے 31مئی 2020ء کے مضمون میں لکھا تھا کہ چین نے پوری دنیا میں سی پیک کا پہلا مرحلہ مکمل کرلیا یہ مرحلہ کاغذی تھا، دوسرے مرحلے میں چین کی یہ کوشش ہے کہ وہ تمام ممالک جو سی پیک میں شامل ہیں وہ اپنے ملک میں ایک ایسا حکومتی ماڈل تیار کریں جو چین کے نظام حکومت سے ملتا جلتا ہو۔ یہ بات بہت سارے سی پیک معاہدوں میں شامل نہیں ہے لیکن درپردہ پاکستان بھی شاید چین کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ کرچکا ہے جس میں وہ اپنے ملک کے دستور میں کچھ نہ کچھ ترمیم کرے گا۔ چین نے دنیا کے مختلف ملکوں کے دستور میں تبدیلی کے لیے ایک نمونہ 27مئی 2020ء کو ہانگ کانگ میں پیش کردیا ہے۔
سی پیک کی مخالفت میں امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے تاہم یہ قرضے دینے کی شرائط کو شائع نہیں کرتا جس کی وجہ سے پاکستانی سی پیک کے حوالے سے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانا چاہتے ہیں تھنک ٹینک میں ایلس ویلز نے کہا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اس وقت نقصان پہنچے گا جب چار سے چھ سال بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ ادائیگیاں موخر بھی کر دی گئیں تب بھی یہ پاکستان کی معاشی ترقی پر منڈلاتی رہیں گی۔ ایلس ویلز کے اس جملے میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے کہ ’’چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے تاہم یہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو شائع نہیں کرتا‘‘۔ چین کے بھارت پر حملے اور پاکستان میں ’’مائنس ون‘‘ فارمولا ایک مرتبہ پھر تیز سے تیز تر ہو چکا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلِس ویلز کی چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک پر براہ راست تنقید سے اگرچہ کئی تجزیہ کاروں کو حیرانی نہیں ہوئی لیکن کچھ پاکستانی سفارت کار اسے امریکا کی پاکستان سے تجارتی تعلقات بحال کرنے کی ایک بالواسطہ پیش کش قرار دے رہے ہیں۔ ایلس ویلز جو امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے امور کی سربراہ ہیں، عموماً پاکستان سے امریکی روابط پر عدم اطمینان کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے 60 ارب ڈالرز مالیت کے متعدد منصوبوں پر مشتمل ہیں لیکن یہ کہنا کہ سی پیک پاکستان کے نوجوانوں کو روزگار مہیا کر ے گا بہت حد تک درست نہیں ہے، اس سلسلے میں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا کہنا ہے کہ سی پیک میں پاکستانی کمپنیوں کو چین وہ سہولتیں فراہم نہیں کرے گا جو چینی کمپنیوں کو پاکستان ایک دہائی پہلے مہیا کرتا تھا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارت میں عدم توازن بہت زیادہ نظر آرہا ہے۔
مئی 2013 میں چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران سی پیک کی تجویز پیش کی جس کو فوری طور پر پاکستانی حکومت کی جانب سے مثبت ردعمل اور اہمیت دی گئی۔ جولائی 2013 میں وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ چین کے دوران سی پیک پر کام شروع کرنے کے لیے ایک مفاہمت نامے پر دستخط ہوئے۔ اس وقت بھی یہی کہا جارہا تھا کہ اس معاہدے کو عام کیا جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اب تک بڑے اور اہم منصوبوں پر عمل درآمد کا سلسلہ موثر طریقے سے جاری ہے۔ سی پیک پر وقت کے ساتھ ساتھ مکمل منصوبہ بندی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے نیز یہ چین اور پاکستان کے مابین دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن جن باتوں کے بارے خدشات نمایاں ہیں ان کا جواب اب تک نہیں دیا جارہا ہے اس معاہدے کے چھپے ہوئے وہ پہلو کیا ہیں جن کے لیے ’’دستور‘‘ وحکومتی ڈھانچے میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تبدیلی کی آڑ میں دستور کو اس کے مرکزی خیال ’’اسلامی جمہوریہ سے پاکستان کو عوامی جمہوریہ بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے توحکو مت بنانے اور ختم کر نے والے خفیہ ہاتھ یہ بھی بتا دیں کہ محمد خان جونیجو کی برطرفی 28فروری 1985ء سے شروع ہونے والی وزیر اعظموں کی برطرفیاں جن میں بے نظیر16نومبر 1988ء، نواز شریف 24نومبر 1990ء، پھر بے نظیر اور دوبارہ نواز شریف حکومت کا خاتمہ، اس کے بعد 10اکتوبر 2002ء کو میر ظفراللہ جمالی، یوسف رضا گیلانی 18فروری 2008ء اور اس دوران پی پی پی کے ایک اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور 11مئی 2013 کو ایک مرتبہ پھر نواز شریف کی برطرفی سے پاکستا ن اور یہاں کے عوام کو کیا فائد ہوا۔ یہ سب کچھ خفیہ ہاتھوں کا کارنامہ ہوتا ہے، ہر حکومت کو ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے ’’ملک کی بقا اور سلامتی عوام کی فلاح وبہبود، اور غربت وبے روزگاری کے خاتمے کے لیے موجودہ حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔ لیکن سب کچھ اُلٹ ہوتا نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کی بقاوسلامتی کو نئے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ ملک میں غربت بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے عوام کی تعداد میں 50سے 60لاکھ افراد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی تبدیلی پاکستان اور عوام دونوں کے لیے خطرناک ہے اس سے بچا جائے یہی بہتر راستہ ہے۔