پرائیویٹائزیشن

393

1960 کے عشرے میں صدر محمد ایوب خان کے زمانے میں پاکستان صنعتی اعتبار سے ترقی کر رہا تھا اور معیشت کی شرحِ نموقابلِ رشک تھی، پھر 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے بعض کامیاب صنعتیں، تمام مالیاتی اور تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لے لیے، کیونکہ یہ 1970 کے انتخاب میں اُن کا منشور تھا اور ’’سوشل ازم ہماری معیشت ہے‘‘ اُن کا نعرہ تھا۔ لیکن اس نظام کو سنبھالنے کے لیے اُن کے پاس کوئی تربیت یافتہ نظریاتی کیڈر نہیں تھا۔ چنانچہ معیشت کا پہیہ جام ہوگیا، بلکہ ریورس گیئر لگ گئی، مالیاتی اور تعلیمی نظام تنزّل کا شکار ہوا اور آج تک اس کی کما حقہٗ تلافی نہیں ہوسکی۔ یہاں ہم نظریاتی پہلوئوں پر نہیں بلکہ حقائق وواقعات پر گفتگو کر رہے ہیں۔
پھر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں قومیائے گئے اداروں کی نجکاری کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری وساری ہے، لیکن ہمارے قومی تناظر میں یہ اقدام بھی بہت سے منفی پہلوئوں کا سبب بنا۔ جن شعبوں پر کرپشن کا الزام لگتا ہے، ان میں ایک نجکاری کا شعبہ بھی ہے۔ اس کے بعد آنے والی حکومتوں میں نجکاری کا سلسلہ جاری رہا، چنانچہ پاکستان اسٹیل، پی آئی اے اور ریلوے کے بعض شعبوں یا روٹس کی نجکاری کی بات ہوتی رہتی ہے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ ہر دور کی حکومت نجکاری کی بات کرتی ہے اور اپوزیشن اس کے خلاف مہم چلاتی ہے، پھر جب وہی اپوزیشن اقتدار میں آجاتی ہے تو وہی مناقشہ چلتا ہے، بس صرف پوزیشن بدل جاتی ہے، یعنی کل جو نجکاری کے مخالف تھے، آج اس کے علمبردار بن جاتے ہیں اور کل جو نجکاری کا پرچم بلند کیے ہوئے تھے، آج اس کے خلاف تحریک چلا رہے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں اصولوں پر مبنی نہیں ہوتیں، وقتی مفادات اور پاپولزم کے تابع ہوتی ہیں، ملکی اور قومی مفاد ترجیحِ اول نہیں ہوتا، ورنہ اپوزیشن سے اقتدار میں آنے کی صورت میں پالیسیاں اور اصول بدلنے نہیں چاہیے تھے۔
یہ موضوع ہم نے اس لیے منتخب کیا کہ ہمارے حال اور ماضی کی سب حکومتیں بہت عجلت میں ہوتی ہیں، اس بنا پر ہمارے فیصلوں، اقدامات اور ان کے نتائج میں خامیاں اور نقائص رہ جاتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان اسٹیل کی پرائیویٹائزیشن کو سپریم کورٹ نے روکا اور اس کے بعد سے اب تک پاکستان اسٹیل دوسو ارب کی اور پی آئی اے تقریباً چار سو ارب کی مقروض ہے، جبکہ ایک وقت میں یہ دونوں ادارے نفع بخش تھے اور کامیاب تھے۔ پی ٹی سی ایل کی جلد بازی میں نجکاری کی گئی، چھبیس فی صد ادائی پر اس کا انتظام اتصالات کے سپرد کردیا گیا اور مکمل بقایا جات آج تک نہ مل سکے، جبکہ یہ ایک کامیاب اور نفع بخش ادارہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نجکاری کے وقت حکومت معاملے کی جزیات کو نہیں دیکھتی، قانونِ بین الاقوام اور کارپوریٹ لا کے ماہرین سے معاہدات کے بارے میں ماہرانہ رائے نہیں لی جاتی، معاہدات میں جھول رہ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملکی اور قومی نقصان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرتگال کی کمپنی ٹیتھان کے ساتھ ریکوڈک اور ترکی کی کمپنی ’’کار کے رینٹل پاور‘‘ کے ساتھ معاہدے منسوخ کیے گئے، پھر عالمی عدالتوں سے ہمارے خلاف فیصلے آئے اور بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ ہمارے ہاں کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم نہیں ہوا کہ اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض ممالک کی طرح آئینی امور کو طے کرنے کے لیے بھی آئینی عدالتیں الگ ہونی چاہییں اور اسی طرح عالمی معاہدات کا جائزہ لینے اور ان کے ٹرائل کی عدالتیں الگ ہونی چاہییں، ان عدالتوں میں ان شعبوں کے بے داغ کردار کے حامل عالمی شہرت یافتہ ماہرین کو جج بنایا جائے اور ان کا دورانیہ آئین میں طے ہو تاکہ انہیں بلیک میل نہ کیا جاسکے۔
حال ہی میں سندھ حکومت نے کہا ہے کہ پاکستان اسٹیل ہمارے حوالے کی جائے، ہم چلائیں گے، کیونکہ جس پارٹی کو بھی یہ فروخت کی جائے گی، اسے تمام مالی بار سے آزاد کر کے دیا جائے گا، یعنی دو سو ارب کے قرضے معاف کردیے جائیں گے، ملازمین کے گولڈن ہینڈ شیک پر تقریباً دس ارب خرچ ہوں گے اور خریدار ادارے کو زیرو میٹر سے چلا ئے گا، نیز حکومتِ سندھ نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان اسٹیل کی سترہ ہزار ایکڑ زمین کی مالیت کھربوں روپے ہے اور وہ ہماری ملکیت ہے، یعنی خریدار کمپنی اسٹیل مل چلانے کے بجائے اس زمین پر انڈسٹریل زون یا رہائشی اسکیمیں بناکر کھربوں روپے کماکر نکل جائے گی۔ اس سے قطعِ نظر کہ صوبہ سندھ کی حکومت کے پاس پاکستان اسٹیل چلانے کی کوئی مہارت نہیں ہے اور اس کا اپنا حکومت چلانے کا ریکارڈ بھی کوئی شفاف نہیں ہے، یہی لوٹ مار یہاں بھی ہوگی۔ لیکن نجکاری کسی بھی نوعیت کی ہو، اس میں پاکستان اسٹیل چلانا شرطِ لازم ہو اور زمین کو فروخت کر کے مال بنانے کی مکمل قانونی ممانعت ہو، ورنہ یہاں بے مثال لوٹ مار ہوگی اور آخر میں قوم کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
یہی صورتِ حال پی آئی اے کی ہے، ہمارے ہاں صاحبِ منصب اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا اور وہ فرض کرلیتا ہے کہ اسے معاذ اللہ! خدائی اختیارات مل گئے ہیں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو اچانک خیال آیا کہ پی آئی اے کے جہازوں پر مارخور کا ٹریڈ مارک مٹاکر حسبِ سابق پاکستانی پرچم بنایا جائے اور اس فرمان پر فوری عمل کیا جائے، پس کردیا گیا، کسی نے نہ پوچھا کہ اس پر کتنا خرچہ آیا اور جج صاحب کو کس نے اختیار دیا کہ ایک قومی ادارے کو جو پہلے ہی غیر معمولی قرضوں تلے دبا ہوا ہے، اُسے اور تباہ وبرباد کر دے۔ مانا کہ قومی پرچم کے ٹریڈ مارک کو بدلنا غلطی تھی، لیکن کیا دنیا بھر کی کمرشل ائر لائنوں کا ٹریڈ مارک اُن کا قومی پرچم ہوتا ہے۔
ہم نے پہلے بھی انہی صفحات پر ’’ہمارے بین الاقوامی معاہدات‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا، جس میں ان امور کی طرف توجہ دلائی تھی۔ کئی سال پہلے ماہرِ قانونِ بین الاقوام احمر بلال صوفی نے ہمیں ایک بریفنگ دی تھی کہ ہم پر تقریباً تیرہ ہزار بین الاقوامی قوانین اور دس ہزار ملکی قوانین حاکم ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا: عالمی سطح پر جب بین الاقوامی امور پر قانون سازی ہوتی ہے، اس پر مہینوں اور برسوں لگ جاتے ہیں اور تمام ممالک کے قانونِ بین الاقوام کے ماہرین نہایت عرق ریزی سے ایک ایک لفظ، ایک ایک جملے اور ایک ایک پیراگراف کا جائزہ لیتے ہیں کہ کل یہ ہمارے گلے کا پھندا نہ بن جائے، جبکہ ہماری نمائندگی کرنے والے یا تو ہوٹلوں میں آرام فرما ہوتے ہیں یا مارکیٹنگ کر رہے ہوتے ہیں۔
آئے دن ہم احتجاج کرتے رہتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انڈیا ڈیم پہ ڈیم بنارہا ہے اور ہمارے ملک کی زمینوں کو بنجر بنانے کی تدبیریں کر رہا ہے، لیکن ہم کسی بین الاقوامی عدالت یا فورم پر کامیابی کے ساتھ اس کے اقدامات کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیونکہ معاہدے کے وقت ہم نے تمام شرائط کا عرق ریزی سے جائزہ نہیں لیا تھا، مستقبل کے امکانات سے آنکھیں بند کرلی تھیں اور یہ نہیں سوچا تھا کہ ہم اپنے مستقبل کے قومی مفادات کا تحفظ کیسے کریں اور اس پر قانونی بندشیں کس طرح عائد کریں۔ یہ بات مسلّم ہے کہ طاقتور جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے، لیکن جو ہم کرسکتے ہیں، وہ تو ہمیں بروقت کرنا چاہیے تھا، بعد میں شور وغوغا، آہ وزاری اور فریادیں کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
گزشہ کئی برسوں سے ہماری حکومتیں اپنے قومی اثاثوں کو گروی رکھ کر ملکی وبین الاقوامی قرضے حاصل کر رہی ہیں، صکوک جاری کر رہی ہیں، ان چیزوں کا بھی گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ حکومت قومی اثاثوں کو کس حد تک گروی رکھ سکتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ اور اس کی قائمہ کمیٹیاں نہ فعال ہیں اور نہ اُن میں سنجیدگی سے کام ہوتا ہے۔ ایک بار واشنگٹن کے دورے میں ہم کیپیٹل ہِل گئے، تو پتا چلا کہ کانگریس کی مختلف کمیٹیوں میں جو کانگریس کے اراکین رکن ہوتے ہیں، اُن کے باقاعدہ دفاتر ہوتے ہیں، اُنہیں مشرقِ وُسطیٰ، مشرقِ بعید، یورپ، لاطینی امریکا، افریقا، حتیٰ کہ دنیا کے تمام خطوں کی بابت ماہرین کی خدمات حاصل ہوتی ہیں جو اُن کے لیے اجلاس سے پہلے ورکنگ پیپر تیار کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بال کی کھال اتارتے ہیں، ہر معاملے کی تہہ تک جاتے ہیں اور اپنے قومی اور ملکی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی بجٹ اجلاس جاری ہیں، لیکن کسی سطح پر اپوزیشن کی کوئی شیڈو کیبنٹ نہیں ہے، نہ پالیسیوں پر ماہرانہ تنقید ہوتی ہے، نہ متبادل تجاویز پیش کی جاتی ہیں، بس ایک دوسرے کی توہین، تذلیل اور تحقیر کرکے لطف حاصل کیا جاتا ہے اور اپنے قائدین سے داد وتحسین لی جاتی ہے، اصل مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا، کیونکہ نہ اخبارات انہیں رپورٹ کرتے ہیں، نہ میڈیا میں جگہ ملتی ہے اور نہ قوم کا مزاج سنجیدہ باتیں سننے کا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر جو مباحثے ہوتے ہیں، وہ بھی بازاری سطح کے ہوتے ہیں، جیسے چوراہے پر کوئی چوپال سجی ہو، وہی رہنما جو آن کیمرہ ایک دوسرے کی دھجیاں اڑاتے ہیں، کیمرہ آف ہونے کے بعد آپس میں گپ شپ کرتے ہیں، یعنی وہ خود بھی ان باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ پس لازم ہے کہ ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن بنے جو پرائیویٹائزیشن اور عالمی معاہدات کے لیے اصول وضع کرے، حکومتِ وقت کوئی بھی ہو، اُن کی پابندی سب پر لازم ہو اور سب اس کے اسٹیک ہولڈر بنیں۔ ہماری مجالسِ قائمہ میں مختلف شعبوں کے ماہرین کو بلایا جائے اور ان کی مہارت سے استفادہ کیا جائے۔
ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ کے الیکٹرک نہ عوام کے احتجاج کو کوئی اہمیت دے رہی ہے، نہ ہماری حکومت کو جوابدہ ہے اور نہ ہماری عدالتوں کو، آخر اتنی خود سری کا سبب سوائے اس کے کیا ہے کہ ابراج کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت قومی مفادات کا پاس نہیں رکھا گیا، نہ ابراج کمپنی باہر سے زرِ مبادلہ لائی، بلکہ پرانی مشینری پر صکوک جاری کر کے قومی بینکوں سے اربوں کے حساب سے پیسے لیے اور نفع کماکر باہر بھیجتی رہی، وقت آگیا ہے کہ ان معاملات کے جائزے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی جامع کمیشن بنایا جائے۔