پانچ جولائی کی کہانی

608

پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پانچ جولائی ۱۹۷۷ء کو ختم کردی گئی اور بعد ازاں انہیں قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی دے دی گئی آج چار عشرے بیت گئے ہیں لیکن ملکی سیاست میں تو موجود ہیں‘ مگر جذبہ کسی اور کے کام آرہا ہے‘ ان کی توانائی ان دنوں تحریک انصاف کے کام آرہی ہے پارٹی کے کارکن سمجھتے ہیں کہ بھٹو کی پارٹی آصف علی زرداری نے تباہ کردی ہے‘ یہ کارکنوں کی سوچ ہے مگر پارٹی کی لیڈر شپ کی بہت بڑی تعداد آج بھی آصف علی زرداری کی قیادت میں پارٹی میں موجود ہے۔ بھٹو جب زندہ تھے اور حکومت میں تھے تب آصف علی زرداری کے والد محترم حاکم علی زرداری بھی پیپلزپارٹی میں تھے‘ اختلافات ہوئے تو یہ نیپ میں چلے گئے‘ بھٹو حکومت ختم ہوگئی تو نیپ کے گرفتار رہنماء رہا ہوئے یوں ایک لحاظ سے جنرل ضیاء الحق حاکم علی زرداری‘ آصف علی زرداری کے محسن بنے‘ اگر یہی بات آگے بڑھائی جائے تو ضیاء الحق حاکم علی زرداری کے پوتے بلاول زرداری کے بھی کسی حد تک محسن سمجھے جاسکتے ہیں لیکن بلاول تو ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ یہ ایک معما ہے جسے حل ہو کر ہی رہنا ہے کہ بلاول اگر ددھیال کی جانب دیکھیں تو ضیاء الحق کا احسان نہیں فراموش کر سکتے اگر ننھیال کی جانب سے دیکھیں تو ضیاء الحق کو بھٹو کی پھانسی کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کو اس مخمصے سے باہر نکلنا ہوگا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک المیہ ہے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا بیان ریکارڈ پر ہے ان پر فیصلہ دینے کے لیے دبائو تھا‘ جسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد جسٹس آصف سعید کھوسہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ریٹائرڈ ہوئے ہیں‘ عدالتیں کتنا دبائو لیتی ہیں‘ ہمیں معلوم نہیں ہے‘ جسٹس کھوسہ ضرور ہمیں بتائیں کہ حقائق کیا ہیں! ہم تو تسلیم کرتے ہیںکہ عدالتیں آزاد ہیں اور انصاف فراہم کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور میں حکومت نے بھٹو کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا لیکن یہ مقدمہ حکومت کے اس وقت کے وزیر قانون کی چالاکیوں اور غیر سنجیدہ رویے اور کھوکلے پن کی نذر ہوگیا۔
بھٹو صاحب نے پانچ چھ جرنیلوں کو نظر انداز کرکے ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا تھا‘ جنرل ٹکا خان نے اس وقت جنرل اکبر خان کی سفارش کی تھی مگر بھٹو نے فیصلہ جنرل ضیاء الحق کا کیا‘ اب ضیاء الحق زندہ ہیں‘ نہ ٹکا خان‘ اور نہ بھٹو‘ مگر سوالات زندہ ہیں، ٹکا خان نے جس جرنیل کی سفارش کی اُسے کیوں نہ بنایا گیا‘ خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق ایک مذہبی قسم کا شخص ہے اور فوج کا سربراہ ہونے کے بعد وہ خود میں مشغول رہے گا اور حکومت کے لیے سیاسی معاملات میں کوئی ہلچل پیدا نہ کرے گا۔ کرنل رفیع الدین کی کتاب میں یہ حوالے بھی موجود ہیں بھٹو کی پھانسی کے کافی عرصہ کے بعد ٹکا خان نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنانے کی مخالفت کی تھی کرنل رفیع لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے اسی
ملاقات کے دوران مجھے یہ بھی بتایا کہ جنرل عبدالمجید ملک بھی چیف آ ف آرمی اسٹاف کے عہدے کے لیے ایک موزوں شخص تھے جنرل عبدالمجید ایک روشن دماغ‘ عقل مند اور قابل جنرل تھے لیکن وہ بدقسمتی سے اس عہدے کو نہ پا سکے حالانکہ بھٹو نے کافی چاہا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا‘ جنرل مجید ملک کے بارے میں قبلہ سعود ساحر کی گواہی ہے کہ ضیاء الحق آرمی چیف بنے تو جنرل مجید ملک نے وردی اتار دی تھی اور سپر سیڈ ہونے پر دفتر سے سیدھے گھر چلے گئے۔ جنرل عبدالمجید ملک کے ایس ایس جی (Special Service Group) میں رہے‘ جہاں ان کی خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں بھی وہ شریک رہے بعد میں1971ء کی جنگ میں ان کے کارہائے نمایاں انجام دیے‘ ان کی بہو عائشہ رئیسانی ملک آج کل پمز اسپتال میں ترجمان ہیں۔
جنرل مجید ملک ایک شائستہ اور سمجھدار جنرل تھے وہ فوج کے ایک اچھے سربراہ ثابت ہوتے لیکن ایسا نہ ہو سکا بھٹو کو جیل میں قید کے دوران ایک دن بھی یقین نہیں آیا کہ انہیں پھانسی دے دی جائے گی ان کے وکلا‘ فیملی ممبرز اور جیل میں ملنے والے تقریباً تمام لوگوں کے ان سے اس مقدمے کے متعلق ہمیشہ یہی کہا کہ یہ صرف سیاسی کھیل تماشا ہے انہیں بیرونی ممالک کے سربراہوں اور کئی دوسری شخصیات کے جنرل ضیاء الحق اور ان کی حکومت پر اثرو رسوخ کا علم بھی تھا بھٹو صاحب کے کچھ بیرونی دوستوں نے جنرل ضیاء الحق سے ان کی معافی کا وعدہ تک بھی لے لیا تھا جو بھٹو کے علم میں بھی لایا گیا تھا مقدمہ کی اپیل کے آخری چند ماہ کے دوران حکومت بھٹو صاحب کو پھانسی دینے پر تل گئی تھی بھٹو کو مشورہ دیا گیا کہ سر جھکا لیں مگر انہوں نے سر نہیں جھکایا ان کے اس بہادرانہ فعل نے انہیں زندہ رکھا ہوا ہے جب تین اپریل1979ء کی شام بھٹو صاحب کو سرکاری طور پر یہ بتایا جا رہا تھا کہ ان کو آخری فیصلہ کے مطابق اب پھانسی دی جا رہی ہے تو بھٹو اس موت کے پیغام پر مسکرا رہے تھے اور پیغام دینے والے ایک زبردست اضطراب کی حالت میں تھے بھٹو آخر تک سمجھتے رہے کہ وہ اس کیس کے متعلق ذرہ برابر بھی فکر مند نہیں ہیں ہر بار یہی جواب دیا کہ چونکہ یہ بناوٹی کیس ہے اس لیے وہ کیوں فکر مند ہوں؟ بھٹو بہت بڑے سیاستدان‘ مدّبر اور معاملہ فہم تھے اور انہیں اپنی اس خداد صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اس حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر یہ نہ ہوسکا کئی بار صدقِ دل سے ان سے عرض کیا گیا کہ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے اس حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے وہ قائل نہ ہوئے یہی جواب دیا کہ اس مقدمے میں وہ بے قصور ہیں اور وہ کیوں اپنی عزت نفس کا سودا کریں ایک نہایت سینئر ماہر قانون قوسین فیصل مفتی کی رائے ہے اور آج کی اس کہانی میں نواز شریف سمیت ہر سیاست دان کے لیے کے لیے بھی ایک پیغام ہے‘ اگر وہ اپنے خلاف قائم کسی بھی مقدمے کو مقدمہ سمجھ کر ہی لڑیں تو ہی فائدہ ہوتا ہے اپنے حق میں اگر صفائی کے گواہ ہیں تو ہر صورت اور ہر قیمت پر عدالت میں پیش کیا جائے اور مقدمے سے جان چھڑائیں کہ نواز شریف کو بھی ہر صورت اور ہر قیمت پر اپنے حق میں صفائی کے گواہ پیش کرنے چاہیے تھے۔