عوام ہوشیار ہوجائیں وزیر اعظم عمران خان نے سوئی گیس کے معاملے میں بھی چھان بین کا تہیہ کرلیا ہے گویا اب عوام کو گیس کی عدم فراہمی کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ ٹی وی چینل پر عمران خان کے طرف دار فخریہ انداز میں قوم کو باور کرانے کی سعی نامشکو ر کرتے ہیں کہ جب سے پاکستان معروض وجود میں آیا ہے کسی حکمران کو بدعنوانی اور کرپشن کی تحقیقات کرانے اور عوام کو ان کے مکروہ چہرے دکھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ واقعی ڈھٹائی کا یہ عالم دیکھ کر شرم بھی ندامت سے سر جھکا لیتی ہے۔ مگر حکومت کے طرف داروںکو شرم بالکل نہیں آتی۔ وزیر اعظم عمران خان نے چینی کی رپورٹ طلب کی تو چینی کی قیمت 55روپے سے بڑھ کر 80 تا 90روپے ہوگئی۔ آٹے کے معاملات کی رپورٹ طلب کی گئی تو 20کلو آٹے کا تھیلا 800روپے کے بجائے 1050 روپے کا ملنے لگا مگر اس لوٹ مار کے ذمے دار عمران خان سے پہلو سے پہلو لگائے بیٹھے ہیں۔ چور چور کا شور مچانے والا چور، شور مچانے والوں کی بھیڑ میں شامل ہوجائے تو بھیڑ کا حصہ بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت بھی پکڑے جانے سے خوف سے چور چور کا شور مچا رہی ہے۔ عمران خان کیا برسر اقتدار آئے ہر چیز ناپید ہوگئی ہے اس صورت حال میں یہ لطیفہ حقیقت کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک عورت شوہر کے مرنے پر بین کررہی تھی کہ منے کے ابا اب ہم کیا کریں گے تم ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔ پاس بیٹھے منے نے پوچھا ابا کہاں گئے ہیں تو ماں نے کہا کہ جہاں بجلی ہے، نہ گیس ہے، نہ آٹا ہے، نہ پانی ہے۔ منے نے جواب دیا اچھا اچھا ابا پاکستان گیا ہے ماں تم مت رو بھوک پیاس سے تنگ آ کر خود ہی واپس چلا آئے گا۔ یہ بھارتی لطیفہ ہے جسے سن کر رونا آتا ہے، اگر کوئی ہنس پڑے تو ہنسی کھسیانی بلی سے مختلف نہ ہوگی۔ پہلے ذہنوں میں یہ سوال اُبھرتا تھا کہ وزیرا عظم عمران خان کیا کررہے ہیں اب لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھانے والے کیا سوچ رہے ہیں…؟ بہر حال عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے والے انہیں کس جرم کی سزا دے رہے ہیں۔
عمران خان کا اقتدار عوام کے لیے ایک ایسا عذاب بن چکا ہے جس سے جان چھڑانے والا کوئی بھی نہیں۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت سے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ کیونکہ معیشت اس حد تک تباہ ہوچکی ہے کہ اقتدار بے معنی ہوگیا ہے۔ شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ بہت خوش ہیں عوام کو ان کی یاد آنے لگی ہے، صدر ایوب خان کے جانے کے بعد انہیں احساس ہوگیا تھا کہ ایوب مخالف سیاستدانون کا ساتھ دے کر انہوں نے اپنی قبر آپ کھودی ہے اور اب یہی قبر ان کا مقدر ہے تو کیا عمران خان بھی پاکستان کا مقدر بن چکے ہیں۔ کیونکہ ان کے چیلے چاٹے ہر دم یہی ورد کرتے رہتے ہیں کہ 72سال کے بعد قوم کو ایک ایسا لیڈر نصیب ہوا ہے جو پاکستان کو اقوام عالم میں ایک معتبر اور باوقار مقام دلائے گا۔ وزیرا عظم عمران خان کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ان کے سوا کوئی حکمرانی کا اہل ہی نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ عمران خان کے منہ میں کون ڈال رہا ہے۔ وہ کون سی قوت ہے جس نے عمران خان کو یہ باور کرادیا ہے کہ پاکستانی مائوں کی کوکھ بنجر ہوگئی ہے اور اب وہ لیڈر پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
یہ تو ماننا پڑے گا کہ عمران خان کرکٹ کے نام ورکھلاڑی ہونے کے ناتے لیڈ تو دے سکتے ہیں مگر لیڈ دینے والا لیڈر نہیں ہوتا لیڈر پیدا نہیں کیے جاتے لیڈر پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے اقتدار کے نصف عرصے میں عمران خان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کرکٹ کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں حکمرانی ان کے بس کی بات نہیں۔ جو حکمران مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اس کا سر کسی کے بھی سامنے جھک سکتا ہے۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ پیڑول کے نرخ کے معاملے نے اس حقیقت کو اچھی طرح عیاں کردیا ہے یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم پٹرول کی قیمت پر کنٹرول نہ کر سکا جب پیڑول سستا تھا تو ناپید کردیا گیا اور جب پٹرول کی قیمت مافیا کی مرضی کے مطابق کی گئی تو پٹرول کے کنویں ابلنے لگے سوال یہ ہے کہ جو حکمران اتنا بے بس اور مجبور ہو جو عوام کو سہولت فراہم کرنے کے اختیارات سے بھی محروم ہو اسے وزیر اعظم رہنے کا کہا جواز ہے…؟