نکاح سلف صالحین کی نظر میں

193

سیدنا عبداللہ بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبدالل بن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے شادی کی؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ انہوں نے کہا: ’’شادی کرو، کیونکہ اس امت کے سب سے بہتر فرد بیویوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ تھے، یعنی نبی کریمؐ نے بہت شادیاں کیں‘‘۔ (کتاب النکاح، بخاری)
پھر یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ نکاح تمام انبیا ورسلؑ کی سنت رہی ہے اور تقریباً تمام رسولوں نے شادیاں کی ہیں اور بال بچوں والی زندگی گزاری ہے، ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ: ’’اور یقینا ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں اور بچے بھی دیے‘‘۔ (الرعد :38)
صحابہ کرامؓ، تابعین اور سلف صالحین نے نکاح کا نہ صرف معمول رکھا، بلکہ اس کی برابر ترغیب دلاتے رہے۔ احیاء العلوم میں امام غزالیؒ نے نقل فرمایا ہے:
سیدنا عمرؓ فرماتے تھے: ’’نکاح سے مانع دو چیزیں ہے، ایک عاجزی، دوسرا فسق وفجور‘‘۔ (منصف ابن ابی شیبہ)
سیدنا ابن مسعودؓ فرماتے تھے: ’’اگر میری عمر کے کل دس دن ہی رہ جائیں تو بھی میری خواہش ہوگی کہ میں نکاح کرلوں، تاکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ’’بلا زوجہ‘‘ ہونے کی حالت میں پیش نہ ہوں‘‘۔ (فی مجمع الزاوئد)
سیدنا معاذ بن جبلؓ کی دو بیویاں طاعون کی وبا میں انتقال فرما گئیں، آپ خود بھی طاعون میں مبتلا تھے، پھر بھی آپ نے لوگوں سے کہا ’’میری شای کرادو، کیوں کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ’’ بے بیوی والا‘‘ ہونے کی صورت میں ملاقات کروں‘‘۔ (مصنف ابن ابی شبیہ)
سیدنا عمرؓ بہت نکاح کرنے والے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’میں صرف اولاد کے حصول کے لیے نکاح کرتا ہوں‘‘۔
بایزید بسطامیؒ نے فرمایا کہ ’’میرا مقام امام احمد بن حنبلؒ سے اونچا تھا، لیکن وہ مجھ سے آگے بڑھ گئے، اس لیے کہ وہ شادی شدہ تھے اور میں غیر شادی شدہ‘‘۔ (توضیحات، شرح مشکوٰۃ)
نبی اکرمؐ سے ایک شخص نے فقر کا شکوہ کیا تو آپؐ نے اس کو نکاح کرنے کا حکم فرمایا۔ (بیان القرآن)
ماحصل یہ ہے کہ فوری فقر اور تنگ دستی کا خود رحمت عالم نے بالکل خیال نہیں فرمایا اور نہ اس کی وجہ سے کسی کو نکاح کی اجازت دینے سے انکار فرمایا، کئی واقعات کتب احادیث میں مذکور ہیں کہ آپؐ نے فوری فقر میں صحابہ کرامؓ کو شادی کا حکم دیا، کسی صحابی کو تعلیم قرآن پر شادی کرادی جس کے پاس اس کے سوا کوئی دولت نہ تھی، کوئی خدمت نبوی میں آیا اور شادی کی خواہش ظاہر کی اور اس کے پاس ازار (لنگی) کے سوا کچھ نہ تھا، آپ نے اسے شادی کی اجازت دے دی، کسی نے اپنی بیوی کو صرف جوتی دی اور آپ نے شادی کی اجازت مرحمت فرما دی۔
ان حدیثوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عہد نبوی میں خود ذات برکت سراپا رحمت عالمؐ کے سامنے اس طرح کے واقعات پیش آئے، جو بتاتے ہیں کہ تنگ دستی اور فقر وفاقہ کے اس عالم میں شادی کی اور کرائی اور اللہ تعالیٰ نے خیر وبرکت دی اور رزق کا سامان فرمایا۔