ایک دفعہ ایک فقیر کی بیٹی کی قسمت جاگی۔ اونچے گھر سے رشتہ آیا۔ لڑکی کے رشتے کے لیے اونچے گھر کے لوگ اس کے گھر گئے تو گھر بڑا اور کافی عالی شان تھا۔ لڑکے کے والد نے گھر کے بڑے سے پوچھا آپ کا گھر تو بہت اچھا ہے کیا یہ آپ کا ذاتی ہے؟ جس پر گھر کے بڑے نے جواب دیا ’’رجسٹری تو میرے نام پر ہے لیکن اس میں پورے شہر نے روپیہ روپیہ ڈالا ہوا ہے‘‘۔ کچھ یہی حال تحریک انصاف کا ہے۔ جس وزیر مشیر اور رکن قومی اسمبلی کا کھوج لگائو وہ کسی نہ کسی پارٹی کا روپیہ ہی ہوتا ہے۔ اگست 2018ء میں عمران خان قائد ایوان تو منتخب ہو گئے لیکن اس کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑے۔ ہر وہ فرد اور جماعت جس پر عمران خان تبرا بھیج چکے تھے اور عام حالات میں ان سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے۔ اب رابطے اور تعلق جوڑنے کے لیے سر کے بل تیار تھے۔ یہ قومی اسمبلی کا اس وقت کا منظر ہے پی ٹی آئی کے رہنما بے چین ہیں ایم کیو ایم سے یاد دھیانیاں اور سرگوشیاں جاری ہیں۔ شاہ محمود قریشی بے قرار انداز میں ٹہل رہے ہیں، وجہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل ہیں۔ مسلم لیگ کے ایاز صادق اختر مینگل کے پاس کھڑے ہیں، وجہ اضطراب یہی ہے عین وقت پر ارادہ تبدیل نہ کرلیں۔ خدا خدا کرکے اختر مینگل عمران خان والی لابی میں آئے ہیں تو شاہ محمود قریشی بھی سُکھ کا سانس لے کر اپنی لابی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اراکین اسمبلی کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے دونوں امیدواروں کے لیے بنائی گئی لابیوں میں جانے کا کہہ چکے ہیں۔ اجلاس شروع ہوتا ہے تو کراچی سے منتخب ہونے والے عامر لیاقت عمران خان کے قدموں میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ لیکن اب تک انہیں اس ساری مشق کا صلہ نہیں ملا ہے۔ مستقبل کی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔
بلوچستان کے قومی اسمبلی کے اراکین کے لیے جتنی آنیاں جانیاں تحریک انصاف کی طرف سے اُس وقت کی جارہی تھیں اس سے آدھی بھی اگر بلوچستان کے عوام کے حقوق کے لیے کی جاتیں تو آج سردار مینگل تحریک انصاف سے علٰیحدہ ہونے کا اعلان نہ کرتے۔ سردار مینگل نے اگست 2018ء میں ایک چھ نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا تھا، ان نکات میں لاپتا افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کے لیے چھ فی صد کوٹے پر عملدرآمد، افغان مہاجرین کی فوری واپسی اور صوبے میں پانی کا بحران کے حل کے لیے ڈیم کا قیام شامل تھا۔ لیکن سردار مینگل بلوچوں کے لیے حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں۔ سردار صاحب اپنی بجٹ تقریر میں بہت سی کھری کھری باتیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بجٹ وزرا دوست ہوسکتا ہے، بیورو کریسی دوست ہوسکتا ہے، عسکریت دوست ہوسکتا ہے لیکن عوام دوست بجٹ آج تک نہ اس ملک میں آیا اور نہ ہی کبھی آنے کا امکان ہے‘‘۔ ’’یہ اسی وقت آسکتا ہے جب عوام کے حقیقی نمائندے آزاد اور غیر جانبدار انتخابات کے تحت منتخب ہو کر آئیں‘‘۔ اس بات کے درست ہونے میں کوئی شک ہی نہیں کہ ملک کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ آزاد اور منصفانہ الیکشن نہیں ہونے دیے جاتے۔ فنڈنگ سے لے کر بیلٹ بکسوں کو بھرنے اور ٹھپے پہ ٹھپا لگانے تک ہر چیز کو روا رکھا جاتا ہے۔ پھر حکومت میں آنے والے سارے مسائل کی جڑ پچھلی حکومتوں کو ٹھیراتے ہیں۔ ہر حکومت میں یہی کہا جاتا ہے کہ خالی خزانہ اور بدحال معیشت ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ عوام کو سبز باغ دکھا کر آنے والی ہر حکومت عوام کے لیے مہنگائی اور بدحالی کے گڑھے ہی تیار کرتی ہے۔ تحریک انصاف کی خاص بات یہ ہے کہ اپنی ہر وعدہ خلافی اور جھوٹ کو یوٹرن کہہ کر صاف مکر جاتی ہے۔ لیکن بلوچستان کا معاملہ سنگین ہے یہ رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ پچاس لاکھ کی آبادی میں پچاس سے کچھ اوپر قبیلے اور سردار ہیں۔ اکثریت حکومت پاکستان کے ساتھ ہے لیکن تین قبیلے مری، بگٹی اور مینگل ناراض ہیں۔ یہ جن علاقوں میں ہیں ان میں معدنی دولت گیس اور تیل ہے۔ حکومت پاکستان نے گیس نکالی لیکن بلوچ عوام کو فائدہ نہیں پہنچایا۔ سوئی کے قریب ہی کے علاقوں میں گیس نہیں دی گئی، یہ ناانصافی ہے۔ حکومت کو بلوچ عوام کو فائدہ پہنچانا چاہیے، انہیں تعلیم اور روزگار دیں تو بلوچ عوام پاکستان کے خلاف جانے کا نہ سوچیں کیوں کہ بلوچ نوجوانوں کو پانچ دس ہزار دے کر بلوچستان لبریشن آرمی میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ ان سے دہشت گردانہ کارروائیاں کروائی جاتی ہیں اور پھر استعمال کے بعد انہیں ٹشو پیپر کی طرح ضائع کردیا جاتا ہے۔ آج بھی کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ میں اسی کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے ذمے داری قبول کی ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اپنے مفاد کے لیے ان علٰیحدگی پسند گروہوں کو استعمال کرتی ہے۔ یہ انتہائی درد ناک سچائی ہے۔ ایم کیو ایم ہو، جئے سندھ ہو یا بلوچستان لبریشن فرنٹ سب ہی کو غلط اور نقصان دہ طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔ زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ناسور بنادیا گیا۔ خدا کے لیے اب ارباب اقتدار کو آنکھیں کھول لینی چاہییں۔ دوسری طرف بلوچ نوجوان اپنے دماغ سے آزادانہ سوچیں، سردار آپ کے بل پر سرداری کررہے ہیں، حکومت سے کروڑوں روپے حاصل کرتے ہیں، آخر وہ کیوں آپ کے لیے تعلیمی ادارے، اسپتال اور فیکٹریاں نہیں لگاتے۔ آپ اگر پاکستان سے الگ ہو بھی گئے تو کوئی اور ملک آپ پر قابض ہوجائے گا اور آپ کو غلام بنالے گا۔ پاکستان آپ کا ملک ہے، آپ تعلیم حاصل کریں اور آگے بڑھ کر پاکستان کو سنبھالیں، اپنی نسل کو ترقی کی راہ پر ڈالیں، یہ آپ کا ملک ہے، آج بھی آپ پورے ملک میں جہاں چاہیں جاتے ہیں سفر کرتے ہیں۔ آپ کے سردار تو لازمی شہروں میں اپنی عالی شان کوٹھیاں رکھتے ہیں جہاں وہ پورے کروفر کے ساتھ رہتے ہیں، آپ بھی آگے بڑھیں، آپ محنتی بھی ہیں اور بہادر اور غیرت مند بھی۔ بوڑھے بلوچ کی بیٹے کو کی گئی نصیحت یاد رکھیں جو اقبال سناتے ہیں۔
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہان تک و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دار
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
محروم رہا دولت دریا سے وہ غواض
کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا