مافیا کو فری ہینڈ مل گیا، لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے
افغانستان سے تجارت ممکن تو بھارت سے کیوں نہیں
(11 تاجر رہنما اوراسلام آباد چیمبر کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت پر پابندی سے مافیا کو فری ہینڈ مل گیا ہے اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کئے جا رہے ہیں جس نے عوام کو بدحال کر دیا ہے۔تجارت کھلی ہوتی تو مافیا کے عزائم کو فوری درامدات کے زریعے ناکام بنایا جا سکتا تھا مگر اب یہ آپشن ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت اپنے موقف میں لچک لائے بغیرپولٹری، دودھ، سبزیوں پھلوں دالوں اور دیگر اشیائے خورد و نوش کی تجارت کھولنے پر غور کرے۔شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ تقریباً ایک سال سے تجارت بند ہے
جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مافیا نے عوام کی چمڑی اتار دی ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک سیاست اور معیشت کو الگ رکھتے ہوئے اختلافات اور دشمنی کے باجود تجارت کر رہے ہیں۔روس اور امریکہ بھی تقریباً 29 ارب ڈالر سالانہ کی تجارت کر رہے ہیں۔چین اور امریکہ کی تجارت 700 ارب ڈالر سالانہ اور چین اور بھارت کی سالانہ تجارت86 ارب دالر سے زیادہ ہے۔ چین تائیوان کا وجود ہی نہیں مانتا اور اسے اپنا حصہ قرار دیتا ہے مگر دونوں ملکوں کی سالانہ تجارت اور سرمایہ کاری ڈھائی سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ چینی سرمایہ کار تائیوان میں بلا خوف و خطر سرمایہ کاری کرتے ہیں اورتائیوان کے سرمایہ کار چین میں کارخانے لگاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ افغانستان کی حکومت پاکستان کی اتنی ہی مخالف ہے جتنا بھارت مگر پاکستان سالانہ دو ارب ڈالر کی برامدات کرتا ہے
اور دونوں ممالک کے مابین اربوں ڈالر کی سمگلنگ بھی جاری ہے۔اگر افغانستان سے تجارت کی جا سکتی ہے تو بھارت سے کیوں نہیں۔شاہد رشید بٹ نے کہا کہ جس سیاستدان کا میڈیا ٹرائل کر کے اسے پولٹری مافیا کا سربراہ بتایا گیا اسکے ہوتے ہوئے مرغی اور انڈوںکی قیمت مستحکم رہتی تھی۔اب وہ جیل میں ہے تو قیمت کون بڑھا رہا ہے۔اسکے دور میں جو زندہ مرغی ساڑھے تین ہزار سے پونے چار ہزار روپے من دستیاب تھی اب آٹھ ہزار روپے من بھی نہیں مل رہی ہے ۔عوام کی اکثریت نے پولٹری مصنوعات کا استعمال ہی بند کر دیا ہے جس نے لاکھوں مرغی فروشوں کو بھی بے روزگار کر دیا ہے مگر اس مافیا کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔