اور اب مائنس تھری کی گونج

362

ایسے میں ملک میں مائنس ون کی باتیں ہور رہی تھیں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد ریکارڈ درست کرنے سامنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے مائنس ون نہیں مائنس تھری ہوگا اور سسٹم کی بساط ہی لپیٹ دی جائے گی۔ انہوں نے مائنس تھری کی بات کرکے مائنس ون کی بات کرنے والی اپوزیشن کا یکارڈ درست کیا تو لگے ہاتھوں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کا ریکارڈ بھی یہ کہہ کر درست کیا کہ ہم آخری چوائس نہیں ہیں۔ چند دن قبل وزیر اعظم نے ہمارے سوا کوئی چوائس ہی نہیں کی بات کی تھی مگر دوسرے ہی دن انہوں نے اپنی اس سوچ سے رجوع کر لیا تھا۔ عین ممکن ہے عمران خان بھی وہی بات کہنا چاہ رہے ہوں جو شیخ رشید نے کی ہے کہ جمہوری سسٹم میں ہم آخری چوائس ہیں۔ شیخ رشید نے مائنس تھری کی بات کرکے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو بتادیا کہ اب اگر کوئی گیا تو وہ تحریک انصاف کی حکومت ہی نہیں ہوگی بلکہ قطار میں کھڑی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی ہوں گی۔ یوں لگتا ہے اپوزیشن جماعتیں عمران خان سے اس قدر اُکتاہٹ اور تنگی کا شکار ہیں کہ انہیں سسٹم کی بساط لپٹ جانا بھی غنیمت لگتا ہے۔ خواجہ آصف کی قومی حکومت کی بات اور بلاول زرداری کا یہ کہنا کہ عمران خان کے سوا ہر آپشن قبول ہے اسی اُکتاہٹ کا اظہار ہے۔ ماضی میں جب بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی لڑتے لڑتے تھک جاتیں تو وہ کسی تیسرے مسیحا کی آمد کا انتظار کرنے لگتیں۔ کبھی وہ ریفری کو ہاتھ سے پکڑ کر میدان میں لاکر کھیل کے خاتمے کی سیٹی بجوا دیتیں۔ کسی ایک فریق کا کام خراب کرنے والی سیٹی کی آواز دوسرے فریق کو کوئل کی کوک اور صبح کے پرندے کی چہچہاہٹ سے زیادہ بھلی لگتی کیونکہ اس میں ان کی نجات کا پہلو ہوتا تھا۔
نوے کی پوری دہائی اسی مشق میں گزر گئی یہاں تک کہ جب جنرل مشرف نے بارہ اکتوبر کو پورے سسٹم کی بساط ہی اُلٹ دی تو اس سسٹم کی دوسری حصہ دار پیپلزپارٹی نے اس اقدام کو باعث خیر وبرکت قرار دے کر لڈو بانٹے۔ گویا کہ سیاسی لوگ ایک دوسرے سے قدر تنگ آجاتے ہیں اور حبس محسوس کرتے ہیں کہ لُوکی دعائیں مانگنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ تو جمہوریت کی ماں برطانیہ والوں کا بھلا ہو جنہوں نے ماضی کے متحارب فریقوں کو میثاق جمہوریت پر آمادہ کیا۔ میثاق جمہوریت کے بعد یہ رویہ کسی حد بدلا مگر بادل نخواستہ۔ اب ایک تیسرا فریق حکمران ہے۔ جو ان دونوں قدیم اور روایتی جماعتوں کی مخالفت کے یک نکاتی ایجنڈے پر طاقت میں آیا ہے۔ اس لیے دونوں جماعتیں ایک بار نوے کی دہائی میں پہنچ چکی ہیں جہاں فریق مخالف کا کھیل خراب کرنے کے لیے انہیں ریفری کو ہاتھ سے پکڑ کر میدان میں لانا پڑ رہا ہے تاکہ سیٹی کی آواز بلند ہو اور فریقین کو پکڑ کر میدان سے باہر نکال دیا جائے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ ریفری پر منحصر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے حالات سے کچھ بھی نہیں سیکھا انہیں وہی جمہوریت گوارا ہے جس میں وہ خود کلی طور پر مالک ومختار ہوں یا کم از کم سب سے بڑے شراکت دار ہوں۔ اس کے سوا جمہوریت کی جو بھی شکل ہو اس سے انہیں آمریت سمیت کوئی بھی انتظام اچھا اور بھلا لگتا ہے۔
ملک میں جمہوریت کے پودے کے جڑ نہ پکڑنے کی بہت سی وجوہات میں اس طرز فکر کا گہرا دخل ہے۔ انا ولا غیری کا یہ رویہ کسی تیسرے فریق کے لیے گنجائش اور قبولیت پیدا کرتا ہے اور نتیجہ کسی ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرف ’’عزیز ہم وطنو السلام علیکم‘‘ کہنے کی صورت میں برآمد ہو تا ہے۔ عزیر ہم وطنوں کو وعلیکم سلام کہنے کی بھی فرصت نہیں ملتی اور فوجی حکمران ملک کا انتظام اورف باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں۔ جو فریق حالات سے تنگ وبیزار ہوتا ہے وہ ہفتہ ٔ نجات مناتا ہے اور پھر اسے سسٹم سے آئوٹ ہوجانے کے نقصانات اور آٹے دال کا بھائو معلوم ہوتا ہے تو ایک ٹرک سجانے کی تیاریوں کا شغل اپنالیا جاتا ہے۔ جس جمہوریت کو بددعائوں اور محنت ومشقت کے ساتھ رخصت کیا ہوتا ہے پوری دیانت اور عرق ریزی کے ساتھ اس کی بحالی کی تحریک شروع ہوتی ہے۔ یوں سرکس کا تماشا ہے جو بہتر سال سے اس ملک میں جاری ہے اور عوام اس کھیل کے تماش بین ہیں۔ ان کاکام تالیاں پیٹنا اور زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ آج حالات خود کو دہرا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں تنگ آمد بجنگ آمد کے اصول پر چل کر موجودہ حکومت سے خلاصی چاہتی ہیں اور اس کی قیمت وہ سسٹم سے اپنی محرومی کی شکل میں ادا کرنے کو بظاہر تیار دکھائی دیتی ہیں۔ گوکہ یہ ان کی اجتماعی سوچ بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ بہت سے لوگ اسمبلیوں اور حکومت کے لش پش سے محروم ہوجانے کے تصور سے ہی گھبرا جاتے ہیں اور ان کی دلچسپی سسٹم کے جاری رہنے میں ہوتی ہے مگر جن قوتوں کے مفادات کو جاریہ سسٹم اور حکومتی نظام سے زک پہنچ رہی ہوتی ہے ان کے لیے یہ نقصان گوار ہوتا ہے۔
مائنس تھری یعنی تین بڑی جماعتوں کا مائنس ہوجانا کوئی افسانہ بھی نہیں ایک حقیقت ہے۔ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کی حکومتیں ازمنہ وسطیٰ کا قصہ نہیں ابھی کل ہی کی بات ہے۔ ایک تسلسل کے ساتھ عوام دونوں جماعتوں کی حکومتوں کی کارکردگی دیکھ چکے ہیں۔ یہ عجب مذاق ہوگا کہ تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی یا دونوں سے بدل دیا جائے۔ عمران خان کو شاہد خاقان عباسی یا راجا پرویز اشرف سے بدل دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سسٹم ڈلیور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔ مافیاز نے اس قدر طاقت پکڑ لی ہے کہ وہ حکومت کا پہیہ آزادی سے رواں ہونے ہی نہیں دے رہے۔ ایک حکومت کے اندر درجنوں حکومتیں اور ایک ریاست کے اندر سیکڑوں ریاستیں جنم لے کر اپنے پنجے مضبوط کر چکی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری حکومت ان کے آگے بے بسی کی تصویر بنتی ہے۔ اس شورش زدگی کو ختم کیے بغیر اور ملک میں ایک سسٹم کو لائے بغیر زوال کے سفر کو بریک نہیں لگائی جا سکتی۔ اچھا تو یہ ہے کہ کوئی مائنس ہی نہ ہو جیسے تیسے معاملہ چلتا رہے وگرنہ مائنس تھری نوشتۂ دیوار ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ حکومت والے حکومت کریں گے اور سیاست دانوں کا مقدر ایک ٹرک کو آراستہ اور پیراستہ کرنا ہوگا۔