کاتا اور لے دوڑی

34

’’کاتا اور لے دوڑی‘‘ اردو ضرب المثل ہے، یہ عُجلت پسندی اور جلد بازی پر بولی جاتی ہے کہ مثلاً: رسّی کاتی اور یہ سوچے بغیر کہ وہ کتنی مضبوط ہے، اس سے بدمست ہاتھی کو باندھنے چل پڑی۔ آج کل مذہبی شعبہ ہو یا کوئی اور، گوگل پرسرچ کیا، کوئی عبارت کوئی حوالہ ہاتھ آگیا اور اس کو دیکھ کر محققِ دوراں بن گئے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اگر گوگل اور انٹرنیٹ سے انسان بڑا عالم بن سکتا ہے، تو یہ ٹیکنالوجی تو مغرب سے آئی ہے، وہاں یونیورسٹیاں بند ہوجانی چاہییں اور سب لوگ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جائیں اور ہر شعبے کے ماہر بن جائیں، بہادر شاہ ظفر نے کہا ہے:
اگر ہوسکتا عالَم میں حصولِ علم بے محنت
تو پھر ساری کتابیں ایک جاہل دھو کے پی جاتا
الغرض یہ ایک آفت ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔ آج کل ہر شعبے اور پھر اس کے ذیلی شعبوں میں تخصُّصات یعنی اسپیشلائزیشن کا دور ہے، انسان کے طبعی وجود سے متعلق تخصُّصات کے درجنوں شعبے ہیں اور ابھی ان میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ فقہ اور عملی جہاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور یہ تو نہیں ہوسکتا کہ سارے کے سارے مومن (اللہ کی راہ میں) نکل کھڑے ہوں، ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت روانہ ہوتی تاکہ وہ لوگ دین میں مہارت حاصل کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف لوٹتے تو اُن کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراتے تاکہ وہ گناہوں سے بچے رہتے، (التوبہ: 122)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض شعبوں کے لیے مُتَخَصِّصِیْن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ معاشرے کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ ایک گروہ کو فکرِ معاش سے آزاد کر کے اس مہارت کو حاصل کرنے کے لیے وقف کرے۔ مفسرین کرام نے یہاں دو شعبے مراد لیے ہیں: ایک جہاد کا شعبہ اور دوسرا ’’تَفَقُّہ فِی الدِّیْن‘‘ کا شعبہ، امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
’’فقہ‘‘ احکامِ شرعیہ کے علم کا نام ہے، عربی میں فقیہ اُسے کہتے ہیں جو اس علم کو حاصل کرے اور اس کا مُتَخصِّص بن جائے، (المفردات)‘‘۔ گزشتہ ربع صدی سے دینی شعبے کے القاب اتنے وافر انداز میں استعمال کیے گئے ہیں اور ہر ایرے غیرے پر ان کا اطلاق اس طرح کیا گیا کہ اب ان کی معنویت اور جلالت مفقود ہوکر رہ گئی ہے، بس صرف الفاظ کا ہیر پھیر رہ گیا ہے،رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے، اُسے دین کی مہارت (فقاہت) سے سرفراز فرماتا ہے، میں (انعاماتِ الٰہیہ کو) تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے دین پر قائم رہے گی اور کسی کی مخالفت سے اس کو ضرر نہیں ہوگا حتیٰ کہ اللہ کا حکم (یعنی قیامت) آجائے، (بخاری)‘‘۔
فقیہ کے معیار پر امام احمد رضا نے نہایت دقیق علمی بحث کی ہے، اس کا مفہومی خلاصہ یہ ہے:
’’فقیہ کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی مسئلے کی تحقیق کرتے ہوئے فقہی قواعد وضوابط کو مدِ نظر رکھے، نیز جس عبارت یا نص سے استدلال کر رہا ہے، اس میں گفتگو کے اسلوب کو بھی پیشِ نظر رکھے کہ اندازِ گفتگو سے مفہوم میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اسی طرح کسی مسئلے کی بنیاد کس چیز پر ہے، اس پر خوب غورو فکر کرے اور شریعت نے جس مقام پر آسانی کو پسند فرمایا ہے یا احتیاط کے پہلو کو ترجیح دی ہے، اس کو بھی مدِنظر رکھے اور افراط وتفریط سے بچے۔ اسی طرح مجتہدین کے اقوال نقل کرتے وقت اُن کے حفظِ مراتب کا خیال رکھے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مسئلہ فقہِ حنفی کی ظاہر الروایت پر مبنی ہے یا نادر الروایت پر۔ جو روایات امام محمد کی چھ کتابوں (مبسوط،جامع صغیر، جامع کبیر، سیرِ صغیر، سیرِ کبیر اور زیادات) میں ہیں، وہ ظاہر الروایت کہلاتی ہیں اور جو ان چھ کتابوں کے علاوہ روایات ہیں، خواہ وہ امام محمد کی یا امام ابو یوسف کی یا کسی اور شاگرد کی ہوں، وہ نادرالروایت کہلاتی ہیں۔ اسی طرح بعض آیات کا مفہوم سمجھنا آسان ہوتا ہے اور بعض کے سمجھنے میں غورو فکر کرنا پڑتا ہے، ایسی آیات میں تمیز کا ملکہ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ الفاظ کی دلالت اپنے معنی پر واضح ہے یا کسی اور مفہوم کا بھی احتمال ہے، تو ان آیات میں تمیز کا ملکہ بھی ضروری ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ بعض فقہاء کا قول ہے یا اکثر فقہاء کا، نیزوہ قول ایسا ہے جس پر فتویٰ دیا جاتا ہے یا نہیں دیا جاتا، اِفتاء کے الفاظ کے درجات اور نقل کرنے والوں کے مراتب کا فرق معلوم ہونا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح کسی مسئلے میں عرف کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ عام ہے یا خاص، نیز مختلف مقامات اور افراد کے تعامل کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ وہاں کے مقامی باشندوں اور حکمرانوں کے احوال کی رعایت اور فسادی لوگوں کے فساد سے تحفظ بھی ضروری ہے۔ راوی پر جرح کے مراتب اور دو متعارض اقوال میں ترجیح یا تطبیق کے قواعد پر مہارت بھی ضروری ہے۔ ایسے ہی بعض مسائل جو بظاہر عام یا مطلق ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت ان میں بعض قیود ہوتی ہیں، فقیہ کو غور وخوض کے ساتھ کلام کے مقصود کو مدنظر رکھنا چاہیے اور محض ایک دو کتابوں کے مطالعہ پر اکتفا نہ کرے، بلکہ تمام سابق فقہاء کے کلام کو بحیثیت مجموعی دیکھے اور اس میں تحقیق وتنقید کرے، یہ سب باتیں اسی شخص کو حاصل ہوتی ہیں جو دِقّتِ نظر کے ساتھ کثیر المطالعہ ہو اور اپنی عمر کا ایک حصہ فقہ اور فقہاء کی خدمت میں گزارا ہو۔ ہوشیار، بیدار مغز اور تحقیق کا عادی ہو، توفیقِ خداوندی بھی اس کے شاملِ حال ہو اور اگر حقیقۃً دیکھا جائے تو یہ سب محض ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اپنے خاص بندوںکو عطا فرماتا ہے، (فتاویٰ رضویہ)‘‘۔
بہارِ شریعت میں ہے:
’’آداب الافتاء کے ان اصول وقواعد اور احکام سے معلوم ہوا کہ فتویٰ دینا اور حکم شریعت قرآن کریم یا احادیث پاک یا کتب فقہ سے بیان کرنا کوئی سہل کام نہیں کہ جس کو ہر عالم یا عامی وجاہل یا کم علم اور قلیل البصیرت انجام دے سکے، قرونِ اولیٰ میں افتاء کے لیے اجتہاد کی شرط تھی،غیر مجتہدنہ مفتی ہوتا تھا نہ کہلاتا تھا، یہ علم کے زوال کا دور ہے اور ثقہ علماء کمیاب ہیں، بے علم لوگ چند احادیث کا ترجمہ یاد کر کے احکامِ شرعیہ بیان کرنے لگتے ہیں اور اللہ کا خوف ان کے دل میں نہیں آتا۔ بعض لوگ محض اپنی عقل کی بنیاد پر کسی امر کے جائز یا ناجائز ہونے کا حکم لگا دیتے ہیں، قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھ کر اس کی تفصیل اور اصول وقواعد کا علم حاصل کیے بغیر بڑی بے باکی سے شرعی حکم بیان کردیتے ہیں، ایسے لوگوں کو خداوندِ قہار کی جلالت سے خوف کھانا چاہیے اور اپنا دین وعاقبت برباد نہیں کرنی چاہیے۔ آج کل کے نوآموز علماء بلاخوف ریا ونفاق خود اپنے قلم سے خود کو مفتی اعظم، شیخ الحدیث، فقیہ العصر اور محدث اعظم، عظیم المرتبت کے القاب اپنے نام کے ساتھ لکھتے یا لکھواتے ہیں اور اگر ان کے نام کے ساتھ یہ ضخیم الفاظ و خطابات نہ لکھے جائیں تو اپنی توہین محسوس کرتے اور برا مناتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی کم علمی اورکم ظرفی کی دلیل ہے، انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے، اگر وہ درحقیقت صاحب علم ہوتے تو اس آیت کا مصداق ہوتے: ’’اللہ کے بندوں میں علماء ہی کو خوفِ الٰہی ہوتا ہے، (فاطر: 28)‘‘، اللہ تعالیٰ سب کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے، (فتاویٰ رضویہ)‘‘۔
علامہ مفتی شریف الحق امجدی مفتی کے منصب اور اُسے پیش آنے والی مشکلات کے متعلق فرماتے ہیں:
’’علماء کے بعض مخالفین یہ کہتے ہیں: فتویٰ لکھنا کوئی اہم کام نہیں، بہارِ شریعت اور فتاوٰی رضویہ دیکھ کر ہر اُردو داں فتویٰ لکھ سکتا ہے، ایسے لوگوں کا علاج صرف یہ ہے کہ انہیں دارالافتاء میں بٹھا دیا جائے، تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ فتویٰ نویسی کتنا کٹھن کام ہے۔ درحقیقت فتویٰ نویسی کا کام جتنا مشکل کل تھا، اتنا ہی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا، نئے واقعات کا رُونما ہونا نہ بند ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ فقہائے کرام نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے آئندہ رونما ہونے والے ہزاروںممکن الوقوع حوادث کے احکام بیان فرمائے ہیں، مگر اس کے باوجود بے شمار ایسے حوادث ہیں جو واقع ہوںگے اور ان کے بارے میںکسی کتاب میں کوئی شرعی حکم صراحت سے نہیں ملے گا، ایسے حوادث کے بارے میں حکمِ شرعی کا اِستخراج جوئے شِیر لانے سے کم نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی تائید شامل حال ہو، یہیں مفتی غیر مفتی سے ممتاز ہوتا ہے۔ پھراب دارالافتاء، دارُالفِقْہ نہیں رہا، بلکہ دینی معلوماتِ عامہ کا محکمہ ہوگیا۔ کسی بھی دارالافتاء میں جا کر دیکھیے، مسائلِ فقہ و کلام کے علاوہ تصوُّف، تاریخ، جغرافیہ، حتی کہ منطقی سوالات بھی آتے ہیں اور اب تو رواج ہو گیا ہے کہ کسی مقرِّر نے تقریر میں کوئی حدیث پڑھی یا کوئی واقعہ بیان کیا، مقرر صاحب تو اِعزاز و اکرام کے ساتھ رخصت ہوگئے، ان سے نہ کسی نے سند مانگی نہ حوالہ، مگر دارالافتاء میں سوال پہنچ گیا کہ فلاں مقرر نے یہ حدیث پڑھی تھی، یہ واقعہ بیان کیا تھا، کس کتاب میں ہے، باحوالہ بتائیے۔ یہ کتنا مشکل کام ہے، اہلِ علم ہی جانتے ہیں۔ مقرر خاص موضوع پر تیاری کرکے تقریر کرلیتا ہے، مدرس مطالعہ کر کے اپنے حصے کا سبق پڑھا دیتا ہے، مصنف اپنے موضوع سے متعلق مواد جمع کر لیتا ہے، لیکن دارالافتاء سے سوال کرنے والا نہ کسی موضوع کا پابند ہے، نہ کسی فن کا اور نہ کسی کتاب کا۔ بس جو ضرورت ہوئی اس کے مطابق سوال کرتا ہے،
خواہ اس کا تعلق تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد یا تاریخ وجغرافیہ سے ہو، ان سب تفصیلات سے ظاہر ہوگیا کہ فتویٰ نویسی کتنا اہم اور مشکل کام ہے، (مقدمہ حبیب الفتاویٰ)‘‘۔
مفتی کو کتنے عُلُوم میں مہارت ہونی چاہیے، اِس ضمن میں امام احمد رضا لکھتے ہیں:
’’ تفسیر وحدیث واُصول وادب وقدرِ حاجت ہیئت وہندسہ و توقیت اور ان میں مہارتِ کافی اور ذہن ِ صافی اور نظرِ وافی اور فقہ کا کثیر مشغلہ اور اشغالِ دنیویہ سے فراغِ قلب اور توجُّہ اِلَی اﷲ اور نیّت لِوَجہِ اﷲ اور ان سب کے ساتھ شرطِ اعظم توفیق مِنَ اﷲ، جو اِن شروط کا جامع ہے، وہ اس بحرِ ذخار (یعنی گہرے سمندر) میں شناوری (یعنی تیراکی) کرسکتا ہے، مہارت اتنی ہو کہ اس کی اِصابت (یعنی فکر کی راستی) اس کی خطا پر غالب ہو اور جب خطا واقع ہو، رُجوع سے عارمحسوس نہ کرے، ورنہ: ’’اگر خواہی سلامت برکنار است‘‘ (جسے سلامتی چاہیے تو وہ کنارے پر رہے )، (فتاویٰ رضویہ)‘‘۔