چین امریکا کے لیے خطرہ، ناٹو مسلمانوں کا قاتل؟

520

ناٹو آ ج بھی اسلامی ممالک میں بمباری اور مسلمانوں کا قتل کرتی نظر آرہی ہے لیکن خود چین کو امریکا کے لیے خطرہ محسوس کر رہی ہے؟ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مغرب کو ماسکو کی فکر نہیں تھی اسی وجہ سے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (ناٹو) کی کارروائی جاری رہی لیکن آج دنیا کو یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ چین کے بارے میں واشنگٹن سے جاری ہونے والے بیان میں کہا جارہا ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے چوری اور جاسوسی کے اقدامات امریکا کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا اور طویل المدتی خطرہ ہیں۔ امریکا کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے واشنگٹن کے ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین نے بیرونِ ملک رہنے والے چینی شہریوں کو ہدف بنانا اور انہیں واپس لوٹنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ وہ امریکا کی کورونا وائرس پر تحقیق کو سبوتاژ کرنے کی بھی کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی پوری ریاست اس کوشش میں ہے کہ کسی بھی ذریعے سے دنیا کی واحد سپرپاور بنا جائے۔ ایک گھنٹے طویل تقریر میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے چین پر امریکی پالیسی پر بذریعہ رشوت، بلیک میل، غیر قانونی سیاسی سرگرمیوں، معاشی جاسوسی، ڈیٹا اور پیسے کی چوری سمیت ایک وسیع تر مہم کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ایف بی آئی اب ہر 10 گھنٹے میں چین سے منسلک ایک نیا کاؤنٹر انٹیلی جنس کیس کھول رہا ہے۔ ملک بھر میں فی الوقت جاری 5000 ایسے کیسز میں سے تقریباً نصف کا تعلق چین سے ہے۔ اپنے غیر معمولی خطاب میں کرسٹوفر رے نے امریکا میں پیدا ہونے والے چینی شہریوں سے کہا کہ اگر چینی حکام انہیں ہدف بنا کر چین واپس لوٹنے کے لیے کہیں تو وہ ایف بی آئی سے رابطہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ چین کے صدر شی جن پنگ ’فاکس ہنٹ‘ نامی ایک پروگرام کی سربراہی کر رہے ہیں جو چین سے باہر رہنے والے ایسے چینی شہریوں کو ہدف بناتا ہے جنہیں چینی حکومت اپنے لیے خطرہ تصور کرتی ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ اس خطاب میں ہے۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (ناٹو) کی تشکیل 1949 میں سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ ناٹو کے قیام کی ضرورت کیوں پیدا ہوئی۔ ناٹو امریکا اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔ جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد، سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور 1948 کے وسط میں سوویت رہنما جوزف اسٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی، جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔ شہر میں محاذ آرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا۔
9 مئی 1955ء کو مغربی جرمنی کی ناٹو میں شمولیت کو ناروے کے وزیر خارجہ نے براعظم کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ قرار دیا ۔ مغربی جرمنی کی ناٹو میں شمولیت پر سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کے درمیان 14 مئی 1955ء کو ’’وارسا پیکٹ‘‘ طے پایا۔ ’’وارسا پیکٹ‘‘ کی طاقت 5لاکھ فوج پر مشتمل تھی۔ لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ اور 1949 میں امریکا اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، ناروے، بیلجیم، ڈنمارک، نیدر لینڈز، پرتگال، آئس لینڈ اور لگسمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔ 1952 میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔ مونٹی نیگرو جون 2017 میں ناٹو کا حصہ بننے والا آخری ملک تھا۔
ناٹو کے بارے میں یہ ایک حیران کن بات ہے کہ اس اتحاد نے کبھی سویت یونین کے خلاف بڑی کارروائی کی اور نہ ہی اس کی کوشش کی۔ اس کے برعکس امریکا ان ممالک کی مدد کرتا رہا ہے جن ممالک کو سویت یونین سے عسکری دشواریاں تھیں لیکن سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے وقت امریکا یا اس کا ناٹو شامل نہیں تھا۔ اس اتحاد کی سب سے بڑی عسکری کارروائی 9/11 کے بعد 12اکتوبر 2001ء کی رات افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف کی گئی، ناٹو نے پہلی بار یورپ کے باہر اپنی کارروائیاں کیں اس نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان بھیجی گئی اقوام متحدہ کی جانب سے منظور شدہ مسلمان دشمن اتحادی فوج کی اسٹرٹیجک کمانڈ سنبھالی۔ ناٹو کمانڈ میں افغانستان میں تقریباً ایک لاکھ 70ہزار فوجی افغان سیکورٹی فورسز کی تربیت، رہنمائی اور مدد کے مشن پر افغانستان گئے لیکن یہ افواج عملی طور پر افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرنے اور وہاں اپنی پسند کی حکومت کے قیام میں سرگرم رہیں یہ جنگ 13 نومبر 2001ء میں ناٹو کی کابل پر فتح تک جاری رہی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ روس عسکری طور پر طاقتور رہا اور یوگوسلاویہ کے خاتمے سے 1990 کی دہائی ہی میں جنگ یورپ میں واپس آ گئی۔ اس کے بعد کے تنازعات میں دیکھا گیا کہ ناٹو نے اپنا کردار ایک مداخلت پسند تنظیم میں بدل لیا فوجی کارروائیوں میں بوسنیا اور کوسوو میں سربیا کی افواج کے خلاف فضائی مہم کے علاوہ بحری ناکہ بندی اور امن فوج بھی شامل تھیں۔ لیکن یہ کوئی بڑی کارروائی نہیں تھی جس میں سویت یونین کو کوئی بھاری نقصان پہنچایا جا سکا ہو۔
سوال ایک مرتبہ پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین ایک ملک ہے اس کے برعکس امریکا ساری دنیا میں مسلمانوں پر بمباری کرنے والا اور حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے والا اور ناٹو کے کم وبیش 55ممالک جس میں ناٹو کے براہ راست اور نان ناٹو ارکان شامل ہیں ان سے چین قابو میں نہیں آرہا ہے۔ آج ناٹو کے وہ بھاری بھرکم اتحادی جنہوں نے اسلامی ممالک میں انسانوں کو مٹی میں ملانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اللہ کی مخلوق آج بھی ان ملکوں میں موجود اور امریکا کا غرور خاک میں ملا رہی ہے۔ امریکا کی افغانستان، عراق اور شام پر ہونے والی بمباری کا حساب لگا لیا جائے، اب تک ان ممالک میں مسلمانوں کا کیا یہاں رہنے والے تمام ہی انسانوں کا خاتمہ ہو جاتا لیکن آج افغانستان میں شکست کھانے والی ناٹو کے 70فی صد بجٹ کے اخراجات پورے کرنے والا امریکا خوفزدہ ہے۔ ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘۔