چٹان سے چند گز کے فاصلے میں ایک ریلوے لائن موجود ہے جو مسافروں کو انتہائی سہولت اور حفاظت کے ساتھ سطح سمندر سے 3،454 میٹر (11،321 فٹ) کی بلندی پر سفر طے کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس ریلوے لائن کی تعمیر کا خیال پہلے پہل 1870ء میں آیا۔ کئی ایک منصوبے زیرِ غور لائے گئے۔ ان منصوبوں میں ایفل ٹاور کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل تھا۔
بالآخر ایک چٹان کھودتے ہوئے ریلوے لائن گزارنے کے منصوبے کو حتمی شکل دی گئی اور 1898 میں اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا اور 23 سالوں کی محنت کے بعد یہ ریلوے لائن اپنی تعمیر کے مراحل طے کرتی ہوئی اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس کی تعمیر کے دوران چٹان کو دھماکے سے اڑاتے ہوئے کئی ایک مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس ریلوے لائن کی تممیر کے پیچھے جو ذہن کارفرما تھا وہ ایڈولف گوئرزیلر کا ذہن تھا۔ وہ رومانوی ذہن کا حامل تھا۔اور چاہتا تھا کہ عام پبلک بھی ان مناظر سے لطف اندوز ہو جن سے محض پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے والے محظوظ ہوتے ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اس کی ریل گاڑی کو اوپر تنگ و تاریک سرنگوں سے گزارنے کیلئے بجلی کی قوت درکار ہوگی۔ حصول مقصد کیلئے اسے ایک پاور اسٹیشن قائم کرنا تھا جو اسے مطلوبہ بجلی فراہم کرسکے۔ لہٰذا سرنگیں کھودی گئیں اور ریلوے لائن بچھائی گئی۔
ریلوے کے بالائی اسٹیشن پر ایک سائنٹیفک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا جس کیلئے گوئیر نے 100،000 فرانک عطیہ دیا۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں کئی ایک مظامین پر کام سرانجام دیا جاتا تھا۔