جمہوریت کے انڈے

337

کل بھوشن یادیو نے پاکستان میں جو دہشت گردی اور تباہی مچائی ہے اس کے پیش نظر وہ انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں سو اس کی مودیت (درندگی) کو دیکھ کر عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ ہم نے اُسی وقت انہی کالموں میں کہا تھا کہ پاکستان کے حکمران اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے کیوں کہ وہ بھارت اور امریکا کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ ریمنڈ ڈیوس نے سرعام دو پاکستانیوں کو قتل کیا تھا اور پاکستانی حکمرانوں نے اسے کندھوں پر بیٹھا کر امریکا بھیج دیا تھا۔ اسی طرح ایک بھارتی جاسوس کو بھی بڑی عزت و احترام کے ساتھ بھارت روانہ کر دیا تھا، اس پس منظر میں کل بھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے؟ اور عالمی عدالت نے بھی اس کی سزا برقرار رکھی تھی۔ مگر پاکستانی حکمرانوں نے کل بھوشن کو کہا کہ تم رحم کی درخواست کرو تمہیں آزادی کا پروانہ دے دیا جائے گا۔ مگر یادیو جانتا ہے کہ پاکستانی حکمران اس کی سزا پر عمل درآمد کی جرأت ہی نہیں کر سکتے سو آزادی کی بھیک کیوں مانگی جائے اور حالات نے اس کی سوچ کی تصدیق کر دی ہے۔ اب پاکستانی حکمران بھارتی حکومت سے درخواست گزار ہیں کہ یادیو کے لیے رحم کی درخواست کرو۔
سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو کل بھوشن یادیو کی زندگی سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ وہ اس کی سزا کیوں معاف کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ بھارت نے ہمارے ایک سابق میجر کو اغوا کیا ہے، کچھ دن تو اس معاملے میں گفت و شنید ہوتی رہی مگر پھر چائے کی پیالی میں جو طوفان اٹھایا گیا تھا وہ تحریک انصاف کا سونامی بن گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل کا ارشاد گرامی ہے کہ وہ اتفاق رائے کے لیے مخالفین کے پائوں پکڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ یہ پیغام بھارت کو دیا گیا ہے کہ وہ مودی سے ہاتھ ملانے کے لیے پائوں پکڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کے روادار نہیں غالباً انہیں خدشہ ہے کہ ہاتھ ملایا تو کہیں ان کی انگلی ہی غائب نہ ہو جائے۔ مولانا فضل الرحمن کی بات کوئی مانے یا نہ مانے مگر زمینی حقائق ان کی تائید کر رہے ہیں کہ جمہوریت کے انڈے گندے ہیں جب تک انہیں ٹوکرے سمیت باہر نہیں پھینکا جائے گا ملکی حالات نہیں سدھر سکتے اور قیادت کا بحران یونہی بڑھتا رہے گا۔ تحریک انصاف جمہوریت کے ذریعے ہی وزارت عظمیٰ پر تشریف فرما ہے مگر اس کا کوئی بھی بیان کوئی بھی اقدام جمہوریت پر مبنی نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان شہنشاہ معظم بنے ہوئے ہیں ان کی نظر میں عدالتیں بھی بے معنی ہیں جس کو چاہے پکڑ لیتی ہیں جسے چاہے بے گناہ قرار دے دیتی ہیں۔ مائنس 1 کے معاملے پر کسی نے توجہ نہیں دی مگر جب وزیر اعظم عمران خان نے مائنس 1 کی بات کی تو سبھی متوجہ ہو گئے۔ مگر اب بات مائنس 1 سے آگے بڑھ چکی ہے اور مائنس آل کی بات ہورہی ہے۔ مائنس آل کی بات ہم انہی کالموں میں بہت پہلے کر چکے ہیں کیوں کہ مائنس آل کے بغیر معاملات درست نہیں ہو سکتے۔ ہماری سیاسی اقلیم میں تو سبھی باون گزے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان تریپن گزے بننا چاہتے ہیں مگر عمران خان کا DNA اس کی اجازت نہیں دیتا سو موصوف کو اسی قدوقامت پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ کاش! جمائمہ خان عمران خان کو سمجھا سکتیں کے سیاست میں ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ آثار وقرائن بتا رہے ہیں جمائمہ خان نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ سیاست کرکٹ کا کھیل نہیں جہاں چھکا بائی چانس بھی لگ سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سیاست امکانات کے اردگرد ہی گھومتی ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاست میں امکانات کی تخم ریزی کرنا پڑتی ہے جو شخص اس کام میں مہارت رکھتا ہے وہ ہی اچھا سیاست دان ثابت ہوتا ہے اور جو شخص تخم ریزی کے دوران کرکٹ کی بال چبانے کی پریکٹس کرتا ہے رسوا ہو جاتا ہے اور تماشبین لوزر لوزر کا شور مچانے لگتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جب تک کرکٹ کے میدان سے باہر نہیں آتے وہ سیاست سے دور ہی رہیں گے۔ پوری قوم اس بات کو محسوس کر رہی ہے کہ اب بشریٰ بی بی کوئی بیان نہیں دے رہی ہیں اور نہ ہی جمائمہ خان عمران خان کی سیاست میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہیں۔ حالانکہ وہ کئی بار کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنے ایک بیٹے کو بزنس مین بنائیں گی اور دوسرے بیٹے کو سیاست دان مگر عمران خان کی کارکردگی نے اس خواہش کو خواہش کے دائرے میں قید کر دیا ہے۔