پاکستان بھارت کے ساتھ پالیسیوں کا جائزہ لے

338

15 جولائی 2020، جسارت میں شائع ہونے والا ادارتی نوٹ ’’یہ کیسا تضاد ہے؟؟‘‘ بہت ہی غور طلب ہے جس میں اس بات کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت کی کشمیر سے متعلق بھارت کے ساتھ پالیسی میں زمین و آسمان کا تضاد ہے۔ ایک جانب پاکستان ہر روز کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا نہیں تھکتا تو دوسری جانب ہر وہ قدم اٹھا رہا ہے جس کا سارا کا سارا فائدہ بھارت کے حصے میں جا رہا ہے اور نقصانات پاکستان کے حصے میں آ رہے ہیں۔
ایک جانب پاکستان پوری دنیا کے سامنے کشمیریوں کے سلسلے میں سراپا احتجاج نظر آ رہا ہے تو دوسری جانب وہی بھارت جو کشمیریوں پر قہر و بلا بن کر ٹوٹ پڑا ہے، اس سے دوستی کی پینگوں پر پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ کشمیر میں بھارتی درندوں کے ہاتھوں نہ تو کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ کسی کی جان و مال۔ ہر روز نجانے کتنے بے گناہوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں تو دوسری جانب کبھی سکھوں کے لیے راہداریاں تعمیر کی جا رہی ہیں تو کبھی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہندوؤں کے لیے مندر تعمیر ہو رہا ہے۔ حکومت ہو یا افواج پاکستان، ان کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہی ہے کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی کرتا رہتا ہے۔ شمالی سرحدوں پر بھارت کی ریشہ دوانیاں جاری رہتی ہیں اور جتنی بھی عسکری کارروائیاں ہوتی ہیں ان میں بھارت ملوث پایا گیا ہے جس کے ثبوت و شواہد اقوامِ عالم کے سامنے وقتاً فوقتاً پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ ایک جانب پاکستان گزشتہ اور حالیہ کارروائیوں کے پیچھے بھارتی سازش کو آشکار کرتا چلا آ رہا ہے تو دوسری جانب بھارت کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے اور افغانستان کے لیے تجارتی قافلوں کو گزرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ ایک طرف بھارت افغانستان میں بیٹھ کر کھلے عام پاکستان کے مفادات کو نقصان پر نقصان پہنچائے چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کا بھارت کے سامنے بچھے جانے کا یہ عالم ہے کہ وہ بھارتی تجارتی قافلوں تک کو اپنی سر زمین سے گزرنے کی اجازت جاری کر رہا ہے۔ پاکستان کی یہ پالیسی کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے حق میں نہیں جاتی اور آنے والے ہر دن کے ساتھ پاکستان کی مشکلات میں اضافے در اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔
ان ہی سارے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ادارتی نوٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’بھارت کشمیریوں پر مظالم سے ایک دن کے لیے بھی باز نہیں آیا اس نے یوم شہدائے کشمیر کے موقع
پر بھی مزید پانچ کشمیری شہید کر دیے۔ پاکستانی قومی اسمبلی میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے قرارداد منظور کی گئی لیکن ساتھ ہی بھارت کو افغانستان سے تجارت میں سہولت دینے کے لیے واہگہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ کہا تو یہ گیا ہے کہ افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کے اصول پر کار بند رہیں گے لیکن کون نہیں جانتا کہ افغانستان بھارت تجارت کی آڑ میں بھارت کیا کچھ کر رہا ہے۔ بھارت کے افغانستان میں چلائے جانے والے نیٹ ورکس کے خلاف پاکستانی فوج اور حکومت نے بار بار عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ کیا پاکستانی حکومت کو نہیں معلوم کہ بھارت تجارتی اور سفارتی راستوں سے دہشت گردی کے لیے کام کرتا ہے۔ درجنوں فرنٹ آفس قائم کرکے کون سی تجارت کی جا رہی ہے‘‘۔ اسی نوٹ میں اس جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر بھارت کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہو اور اس کے بر عکس پاکستان بھارت کے لیے آسانیاں فراہم کر رہا ہو تو یہ مظلوم کشمیریوں سے ہمدردی کا کون سا انداز ہے؟۔ ایک جانب پاکستان کشمیریوں کی زبانی کلامی حمایت کرتا نہیں تھکتا تو دوسری جانب بھارت کے لیے اپنی نگاہیں فرش راہ کیے ہوئے ہے۔ ان ہی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ادارتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اسی لیے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم زبانی حمایت سے آگے بڑھ کر کشمیریوں کے لیے عملی اقدامات کریں‘‘۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے جو اقدامات اٹھائے جانے چاہیے تھے وہ 5 اگست 2019 سے اٹھائے ہی نہیں گئے اور کشمیریوں کے لیے پاکستان کی کھوکھلی حمایت ان کے لیے مزید عذاب بن گئی۔
پاکستان کے بیش تر ٹی وی چینل بھارت اور چین کے درمیان ’’لداخ‘‘ کی تنازع پر چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے متعلق بڑے تعریفی بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ لداخ اور کشمیر کے معاملے میں کوئی خاص فرق نہیں لیکن لداخ پر بھارت کے قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کو چین نے جس بری طرح ناکام بنایا، کیا پاکستان کشمیر پر بھارتی کارروائی کو اسی طرح ناکام نہیں بنا سکتا تھا؟۔ چین کی کارروائی جتنی قابل ستائش ہے اور جس طرح پاکستان بجا طور پر اس کی کامیاب کارروائی کو اجاگر کر رہا ہے کاش پاکستان نے اسی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے خلاف بھی کارروائی کی ہوتی تو آج کشمیریوں کو ظلم و ستم کی یہ سیاہ راتیں اور تاریک دن دیکھنا نہ پڑ تے۔ پاکستان کو بھارت کے بارے میں اپنی پالیسیوں کا از سرِ نو جائزہ لینا بہت ضروری ہو گیا ہے ورنہ ہر آنے والا دن پاکستان کے لیے نئی نئی مشکلات کھڑی کرتا نظر آئے گا۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت اس بات کا نہایت سنجیدگی کے ساتھ از سرِ نو جائزہ ضرور لے گی۔