تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین نے ایشیا پیسیفک میں امریکا کی تیزی سے جاری جنگی تیاریوں کے نتیجے میں فوری طور پر 80ہزار میٹرک ٹن وزنی دیو ہیکل بحری بیڑہ ایشیا پیسیفک میں اُتاردیا ہے، اس بحری بیڑے کو 85میٹرک ٹن میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کے بعد امریکا کو بحرالکاہل میں موجود اپنے ’’جزیرے گوام‘‘ کی حفاظت کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ گوام کو بچانے کے لیے امریکا نے فوری طور پر اپنا سب سے بڑا بمبار جہاز B-52H جزیرے پر پہنچانا شروع کر دیا ہے لیکن اب تک امریکا یا بھارت دونوں کو بحرالکاہل کے ساتھ 10ممالک جن میں جاپان، تائیوان، فلپائن، ویتنام اور دیگر شامل ہیں میں سے کسی ایک ملک سے بھی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ اس صورتحال میں امریکا کا بھارت میں فوج اُتارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اس کے برعکس امریکا بھارت سے کہہ رہا ہے کہ وہ فوری طور پر چین سے لداخ، گلوان ویلی اور وائی (Y) ایریا کا بدلہ لینے کے لیے بحر الکاہل میں ’’یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ کی سربراہی سنبھال لے‘‘۔ یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈکیا ہے؟۔ مئی 2018 میں امریکا نے اپنے شکرے بھارت کو چین سے لڑوانے کی تیاری مکمل کر لی تھی اور امریکا نے بھارت کو ایشیا پیسیفک میں ڈبونے کی تیاری کا کام شروع کر دیا تھا۔ اُس وقت امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ بحرالکاہل اور وہاں کے ممالک کے وسیع تر مفادات میں علاقے کی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والی کمانڈ کا نام تبدیل کر کے اس کا نیا نام ’’یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ‘‘ کردیا گیا ہے۔ مئی 2018ء میں واشنگٹن سے اعلان کیا گیا کہ امریکی پیسیفک کمانڈ کا نام تبدیل کر دیا ہے۔ یہ ایک علامتی تبدیلی ہے اور اس کا مقصد بھارت اور امریکا کے درمیان عسکری تعاون میں وسعت پیدا کرنا ہے۔ امریکا کے مطابق اس کا مقصد بحر الکاہل کے انتہائی وسیع تر علاقے کے سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنا ہے۔ اس کمانڈ میں شامل فوجی اور سویلین ملازمین کی تعداد 3لاکھ 75 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
یو ایس پیسیفک کمانڈ کو یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ کا نام دینے کی تقریب کے موقع پر مئی 2018ء میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا کہ بحر الکاہل اور بحر ہند کے اتحادیوں کی امریکا کے ساتھ شراکت نے یہ ثابت کیا ہے کہ علاقائی استحکام کے لیے شراکتی سلسلے کو وسیع تر کرنا اشد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بحرالکاہل اور بحر ہند کے درمیان سیکورٹی رابطے استوار کرنے کے لیے امریکا نے بحرالکاہل کمانڈ کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا بھارتی عسکری تبصرہ نگارکا کہنا تھا کہ اس تبدیلی کا واضح مقصد اور مرکزی نکتہ امریکا کا بھارت کی عسکری اور خاص طور پر بحری قوت پر ایک طرح سے انحصار ہے۔ بھارت اس وقت امریکا کا دوسرا سب سے بڑا اسلحے کا خریدار ہے اور اس کا حجم 15 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ کا صدر دفتر ہوائی کے جزیرے پرل ہاربر میں قائم ہے۔ اس کمانڈ کا ایک اور مرکز ریاست کیلی فورنیا کی سان ڈیاگو کی بندرگاہ بھی ہے۔ ریاست کیلی فورنیا اور بحرالکاہل میں موجود امریکی جزیرے گوام کا فاصلہ 6000 کلو میٹر ہے لیکن بھارت کے امریکا پر اعتماد کی وجہ سے ایشیا سے ’’امریکی انڈو پیسیفک کمانڈ‘‘ کے لیے بھارت کا انتخاب کیا گیا اس کے بعد بھارت نے سمندروں میں راج کو ’’پرتھوی‘‘ راج سے جوڑنا شروع کر دیا۔
بھارت نے خا ص طور پر چین سے پاکستان آنے والے تجارتی بحری جہاز پر فوجی سامان ہونے کا دعویٰ کیا یہ درست نہیں تھا 7مئی 2020ء کو پاکستان نے چین سے آنے والے تجارتی بحری جہاز میں مبینہ طور پر ممنوعہ سامان کی موجودگی کے بھارتی دعوے کو غلط قرار دے دیا۔ پاکستان کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ پاکستان میں اس نجی کمپنی سے بھی رابطہ کیا ہے جس نے اس بحری جہاز میں موجود مواد کو درآمد کیا تھا۔ انہوں نے کہا جس سامان پر سوال اٹھایا گیا ہے وہ ہیٹ ٹریٹمنٹ فرنس کیسنگ سسٹم ہے جسے متعدد صنعتوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کسی بین الاقوامی برآمدی کنٹرول لسٹ میں شامل نہیں۔ پاکستان نے مزید کہا کہ حراست میں لیے گئے بحری جہاز میں فوجی نوعیت کا سامان موجود ہونے کا دعویٰ درست نہیں۔ واضح رہے کہ بھارتی حکام نے چینی تجارتی بحری جہاز ایم وی ڈی اے سیو یون کو فروری کے اوائل میں دیندیال پورٹ پر حراست میں لیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ اس میں آٹو کلیو موجود ہے جسے کارگو منشور میں غلط ظاہر کیا گیا۔ بھارتی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ آٹو کلیو کو لانگ رینج بلاسٹک میزائل یا سیٹلائٹ لانچ راکٹس بنانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے کہا کہ سامان کو متعلقہ دستاویز میں صحیح ظاہر کیا گیا ہے اور کوئی معلومات چھپانے یا خفیہ رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ 5مئی 2020ء کو چین نے بھی بھارت کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کردیا تھا کہ کراچی کے لیے روانہ ہونے والے زیر حراست چینی تجارتی بحری جہاز پر ایسا سامان موجود تھا جو عدم پھیلاؤ اور برآمدی کنٹرول کی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔
یہ اور اس طرح کی بہت سی کارروائیاں عمل میں آئیں اس کے علاوہ چین کے تجارتی جہازوں کی بھارت نے اسکریننگ شروع کر دی اور اپنے آپ کو بحرالکاہل کاچودھری سمجھنے لگا۔ لیکن ’’بکرے ماں کب تک خیر مناتی‘‘ کے مصداق بھارت اب چھرے کے نیچے آگیا ہے۔ امریکا کے لیے اب ایشیا پیسیفک میں زیادہ بھاری لشکر کے ساتھ اپنا عسکری توازن برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے اس لیے امریکا نے بھارت کو چین کے آگے قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس سے کہا ہے کہ وہ ایشیا پیسیفک میں کمانڈ سنبھال لے۔
اُدھر چین نے ایشیا پیسیفک میں فوری طور پر 80ہزار میٹرک ٹن وزنی دیو ہیکل بحری بیڑہ اُتاردیا جس کے بارے میں واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک نے مئی 2019ء دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اپنے تیسرے جنگی بحری بیڑے کی تیاری پر تیزی سے کام کر رہا ہے۔ چائنا پاور نامی تھنک ٹینک نے شنگھائی کے جیانگ نان شپ یارڈ میں زیر تعمیر ایک بڑے بحری جہاز کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر شائع کی تھیں۔ چائنا پاور سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک یونٹ کی ان تصاویر میں دیکھا گیا تھا کہ جہاز کے ڈھانچے کو جوڑا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ 80 سے 85 ہزار ٹن وزنی 002 ٹائپ کے جنگی بحری بیڑے کی تیاری کا آغاز ہو چکا ہے۔ چائنا پاور کے مطابق بادلوں اور دھند کے درمیان سے لی گئی سٹیلائٹ تصاویر میں چینی جہاز کا اگلا حصہ اور اس کا ڈھانچا نظر آرہا ہے۔ تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ ٹائپ 002 بحری بیڑے کے بارے میں فی الحال معلومات بہت ہی محدود ہیں تاہم شنگھائی کے جیانگ نان شپ یارڈ میں جو چیز تسلسل سے دیکھی جا سکتی ہے وہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے لیے تیسرے جنگی بحری بیڑے کی تیاری ہے۔ یہی بحری بیڑہ جس کے بارے میں واشنگٹن تھنک ٹینک نے مئی 2019ء دعویٰ کیا تھا اور اطلاع دی تھی اور کہا تھا کہ ’’بحری بیڑہ‘‘ 2022 میں بحرلکاہل میں اُتارا جائے گا لیکن اب یہ بحری بیڑہ بحرالکاہل میں اُتارا جاچکا ہے اور بحری بیڑہ امریکا کے سب سے بڑے بحری بیڑے کو مکمل طور پر ڈبونے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ان حالات میں بھارتی بحری طاقت کا کیا بنے گا اور کیا وہ بحرالکاہل میں چین کی طاقت کا مقابلہ کر سکے گا؟
چین کا پہلا بحری بیڑا، لناننگ، تین دہائی پرانا اور سویت یونین ساختہ ہے جسے یوکرائن سے حاصل کیا گیا تھا۔ چین کا دوسرا 001 اے ٹائپ بحری بیڑا چین ہی میں لیاننگ کے ڈیزائن پر تیار کیا گیا تھا جس نے ایک سال قبل آزمائشی بحری سفر شروع کر دیا تھا۔ چائنا پاور کی آن لائن شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بحری بیڑے کی تیاری 2022 تک مکمل ہو جائے گی۔
اس سال جنوری میں چین کے نیول ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے رکن کموڈور زانگ جنشی نے کہا تھا کہ چین کو اپنے عالمی مفادات کے تحفظ اور اپنے طویل ساحل کی حفاظت کے لیے کم سے کم تین بحری بیڑے درکار ہیں۔ کموڈور جنشی کے مطابق چین کا 18 ہزار کلومیٹر طویل ساحل ہے اور بیرون ملک چین کے معاشی اور دیگر مفادات بھی بڑھ رہے ہیں۔ خیال رہے کہ اس وقت امریکا کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ جنگی بحری بیڑے ہیں جن کی تعداد 20 ہے۔
ان حالات میں یہ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا بھارت کو لداخ، گلوان ویلی اور (y) ایریا کی طرح بحرالکاہل میں ڈبوبے کی منصوبہ بندی کررہا ہے کہ اگر بھارت کو کچھ کامیابی ہوگئی امریکا اس سے خود فائدہ اُٹھائے گا اور اگر اس میں بھارت کو شکست کا سامنا ہو ا تو امریکا یہ کہہ کر فرار ہو جائے گا کہ امریکا کی طرح بھارت بھی ’’یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ‘‘ کا حصہ ہے لیکن بھارت کے لیے لداخ، گلوان ویلی اور (y) ایریا کی طرح کا نہیں اس سے ہزاروں گنا زیادہ اور بھاری نقصان کا سامنا ہو گا۔ بھارت کو یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ بحرالکاہل اور امریکا کے درمیان چین پر حملے کے لیے امریکا کو 6000ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوگا اور چین تو بھارت کی سرحدوں کے اندر موجود ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بھارت کے لیے بحر ہند سے نکلنا بھی مشکل ہو جائے۔
200716