کے الیکٹرک سربراہ کی دروغ گوئی

274

بالاخر کے الیکٹرک کے خلاف جماعت اسلامی کی عوامی سماعت نے رنگ دکھانا شروع کر دیا اور کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے پریس کانفرنس کر ڈالی۔ اس پریس کانفرنس میں ان کے بیانات میں تضادات ہی تضادات ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ لوڈشیڈنگ پر معذرت کرتا ہوں۔ دراصل 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی کی وجہ سے بل زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ مونس عبداللہ علوی نے یہ بھی کہا ہے کہ اگلے دس بارہ دنوں میں موسم کچھ ٹھنڈا ہو جائے گا تو صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ انہوں نے لوڈشیڈنگ کے بارے میں کہا کہ ہمارے پاس 18 سو فیڈرز اور 26500 ٹرانسفارمرز ہیں۔ بیک وقت 15 سے 20 فیڈرز پر کام ہو رہا ہوتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ لوڈشیڈنگ وہاں بھی ہو رہی ہے جہاں نہیں ہوتی تھی۔ چیف ایگزیکٹو کے الیکٹرک نے پریس کانفرنس تو کر دی لیکن یہ ثابت کر دیا کہ ادارے کا چیف ایگزیکٹو اپنے ادارے کی کارکردگی سے ناواقف ہے۔ اسے بجلی کی فراہمی کے نظام کا بھی پتا نہیں اور جو خرابیاں ہو رہی ہیں ان کی اصلاح کے لیے اس کے پاس کوئی نظام بھی نہیں۔ ایک طرف وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ بجلی کم ہے، طلب زیادہ ہے اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ بجلی کی 24 گھنٹے فراہمی کی وجہ سے لوگوں کو بل زیادہ محسوس ہو رہے ہیں۔ یہ کیا مذاق ہے۔ چیف ایگزیکٹو کو یہ تک نہیں پتا کہ لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ وہاں بھی ہو رہی ہے جہاں نہیں ہوتی تھی۔ تو پھر 24 گھنٹے بجلی کہاں فراہم کر رہے ہیں۔ موٹی اور سادہ سی بات ہے۔ ٹیرف زیادہ ہے 300 یونٹ کے بعد چھلانگ لگائی گئی ہے 700 یونٹ پر۔ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی کراچی میں دی جاتی ہے۔ ایک چیف ایگزیکٹو ایسی بات کہے کہ موسم بہتر ہو جائے گا تو بجلی کی فراہمی بہتر ہو جائے گی یعنی ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے حالات بہتر کرنے کا۔ کیا انہوں نے عرب امارات کو نہیں دیکھا ہے، سعودی عرب کو نہیں جانتے جہاں درجہ حرات 50 اور اس سے بھی زیادہ رہتا ہے۔ اوپر سے سورج اور نیچے سے ریت کی تپش لیکن وہاں بجلی کی فراہمی 24 گھنٹے جاری رہتی ہے۔ ان ممالک میں بجلی مہنگی ہونے کے باوجود لوگوں کی قوت سے باہر نہیں ہے۔ وہاں بلنگ بھی اس طرح اندھے کی لاٹھی کی لاٹھی نہیں ہوتے۔ خیر دوسروں سے کیا موازنہ اپنے ملک کی بات کریں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کراچی میں بجلی محض اس لیے مہنگی ہے کہ یہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہے جس کو گیس مفت ملتی ہے۔ فرنس آئل مفت ملتا ہے۔ دو برس میں 90 ارب روپے کی سبسڈی مل چکی ہے۔ وہ ادارہ کہتا ہے کہ ہم نے 85 ارب روپے قرض لیا ہوا ہے اس کا سود بھی دینا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرض کسی منصوبے کے نام پر لیا گیا ہوگا۔ تو وہ منصوبہ کیا ہے۔ کسی کو معلوم ہے۔ کے الیکٹرک ابتدا سے ایک پراسرار ادارہ ہے۔ پہلے مالک کا پتا نہیں چلتا تھا۔ اب پتا چلا تو اس کے معاہدے کا پتا نہیں چلتا۔ پی ٹی آئی کو فنڈنگ کا پتا چلا تو اب کے الیکٹرک کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو فرماتے ہیں کہ بیک وقت 15 سے 20 فیڈرز پر کام ہو رہا ہوتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ واہ کیا دور کی کوڑی لایا ہے یہ افسر۔ ارے اگر 18 سو میں سے 20 فیڈرز پر بھی بیک وقت کام ہو رہا ہو تو یہ ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔ تو کیا شہر کے ایک فیصد علاقے میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ اتنے بڑے جھوٹ بولنے پر کے الیکٹرک کی انتظامیہ اس افسر کو تو فارغ کر دے جو کے الیکٹرک کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ یا پھر یہ ان کی پالیسی ہے کہ جھوٹ بھی بولو اور سینہ زوری بھی کرو۔ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو بڑے مزے سے تانبے کی تار نکلوانے اور اضافی بلنگ کا دفاع کرتے رہے۔ انہوں نے ٹیرف میں اضافے کے بارے میں خوب کہا کہ اپنی مرضی سے قیمت کم نہیں کر سکتے لیکن اپنی مرضی سے سلیب مقرر کر سکتے ہیں، اپنی مرضی سے جعلی بل بنا کر بھیج سکتے ہیں، اپنی مرضی سے ریموٹ کنٹرول سے میٹرز کو تیز کر سکتے ہیں۔ غلطی کی اصلاح کے لیے جانے والے پر تشدد کیا جاتا ہے۔ یہ سارے کام کے الیکٹرک اپنی مرضی سے کرتی ہے۔ سی ای او کے الیکٹرک کے علم میں ہونا چاہیے کہ جو علاقے بلنگ کے معاملے میں سو فیصد ہیں وہاں پر بھی گرمیوں سے قبل دن میں تین گھنٹے بجلی نہیں ہوتی تھی۔ یعنی 90 گھنٹے ماہانہ لیکن 90 گھنٹے بجلی کم دے کر بھی یہ ادارہ ہر ماہ کا بل اضافی ہی دے رہا ہے۔ جوں جوں گرمی میں اضافہ ہوا یہ بندش 90 کے بجائے 180 گھنٹے تک جا پہنچی لیکن بل کی رقم میں اضافہ ہوتا گیا۔ کے الیکٹرک کے خلاف نیپرا میں شکایت کی جاتی ہے تو وہ سماعتیں ہی کرتی رہ جاتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی تادیبی کارروائی تجویز کی جاتی ہے تو یا تو محض نمائشی ہوتی ہے جیسے چند لاکھ روپے جرمانہ اور کچھ نہیں یا پھر اس کارروائی پر عمل ہی نہیں ہوتا۔ گزشتہ سال بارش میں کرنٹ سے 30 کے لگ بھگ لوگ شہید ہوئے۔ کے الیکٹرک کو مجرم ہی قرار نہیں دیا گیا۔ اس نے ایک سال میں پورے شہر میں کھمبوں میں ارتھ لگانے کا کام کیا گیا۔ گزشتہ برس 80 فیصد کھمبوں میں ارتھ نہیں تھا۔ لیکن ذمے دار کے الیکٹرک کو نہیں قرار دیا گیا۔ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت میں اکثر ایک دوسرے کی ضد میں مقابلہ ہوتا رہتا ہے چنانچہ اس معاملے میں بھی ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت سبسڈی دے رہی ہے اور صوبائی حکومت پلاٹ۔ وفاقی ادارے مفت میں گیس دے رہے ہیں اور ایندھن۔ سوئی سدرن نے پاکستان اسٹیل کی گیس اس لیے منقطع کر دی تھی کہ وہ نادہندہ ہے اس سے اس کا نظام بیٹھ گیا اور آج پاکستان اسٹیل بند ہے لیکن کے الیکٹرک کو ہر حال میں چلانے کا حکم ہے لہٰذا اسے نادہندہ قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ کام تو وفاقی حکومت ہی کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت بھی اسے رعایتیں ہی دے رہی ہے۔ نیپرا وغیرہ نے جب کارروائی کی کے الیکٹرک اس کے بعد زیادہ شیر ہو کر عوام کو لوٹنے لگی۔ اس مرتبہ تو کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ، زائد بلنگ، ٹیرف میں اضافے کے علاوہ اس کے سربراہ کے خلاف بھی جھوٹ بولنے پر کارروائی ہونی چاہیے۔