ایسا کیوں سوچا جارہا ہے

281

پانچ جولائی1977 کو ٹی وی پر جنرل ضیاء الحق کا پہلا خطاب آج بھی یاد ہے، ان سے قبل بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت میں جو قوم سے خطاب کیے وہ سب بھی یاد ہیں، ایوب خان کے بارے میں تاریخ کا مطالعہ کرنے سے علم ہوا کہ وہ کیا چاہتے تھے۔ یہ سب قومی مفاد کے نام پر اپنی بات کرتے رہے ہیں، ہمارے ہاں قومی مفاد کے نام پر نجانے کیا کیا کچھ نہیں ہوا، سیاسی جماعتیں توڑی گئیں اور نئی سیاسی جماعتیں بنائی گئیں، یہ سب کچھ قومی مفاد کے نام پر ہوا، بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد قائم ہوا تو قومی مفاد میں، یہ ٹوٹا تو بھی قومی مفاد میں، یہ لوگ حکومت میں شامل ہوئے تو قومی مفاد میں، الگ ہوئے تو یہ فیصلہ بھی قومی مفاد میں ہوا۔ جن لوگوں نے کہا کہ بھٹو کو کوہالہ کے پل پر لٹکائیں گے وہی لوگ بعد میں پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد میں شامل ہوئے، آئی جے آئی بنی قومی مفاد میں ہے یہ ٹوٹی بھی قومی مفاد میں، پاکستان کی سیاسی مارکیٹ میں سب کچھ مل رہا ہے، مگر استحکام، ملکی معیشت کی ترقی، عوام کی سماجی بھلائی، انصاف، روزگار، تحفظ نہیں مل رہا، پولیس نے امن وامان بہتر کرنے کا حل یہ نکال لیا ہے کہ چوری، راہ زنی، پلاٹوں، دکانوں اور حتیٰ کہ گھروں پر قبضوں کے جرائم کی رپٹ ہی درج نہیں کی جاتی، سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ بھی قومی مفاد میں ہورہا ہے۔
سیاسی جماعتیں عوام کو اپنے پروگرام پر منظم کرتی ہیں، یہ پروگرام آئین کی وفاداری، سیاست میں شرافت اور ریاست سے وفا پر مبنی ہوتا ہے مگر جب اس ملک میں 1973 کا آئین بنا، تو آئین نافذ ہوتے ہی اس کی متعدد شقیں معطل کردی گئیں، آئین میں اٹھویں ترمیم ہوئی، پھر یہ ترامیم بڑھتے بڑھتے اکسیویں ترمیم تک جاپہنچی ہیں، یہ سب کچھ قومی مفاد میں ہوا، آئین میں اٹھارویں ترمیم آئی، اس ترمیم کے لیے سوچ بچار کا فریضہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہوا، اس پارلیمانی کمیٹی کے ہر رکن کو صدر پاکستان نے ان کی بہترین قومی خدمات پر صدارتی ایوارڈ دیے، مگر ایک سال کے اندر اندر ہی اس ترمیم میں سقم سامنے آئے اور سقم دور کرنے کے لیے مزید تین ترامیم کرنا پڑیں۔
قومی مفاد کے نام پر ایک بار پھر آئین میں ترمیم کا شور اٹھ رہا ہے عمران حکومت اٹھارویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کو تیار ہے وفاق اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کی بابت 2010 سے قومی مالیاتی کمیشن کی بدولت جو بندوبست قائم تھا اس سے گریز کے ارادے ہیں اور ہدف شاید پارلیمانی نظام ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کا مسودہ جب قوم کے سامنے رکھا تو ٹی وی پر خطاب کیا، ان کے خطاب میں ایک جملہ یہ بھی تھا کہ ’’وزیر اعظم بہت طاقت ور تھے ان کے پاس اختیارات نے عدم توازن پیدا کیا اور صدر مملکت کے پاس اختیارات نہیں تھے لہٰذا قوم کو سیاسی بحران دیکھنا پڑا اب آئین میں ترمیم ہونی چاہیے اور صدر کو بھی اختیارات ملنے چاہییں‘‘۔ پھر آٹھویں ترمیم لائی گئی، صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات میں توازن پیدا کردیا گیا، یہ توازن29 مئی 1988 کو ملک کی پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوگیا، صدر نے آئین کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں اور حکومت گھر بھیج دیا، یہ کام بھی قومی مفاد میں ہوا، اس کے چند ماہ بعد صدر مملکت اپنے انتیس ساتھیوں سمیت جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے، اس حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آسکی اور قومی مفاد کے غلاف میں لپیٹ پر رکھ دی گئی ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ اچھی حکومت کے لیے عوام کے ووٹوں سے منتخب لوگ نہیں بلکہ ماہرین چاہییں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ٹیکنوکریٹ ہوں اور ووٹوں کے محتاج نہ ہوں بس یہی ان کا میرٹ ہے، خیال یہ ہے کہ یہ معاملا ہی ختم کردیا کہ جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ ’’چاول جس کے مرضی کھائیں مگر ووٹ مجھے ہی دیں،، جو لوگ ٹیکنو کریٹس تلاش کر رہے ہیں یہ بھول رہے ہیں اس ملک میں راجا ظفر الحق، رضا ربانی، فاروق ایچ نائیک، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور سید نوید قمر، حماد اظہر سمیت بہت
سارے لوگ ویسے ہی تعلیم یافتہ ہیں جن کی تلاش ہے، اس ملک کو حفیظ شیخ، شوکت عزیز، محبوب الحق، ڈاکٹر عشرت جیسے لوگوں سے نہیں چلایا جاسکتا، ابھی حال ہی میں ملک میں ٹڈی دل حملہ آور ہوئے اور لاکھوں ایکٹر اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ کرنے کا باعث بنے ہیں، کیا یہ مثال ہمارے لیے سبق حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں حکومت کے اٹھارویں ترمیم کے بارے میں اصل ارادے برسرعام آگئے اس ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کی ابتداء بیرسٹر محمد علی سیف کے ذریعے ہورہی ہے، محمد علی سیف میرے ذاتی دوست ہیں، اسلامی جمیعت طلبہ کے تربیت یافتہ ہیں یہ سیاسی اُفق پر کن مراحل کے بعد نمایاں ہوئے، بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ محمد علی درانی غلطیاں نہ کرتے تو شاید محمد علی سیف بھی سیاست میں نہ آتے، یوں سمجھ لیں کہ قومی مفاد ہی میں سیاست میں آئے اب انہوں نے سینیٹ میں ایک ترمیم پیش کی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 160کی ضمنی شق (3-A)کو ختم کردیا جائے۔ اس شق کے مطابق یہ طے کردیا گیا ہے کہ کسی مالیاتی سال کے دوران صوبوں کے لیے رقوم مختص کرتے وقت اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ گزشتہ برس صوبوں کے لیے جو حصہ مختص کیا گیا تھا اس میں کسی صورت کمی نہیں ہوگی۔ سیف صاحب کا ارادہ تھا کہ اس شق کو ختم کردیا جائے محمد علی سیف ذہین شخص ہیں تحریک انصاف میں کوئی ایک بھی نہیں جو انہیں ان کے ارادے سے باز رکھ سکے۔