بھارتی جاسوس پر حکومت کی مہربانیاں

516

کشمیریوں کے قاتل، بہار و گجرات اور پورے بھارت کے مسلمانوں کے قاتل بھارتی حکمرانوں کے جاسوس کلبھوشن یادو پر عمران خان نیازی حکومت کی خصوصوی نوازش کے تحت اسے دوسری بار قونصلر رسائی دے دی گئی اور اس رسائی میں عجیب و غریب نخرے بھی کیے گئے، جنہیں دفتر خارجہ کے مطابق پورا کیاگیا۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق سینئربھارتی سفارتکاروں کو رسائی ویانا کنونشن کے مطابق دی گئی عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر من و عن عمل کیا گیا۔ لیکن یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں جتنا دفتر خارجہ بتا رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے بارے میں پاکستانی حکمرانوں افواج اور اسٹیبلشمنٹ نے قوم کو ہمیشہ یہی بتایا کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے۔ اس نے کبھی پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس ملک کے جاسوس کے ساتھ اس قدر مہربانیاں کیوں کی جارہی ہیں۔ دوسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے پر جب بھارتی سفارتکار ملاقات کے لیے پہنچے تو انہوں نے کچھ اعتراض کیے کلبھوشن اور اپنے درمیان شیشے کی دیوار پر انہیں اعتراض تھا۔ وہ ہٹا دی گئی، پھر آڈیو وڈیو ریکارڈنگ پر اعتراض کیا گیا، اسے بھی ختم کر دیا گیا لیکن بھارتی سفارتکار اٹھ کر چلے گئے۔ اس رویے کا مقصدصرف یہ لگ رہا تھا کہ پاکستان کو دبائو میں لایا جائے اور بھارت کے سامنے پہلے سے دبائو کا شکار پاکستانی حکام مزید دبائو میں آگئے اور انہوں نے پاکستان کے خلاف جاسوسی کا کھلم کھلا اعتراف کرنے والے بھارتی جاسوس کو پھر قونصلر رسائی دے دی ہے۔ اب تیسری بار میں کیا رعایت دی جائے گی اس کا پتا نہیں ہو سکتا ہے کہ اسے بھارت لے جاکر بات کرنے کی سہولت دی جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان دشمن جاسوس کے لیے ویانا کنونشن کے نام پر اس قدر مہربانیاں کیوں ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کسی نئے آرڈیننس کا ذکر کیا ہے جو خفیہ ہے۔ ایسے کسی آرڈیننس کی تصدیق تو نہیں ہوئی لیکن حکومت کے پراسرار رویے سے اب پتا لگ رہا ہے کہ کوئی خفیہ دبائو ہے یا پاکستانی وزیراعظم اور طاقتور شخصیات کسی قوت کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر تو الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن کام تو بڑے مشتبہ انداز میں ہورہے ہیں۔ کسی خفیہ مقام پر رہائی اور ملاقات کا اہتمام کیا ویانا کنونشن میں بین الاقوامی مبصرین کے بغیر ملاقات کا ذکر ہے۔ یا جو احوال ویانا کنونشن میں درج ہیں وہ سب پر لاگو ہونے چاہییں اسی طرح جس طرح کلبھوشن کے وکیلوں یا سفارتکاروں اور گھر والوں سے ملاقات کرائی گئی۔ کیا پاکستان میں لاپتا ہونے والوں کے گھر والوں پر ان کے ورثا اور وکیلوں پر ویانا کنونشن اور عالمی قوانین لاگو نہیں ہوتے ان کے نخرے تو دود کی بات سے دہائی بھی نہیں سنی جاتی۔ یہاں موازنہ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ دونوں پر ایک ہی الزام ہے ریاست پاکستان کے خلاف کام کرنا۔ ایک کی شہریت بھارت کی ہے دوسرے کی پاکستانی۔ تو پاکستانی کو ان حقوق سے کیوں محروم کیا جارہا ہے ۔ جن کا مستحق مستند پاکستان دشمن ملک کا جاسوس ہے اور دوسری طرف کسی مسئلے پر ناراض پاکستانی ہیں جن پر پاکستان کے خلاف کام کرنے کا الزام ہے اس لیے وہ لاپتا کر دیے گئے ہیں۔ تو ان کو کیوں یہ سہولتیں نہیں دی جارہی ۔ دوسری مرتبہ کلبھوشن کو رسائی دینے کا معاملہ اس قدر خفیہ کیوں رکھا گیا۔ اس بات کی تحقیق تو ہونی چاہیے کہ کیا ویانا کنونشن رسائی کے معاملات کو خفیہ رکھنے کی بھی ہدایت کرتا ہے اور اس خفیہ مقام کو کس کے حکم سے کب سب جیل قرار دیا گیا تھا۔ کلبھوشن کی سطح کے جاسوس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اور واپس پہنچانا بھی خطرے سے خالی نہیں پاکستانی سیکورٹی حکام اپنی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہیں جو اہم دفاعی تنصیبات کا تحفظ نہیں کر سکے اگر کلبھوشن کی قیام گاہ کی نشاندہی ہو گئی اور کسی وقت اس کو نشانہ بنا دیا جائے تو کس کو الزام دیا جائے گا۔ پاکستانی حکام معاملات کو صاف اور سیدھا کیوں نہیں رکھتے خفیہ خفیہ کاموں کے نتیجے میں ایسے ہی الزامات لگتے ہیں جیسے بلاول نے لگائے ہیں۔ یقینا کہیں نہ کہیں رائی تو ہوگی جس کا پہاڑ بنتا ہے۔ پاکستانی حکمران بھارت کے سامنے بھیگی بلی بننے کے بجائے کلبھوشن کے بارے میں پاکستانی عدالت کے فیصلے پر عمل کریں۔ کوئی جاسوس پاکستان میں پکڑا جائے اعتراف کرے مقدمہ اس کے خلاف ثابت ہو جائے تو پھر کسی قسم کی رعایت کا کوئی جواز نہیں۔ کیا پاکستان میں دہشت گردی کو عالمی عدالت انصاف جائز قرار دیتی ہے جو ہم کلبھوشن کے معاملے میں اس کے پابند رہیں۔