’’مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘

412

کہا جاتا ہے کہ شاعر محبت کے روگی ہوتے ہیں انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ
کروں گا کیا جو ’’محبت‘‘ میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
کچھ یہی معاملہ سیاستدانوں کا بھی ہے، اگر مندرجہ بالا شعر میں محبت کو ’’سیاست‘‘ سے بدل دیا جائے تو یہ شعر ان پر پوری طرح صادق آتا ہے۔
کروں گا کیا جو ’’سیاست‘‘ میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ماضی میں ہمارے سیاستدان خود کو ناکامی سے بچانے کے لیے اپنی جائداد بیچ کر سیاست کرتے رہے کہ اس کے علاوہ انہیں کوئی اور کام آتا ہی نہ تھا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جنہوں نے اپنے آم کے باغات سیاست کی نذر کردیے تھے، یہاں تک کہ ہر سال دوستوں کو آم کے تحائف بھیجنے کے لیے بھی کوئی باغ باقی نہیں بچا تھا۔ میاں ممتاز دولتانہ کا بھی پنجاب کی سیاست میں بڑا شہرہ رہا ہے۔ وہ پنجاب میں برسر اقتدار بھی رہے لیکن بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ کمانے کے بجائے اپنی ساری جاگیر سیاست کے اندھے کنوئیں میں ڈبو دی۔ پھر ان سیاستدانوں کے بعد ایک ایسی کھیپ سامنے آئی، جنہوں نے سیاست کو دولت کمانے کا ذریعہ بنالیا۔ سیاست ان کا پیشہ اور کاروبار بن گئی۔ وہ اس کے ذریعے اپنی دولت کے ڈھیر لگاتے چلے گئے، ملک غریب اور مقروض ہوتا گیا اور وہ امیر سے امیر تر اور امیر ترین ہوتے گئے۔ ان سیاستدانوں میں سے ایک خاندان نے پنجاب میں تیس پینتیس سال حکومت کی اور وفاق میں بھی اس کی باری لگتی رہی، اس نے جی بھر کے دولت جمع کی۔ بالآخر قدرت ملک پر مہربان ہوئی اور یہ خاندان پاناما لیکس کے شکنجے میں آکر دربدر ہوگیا۔ خاندان کا سربراہ عدالت سے سیاست کے لیے نااہل ہو کر علاج کے بہانے لندن میں منہ چھپائے بیٹھا ہے اور فی الحال اس کی پاکستان واپسی محال نظر آتی ہے۔ خاندان کے جو افراد پاکستان میں ہیں وہ بھی مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ بھی اُڑ کر لندن پہنچ جائیں اور وہاں سے سیاست سیاست کھیلتے رہیں کہ پاکستان میں یہ کھیل اب ان کے لیے دشوار تر ہوگیا ہے۔ سیاست کے ذریعے ایک اور خاندان نے بھی بے تحاشا دولت جمع کی ہے اور قومی وسائل کی لوٹ مار میں ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا ہے جسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ اگرچہ یہ خاندان بھی مکافاتِ عمل کی زد میں آیا ہوا ہے لیکن سندھ پر اس کے مسلسل قبضے کے سبب اس کے خلاف کوئی احتساب ابھی تک کارگر ثابت نہیں ہوسکا۔ وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ سیاست سیاست کھیل رہا ہے۔ حتیٰ کہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ اس کے گٹھ جوڑ کی جے آئی ٹی رپورٹ بھی ابھی تک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
ایسے میں ایک صاحب جنہوں نے کرکٹ میں اپنی فتح مندی کا جھنڈا گاڑنے کے بعد بائیس سال تک سیاست کا بھاڑ جھونکا تھا اور بڑی استقامت کے ساتھ تبدیلی کا نعرہ بلند کیا تھا، اِن دنوں اقتدار کے تخت پر براجمان ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ گر قوتوں نے انہیں اس لیے آزمانے کا فیصلہ کیا تھا کہ باقی سارے مہرے پٹ چکے تھے اور عوام میں ان کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہی تھی۔ اِن صاحب کو ایک تیسری قوت کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا تھا اور اقتدار انہیں طشتری میں رکھ کر پیش کیا گیا تھا تا کہ وہ آتے ہی ملک کی تقدیر بدل دیں یا کم از کم ملک میں خوشگوار تبدیلی کا آغاز کریں۔ اس طرح جمہوریت کی لاج رہ جائے گی اور پسِ پردہ قوتوں کا اعتماد بھی بحال ہوگا لیکن یہ نیا لیڈر بھی اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے کسی مزاحمت کے بغیر خود کو خوشامدیوں کے سپرد کردیا۔ جنہوں نے اس سے ہر وہ کام کرایا جن کی وہ اقتدار میں آنے سے پہلے مذمت کیا کرتا تھا۔ اس نے ایک بڑی کابینہ کے علاوہ اپنے دوستوں پر مشتمل مشیرون اور معاونین خصوصی کی ایک فوج ظفر موج بھرتی کرلی جو کابینہ کو نظر انداز کرکے من مانی کرنے لگے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اقتدار کے ٹولے میں باہمی محاذ آرائی شروع ہوگئی۔ یہ محاذ آرائی باقاعدہ خبروں کا موضوع بننے لگی۔ نئے لیڈر کا دعویٰ تھا کہ وہ ملکی معیشت کو چٹکی بجاتے ہی ٹھیک کردے گا۔ چٹکی اس نے ضرور بجائی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان براہِ راست آئی ایم ایف کی تحویل میں چلا گیا اور پاکستانی روپے کی بے قدری اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ آٹا، چینی، پٹرول، گیس اور بجلی کا بحران روز کا معمول بن گیا۔ نئے لیڈر کا دعویٰ تھا کہ وہ کسی کرپشن مافیا کو نہیں چھوڑے گا لیکن ہوا یہ کہ کرپشن مافیاز کے گماشتوں نے اس کے گرد گھیرا ڈال کر اسے اپنا ہی تھوکا چاٹنے پر مجبور کردیا۔ وہ اپنی کمزور اور بے سمت پالیسی کے سبب کسی مافیا کو ٹھکانے نہ لگا سکا بلکہ یہ مافیاز اس کی چھتری تلے اور مضبوط ہوگئے۔
اب سیاست کے ایوانوں میں مائنس ون کی باتیں ہورہی ہیں۔ حضرت مولانا بھی متحرک ہو گئے ہیں جنہوں نے اپنے دھرنے کے ذریعے حکومت کی چُولیں ہلادی تھیں، ان کا واحد مطالبہ مائنس ون ہی تھا لیکن پھر وہ اپنا دھرنا ختم کرکے پُراسرار طور پر واپس چلے گئے اور ان کا مطالبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اب انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ مارچ میں ان کا مطالبہ پورا ہوجائے گا لیکن اس یقین دہانی کو مزید چار مہینے گزر گئے ہیں ابھی تک اس مطالبے کے پورا ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ اپوزیشن جماعتیں حضرت مولانا کے اس مطالبے کی حامی ضرور ہیں لیکن ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کئی اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کرچکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بیش تر اپوزیشن لیڈر اس وقت قرنطینہ میں ہیں وہ مائنس ون یا مائنس آل کے حق میں کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ برسراقتدار لیڈر کی کارکردگی خود اس کی مضبوط اپوزیشن بن گئی ہے وہ اگر مائنس ہوا تو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہوگا ورنہ اپوزیشن جماعتوں میں اسے ہٹانے کا حوصلہ نہیں ہے۔ خود اسے بھی اس صورت حال کا احساس ہے لیکن اس کا کہنا بھی یہی ہے کہ
کروں گا کیا جو سیاست میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اب یہ مقتدرہ کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کے لیے کس کام کا بندوبست کرے تا کہ وہ سیاست میں ناکامی کے بعد اپنی گزر اوقات کرسکے۔ آخر اس کے حریف سیاست میں ہوتے ہوئے کتنے ہی سائیڈ بزنس چلارہے ہیں اس کے لیے سائیڈ بزنس کیوں نہیں؟ کچھ نہیں تو اسے پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین ہی بنادیا جائے۔