ملٹی پولر ورلڈ آرڈر ’’نیا راگ ہے ساز بدلے گئے‘‘

423

وقت کا منصف بہت تیزی سے اپنے فیصلے سنا رہا ہے۔ چند برس پہلے کی بہت سی ملفوف حقیقتیں اب عیاں ہو کر سامنے آرہی ہیں۔ ان میں سات پردوں میں چھپی ایک حقیقت یہ تھی کہ گزشتہ دو عشروں میں رونما ہونے والے نوے فی صد واقعات کا تعلق سردجنگ کے بعد اُبھرنے والے طاقت کے نئے مراکز سے تھا۔ اس وقت قائم ورلڈ آرڈر میں تبدیلی کی خواہشات اور کوششوں سے تھا۔ یونی پولر ورلڈ آرڈر کو ملٹی پولر بنانے کی کوششوں اور ان کوششوں کو روکنے نے ایک کشمکش کی سی کیفیت پیدا کر رکھی تھی۔ ایشیا اس کشمکش کا محور تھا کیونکہ یونی پولر نظام کو چیلنج کرنے والی قوت عوامی جمہوریہ چین کی صورت میں اسی خطے میں اُبھر رہی تھی اور اسی خطے میں ایسی اسکیم بنانا مقصود تھا کہ چین حالات اور جغرافیے کی بند گلی میں پھنس کررہ جائے۔ اس ماحول میں پاکستان اس خطے میں چین کے لیے تازہ ہوا میں سانس لینے کی واحد کھڑکی اور آخری دریچہ تھا۔ مغربی دنیا نے اس تعلق کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان چین کا ’’اسرائیل‘‘ ہے تو چین کے ایک سفیر نے اعتماد سے کہا تھا کہ آپ ایسا ہی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکا اور بھارت نے نائن الیون کے بعد فروغ پانے والے یارانے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ’’پاکستان‘‘ نام کا ایک سینڈ بیگ دریافت کرلیا تھا اور دہشت گردی سمیت دنیا کی ہر خرابی کا ڈھول اس کے گلے میں لٹکایا گیا تھا اور پاکستان کو عالمی بدنامی اور تنہائی کے کٹہرے میں کھڑا کیا تھا۔ پاکستان کوکھلے بندوں دہشت گرد قرار دینا یا دہشت گردی سے منسوب کرنا عالمی سیاست دانوں کے لیے فیشن سا ہو کر رہ گیا ہے۔ ان حالات میں چین نے پاکستان کو اوونر شپ دے کر اسے تنہائیوں کی طرف جانے سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان کو چین سے کاٹ کر بھارت کی دم کے ساتھ باندھنے کی کوششیں زوروں پر تھیں اور جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان ہی نہیں سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان، نیپال، بنگلا دیش حتیٰ کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بھی امریکا اور چین کے درمیان کھچائو سے مقامی سیاست متاثر ہو رہی تھی۔ یہ حقیقت میں امریکا اور چین کی نہیں چین اور بھارت کی کشمکش تھی اور بھارت کو زبردستی ہاتھ پائوں باندھ کر چین جیسے طاقتور ریسلر کے آگے پھینک دیا گیا تھا۔ پاکستان کے بعد افغانستان اور ایران اس نئی صورت حال میں علاقائی ممالک کی حیثیت سے قابل ذکر تھے۔ افغانستان کو دبوچ کر علاقے میں چین مخالف اسکیم میں شامل رکھا۔ چند برس قبل جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اچانک کابل کے ہنگامی دورے پر پہنچے تو اس دورے کو سفارتی زبان میں خیر سگالی اور رویتی اصطلاحات میں بیان کیے۔ یوسف رضا گیلانی واپس لوٹے تو کابل کے حکمرانوں نے ان کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم ہمیں چین کی حمایت پر آمادہ کرنے آئے تھے۔
افغانستان کا معاملہ تو یہ تھا اور ایران اور پاکستان کے درمیان اتنی دوریاں پیدا کی گئیں کہ ایران نے امریکا کی چیرہ دستیاں بھول بھلا کر خطے میں امریکا کی چین مخالف پراکسی بھارت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 2003 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان چاہ بہار زاہدان ریلوے لائن کے منصوبے پر دستخط ہوئے، سترہ برس ایران نے ایک موہوم امید پر بھارت کے خوب ناز اُٹھائے۔ علاقے کے لیے بنائی گئی عالمی اسکیم میں ایران کا بھارت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تھا کیونکہ امریکا بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کررہا تھا اور ایران کے لیے چین یا بھارت میں کوئی ایک چوائس ہی باقی تھی۔ امریکا کے ساتھ مستقل آویزش کا حامل اور امریکی پابندیوں کا شکار ایران بھارت کے ساتھ ایک جبری رشتہ نبھارہا تھا۔ خود بھارت کے پلاسٹک کے گھوڑے میں امریکیوں نے وہ ہوا بھر دی تھی کہ اسے امریکا کے سوا کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ بھارت سے تعلقات جہاں ایران کے لیے دوراہا تھا وہیں ایران سے تعلقات بھی بھارت کے لیے مخمصے سے کم نہیں تھے۔ چاہ بہار بندرگاہ کو سی پیک کا متوازی سمجھا جاتا رہا جبکہ خود ایران نے متعدد بار اس موقف کا اعادہ کیا کہ گوادر اور چاہ بہار کو جڑواں پورٹس یعنی مخاصم کے بجائے معاون منصوبوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اس منصوبے میں بھارت کا کلیدی کردار ہمیشہ سے کئی مسائل کا باعث بنتا رہا۔
ایران امریکا کا معتوب اور بھارت محبوب بنتا چلا گیا اس تضاد کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ کے معاملے میں ایران اور بھارت کا تعاون آگے بڑھتا نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں جب امریکا ایران کے بارے میں اپنا رویہ بدلنے کو تیار تھا اور نہ بھارت چین کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی لانے پر آمادہ تھا۔ آخر کار سترہ برس تک تعلقات کی سربریدہ لاش کو اُٹھائے اُٹھائے پھرنے والے ایران نے پٹخ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ایران نے یہ فیصلہ عین اس وقت کیا جب وہ چین کے ساتھ
پچیس سالہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ ہورہا ہے۔ یہ تعاون دفاع، توانائی، معیشت، لاجسٹک، بینکنگ سمیت ہر شعبے پر محیط ہوگا۔ افغانستان سے رخصت ہوتے ہوئے امریکا کے لیے چین کے ساتھ ایران کی یہ قربتیں حد درجہ بے چینی کا باعث ہیں۔ افغانستان سے امریکا بھارت کے لیے اپنے اندر ’’داغِ یتیمی‘‘ لیے ہوئے ہے کیونکہ بھارت نے دو عشروں تک افغانستان میں جو کیا امریکا کی چھتری تلے کیا۔ ایران اور چین کی قربت کو خود بھارت کے تجزیہ نگار مودی کی حماقت کہہ رہے ہیں اور اس تعلق کو نئے ورلڈ آرڈر کے حوالے سے گیم چینجر کہا جا رہا ہے۔ وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ مودی کی امریکا نوازی نے ایران جیسے دوست کو گنوادیا ہے۔ چین اور ایران کے پچیس سالہ معاہدے کو امریکا سینٹرک ورلڈ آرڈر کی آخری ہچکیوں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ اسے چین کے کلیدی کردار کے حامل ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ایک نئی جست قرار دیا جارہا ہے۔ وقت بتائے گا کہ پاکستان نے دنیا کا یہ منظر بدلنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ زمانے بھر کی بدنامیوں کو مول لے کر اپنا گھیرا توڑا ہے۔ وگرنہ تو ’’مہربانوں‘‘ کی فائلوں میں 2013 اور 2015 سے آگے پاکستان نام کا کوئی نقشہ اور نام بھی موجود نہیں تھا۔ وقت نے دیکھا کہ پاکستان کے راستے میں بچھائی گئی بارودی سرنگیں پھٹتی تو چلی گئیں اور اب تک پھٹتی جا رہی ہیں مگر وہ اپنا اصل ہدف حاصل نہ کر سکیں اور اب تو ان کے مہربان بھی اپنا اپنا پاندان اُٹھائے واپسی کی راہوں پر گامزن ہو چکے ہیں۔ آج کے مناظر کے بارے میں ہی دانائے راز علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ زمانے کے انداز بدلے گئے، نیا راگ ہے ساز بدلے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی نگاہ دوربین چند مصرعوں کے بعد آج کا منظر بھی یوں بیان کیا تھا کہ گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں، ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے ہیں۔