لاک اوپن پالیسی کب شروع ہوگی

313

پاکستان میں لاک ڈائون کے بعد لاک اوپن کے بارے میں کچھ سوچا بھی جا رہا ہے یا نہیں۔ اسکول مالکان احتجاج کر رہے ہیں، دکاندار احتجاج کر رہے ہیں۔ چیمبر آف کامرس والے، صنعتکار، چھوٹے دکاندار، ٹھیلے والے، سب احتجاج کر رہے ہیں۔ اب آل پاکستان انجمن تاجران کی جانب سے لاہور سے چلنے والی 600 گاڑیوں پر مشتمل ریلی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 31 جولائی تک کاروبار کھول دیا جائے۔ معاملہ صرف کاروبار کا نہیں ہے ہر چیز بند ہے۔ حکمرانوں نے لاک ڈائون کے لفظ کا نہایت غلط استعمال کیا ہے۔ دُنیا بھر میں لاک ڈائون کی کوئی نہ کوئی اور کوئی نہ کوئی اصول وضع کیا گیا تھا اور اس اصول کے مطابق ساری دُنیا میں اسکول، کالجز، کاروبار، پارک، اسپتال، مارکیٹیں وغیرہ رفتہ رفتہ کھولی گئیں۔ جہاں محسوس ہوا کہ اس کا نقصان ہو رہا ہے وہاں دوبارہ لاک ڈائون یا پابندیاں لگا دی گئیں لیکن امریکا اور جرمنی میں اس حوالے سے احتجاج بھی ہوا۔ اب پاکستان میں بھی لوگوں کو مظاہرے کرنے پڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت خود کوئی فیصلہ کیوں نہیں کرتی۔ ہر شعبے کو احتجاج اور مظاہرے کیوں کرنے پڑتے ہیں۔ مساجد میں غیر شرعی پابندیاں مسلسل چل رہی ہیں۔ علما کو بھی نوٹس لینا چاہیے اور نظرثانی کرنی چاہیے۔ حکومت بھی دیکھے کہ 21 رمضان کے جلوسوں میں شرکت سے کتنے افراد بیمار ہوئے۔ اگر نہیں ہوئے تو فرض نمازوں میں پابندیاں کیوں۔ صفوں میں نمازیوں کے درمیان فاصلہ ہے لیکن چھ فٹ یا دس فٹ کے گیٹ سے بیک وقت درجنوں نمازی واپس باہر نکلتے ہیں۔ بازاروں میں بھی ایسا ہی رش رہتا ہے۔ اب آل پاکستان انجمن تاجران کے جلوس کو زیرو پوائنٹ پر روک دیا گیا۔ لیکن کیا حکومت اور ادارے اسی طرح ایک دوسرے سے الجھتے رہیں گے۔ یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ ہر شعبے کو اعتماد میں لے۔ ان کو بتائے کہ آپ کے شعبے میں کب تک لاک کھولنے کی پالیسی پر عمل درآمد ہو سکے گا اور اگر لاک ڈائون ختم نہیں ہو رہا تو کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ ابھی اسکولوں کے مالکان کو ستمبر میں اسکول کھولنے کا لالی پاپ دے کر خاموش کرا دیا گیا ہے لیکن اگست میں اس سے یوٹرن بھی لیا جا سکتا ہے۔ تعلیم، کاروبار وغیرہ اور قومی صنعتیں ملکی معیشت کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہیں صرف زمینوں پر فصل کی کٹائی اہم نہیں ہوتی۔