بندگی تواضع اور عَجز وانکسار کا نام ہے، اس کی ضد تکبر واِستکبار ہے، یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا۔ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا اِترانا، اکڑ کر چلنا، شیخی بگھارنا اور خودستائی کرنا پسند نہیں ہے۔ کبریائی کی صفت صرف اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں اس کی صفت ’’اَلْمُتَکَبِّر‘‘ آئی، علامہ اقبال نے کہا ہے:
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کبریائی میری رِدائے (الوہیت) ہے اور عظمت میری اِزار ہے، پس جو ان صفات میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اُسے جہنم میں ڈالوں گا، (ابن ماجہ)‘‘۔
ابواُمیّہ شعبانی بیان کرتے ہیں: میں ابوثعلبہ خُشَنی کے پاس آیا اور میں نے اُن سے کہا: اس آیت کا آپ کیا کرو گے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے مومنو! اپنی فکر کرو، اگر تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی (سائل کو شبہ تھا کہ امت کی ذمے داری تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے، ہمیں تو پوری انسانیت کو بچانے کی تدبیر کرنا ہے اور آیت کا ظاہری مفہوم یہ پیغام دے رہا ہے: ’’تجھ کو پرائے کی کیا پڑی ہے اپنی پروا کر‘‘)، انہوں نے جواب دیا: میں نے اس کی بابت سب سے بڑی باخبر شخصیت یعنی رسول اللہؐ سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا: بلکہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے رہو حتیٰ کہ ایسا وقت آجائے کہ تم دیکھو کمینے کا حکم مانا جارہا ہے، خواہشات کی پیروی کی جارہی ہے، دنیا کو ترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے (تو یہ مشکل وقت ہے، پس ایسے وقت میں) اپنی نجات کی فکر کرو اور عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ اب تمہارے پیچھے ایسے مشکل دن ہیں کہ گویا آگ کی چنگاری کو مٹھی میں لینا، ایسے ایام میں جو خیر پر قائم رہے گا، اُسے اُن پچاس افراد کے برابر اجر ملے گا جو تم جیسا کام کریں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عرض کیا گیا: یارسول اللہ! اُس دور کے پچاس افراد کے برابر یا ہمارے پچاس افراد کے برابر، آپؐ نے فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر، (سنن ترمذی)‘‘۔
الغرض جب انسان اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنے لگے تو دلیل واستدلال کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے، وہاں ضد اور ہٹ دھرمی آجاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جب اُس سے کہا جائے: اللہ سے ڈرو تو پندارِ نفس اُسے گناہ پر ابھارتا ہے، تو اس کے لیے جہنم کافی ہے اور ضرور وہ بہت برا ٹھکانا ہے، (البقرہ: 206)‘‘۔ ’’عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: جو کلام اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے، وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے: ’’اللہ سے ڈرو‘‘ اور وہ جواب میں کہے: جا اپنا کام کر، (شُعب الایمان) اور ایک روایت میں ہے: ’’وہ غضب ناک ہوجائے، (المعجم الکبیر)‘‘، کسی نے کہا ہے:
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، ایک شخص نے عرض کی: ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو، اس کے جوتے اچھے ہوں (کیا یہ بھی تکبر ہے)، آپؐ نے فرمایا: بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر کے معنی ہیں: حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا، (سنن ترمذی)‘‘۔
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
’’کِبر‘‘ اُس نفسانی کیفیت کو کہتے ہیں کہ جس کے سبب انسان اپنے آپ پر تفاخر کرتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتا ہے اور سب سے بڑا تکبر، اللہ پر تکبر ہے جو بندے کے لیے قبولِ حق اور استحقاقِ عبادت میں رکاوٹ بن جائے، استکبار دو وجہ سے ہوتا ہے: ایک یہ کہ انسان اس تگ ودو میں رہے کہ وہ (اپنی قابلیت سے) بڑا بن جائے، یہ خصلت پسندیدہ ہے اور دوسرا یہ کہ انسان شکم سیر ہو اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے، یہ خصلت مذموم ہے، (المفردات فی غریب القرآن)‘‘۔
امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں:
’’وہ تکبر کرتے ہیں‘‘: اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مخلوقات میں بہترین سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جو استحقاق حاصل ہے، وہ دوسروں کو نہیں ہے اور تکبر کی یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے سزاوار ہے، کیونکہ وہی قدرت والا ہے اور اُسی کو وہ فضیلت حاصل ہے جو کسی اور کو نہیں، پس تکبر اُسی کے شایانِ شان ہے اور بعض نے کہا: تکبر اپنے غیر پر بڑائی کا اظہار کرنا ہے اور تکبر کی صفت بندوں کے لیے مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے یہ صفتِ مدح ہے، کیونکہ وہی اس کے اظہار کا حق دار ہے نہ کہ کوئی اور، لہٰذا یہ اسی کی ذات کے لیے حق ہے اور اس کے غیر کے لیے باطل ہے، (تفسیر کبیر)‘‘۔
تکبر قبولِ حق میں رکاوٹ بن جاتا ہے، تکبر ہی کے سبب شیطان نے حق کا انکار کیا اور تاقیامت راندۂ درگاہ ہوا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس وقت کو یاد کیجیے جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں، پس جب اس کی تخلیق مکمل کرلوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گر جانا، پس ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے (آدمؑ کی طرف رُخ کر کے) سجدہ کیا، اس نے تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے تھا، اللہ نے فرمایا: ابلیس! جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، اس کے سامنے سجدہ کرنے سے تجھے کس نے روکا، کیا تو نے خود تکبر کیا یا تو پہلے ہی سے تکبر کرنے والے گروہ میں سے تھا، کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اُسے مٹی سے، فرمایا: جنت سے نکل جا کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہے اور بے شک تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے، (ص: 71-78)‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبر شیطان کے لیے قبولِ حق سے رکاوٹ بنا اور اس نے اللہ کے حکم کو ردّ کرنے کے لیے عقلی دلیل کا سہارا لیا اور کہا کہ میرا جوہرِ تخلیق آدم سے افضل ہے، تو میں کیسے اس کے آگے سجدہ ریز ہوجائوں، اسے عقل تسلیم نہیں کرتی۔ دراصل عقلِ عیّار انسان کو ہدایت سے محروم کردیتی ہے، آپ تاریخِ انسانیت کا مطالعہ کریں، جتنے ائمۂ ضلالت گزرے ہیں، وہ اپنے اپنے دور کے عُقلا اور فلاسفہ تھے، جُہلا نہیں تھے۔ سو قبولِ حق کے لیے عقلِ محض کافی نہیں ہے، عقلِ سلیم درکار ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
عقل عیّار ہے، سَو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ، نہ مُلّا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر متکبر اور جابر کی مذمت فرمائی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’(۱) ’’اور ازراہِ تکبر لوگوں سے روگردانی نہ کر اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک اللہ کسی اکڑنے والے متکبر کو پسند نہیں کرتا، (لقمان: 18)‘‘، (۲) ’’اِسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر جبارکے دل پر مہر لگادیتا ہے، (المؤمن: 35)‘‘، ’’(۳) ’’اور موسیٰؑ نے کہا: میں ہر اُس متکبر سے، جو روزِ حساب پر ایمان نہیں لاتا، اپنے ربّ اور تمہارے ربّ کی پناہ میں آتا ہوں، (المؤمن: 27)‘‘۔ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ساری سرکش اقوام جنہوں نے حق کو ردّ کیا، اس کا سبب تکبر ہی تھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۱) ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا (ان سے کہا جائے گا:) کیا تمہارے پاس میری آیتیں نہیں پڑھی جاتی تھیں، پس تم نے تکبر کیا اور تم مجرم لوگ تھے، (الجاثیہ: 31)‘‘، (۲) ’’اور جس دن کافروں کو جہنم کی آگ کے سامنے پیش کیا جائے گا (تو اُن سے کہا جائے گا:) تم اپنی لذیذ چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو، پس آج تم کو ذلت والا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور تم نافرمانی کرتے تھے، (الاحقاف: 20)‘‘، (۳) ’’بے شک جب انہیں کہا جاتا تھا: اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو وہ تکبر کرتے تھے، (الصّافّات: 35)‘‘، (۴) ’’کہنے لگے: کیا ہم اس کے باوجود آپ پر ایمان لائیں حالانکہ آپ کی پیروی انتہائی کمزور (اور پسماندہ) لوگوں نے کی ہے، (الشعراء: 111)‘‘، حدیث پاک میں ہے:
نبیؐ نے فرمایا: ’’متکبرین کو مردانہ صورت میں قیامت کے دن چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ان پر ہر طرف سے ذلّت چھائی ہوگی، انہیں جہنم کے ’’بُولس‘‘ نامی قید خانے میں لے جایا جائے گا، آگ کو جلانے والی آگ کے شعلے ان پر بلند ہوں گے اور جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی، جسے ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال‘‘ کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ، (سنن ترمذی)‘‘۔ نبی ؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو چونٹیوں کی صورت میں اُٹھائے گا اور لوگ اُنہیں اپنے قدموں تلے روندیں گے، کہا جائے گا: یہ کون لوگ ہیں، تو بتایا جائے گا کہ یہ متکبرین ہیں، (الترغیب والترہیب)‘‘۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سب بدترین بندے کون ہیں، فرمایا: وہ جو بداخلاق اور متکبر ہو، (مسند احمد)‘‘۔
سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں: ’’جو تمہیں علم سکھائے، اس کے سامنے عاجزی اختیار کرو اور جسے تم علم سکھائو، اس کے سامنے بھی عاجزی اختیار کرو اور متکبر علماء میں سے نہ بنو، (سنن بیہقی)‘‘۔ مسروق بن اجدع فرماتے ہیں: ’’آدمی کے عالم ہونے کے لیے اللہ کی خشیت کافی ہے اور اس کے جاہل ہونے کے لیے اپنے علم پر اترانا کافی ہے، (اَلْفِقْہُ وَالْمُتَفَقِّہ)‘‘۔ یحییٰ بن خالد فرماتے ہیں: ’’اہلِ کرم جب پارسائی اختیار کرتے ہیں تو عاجز بن جاتے ہیں اور کوئی ناکس وکمینہ آدمی جب پارسا بنتا ہے تو متکبر ومغرور ہوجاتا ہے، (کیمائے سعادت)‘‘۔
تکبر ایسی مذموم صفت ہے کہ یہ اپنے ساتھ دیگرکئی برائیوں کو لاتی ہے اور بے شمار خوبیوں سے انسان کو محروم کردیتی ہے، متکبر شخص جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے، اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند نہیں کرسکتا، ایسا شخص عجز وانکسار پر بھی قادر نہیں ہوتا جوکہ تقویٰ اور پرہیزگاری کی جڑ ہے، اپنی شان وشوکت کا بھرم رکھنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، حسد اور کینہ پروری کا مریض ہوتا ہے، دوسروں کی نصیحت اور حق بات قبول کرنے سے محروم رہتا ہے، الغرض متکبر آدمی اپنا بھرم رکھنے کے لیے ہر برائی اختیار کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔