عالم اسلام میں گزشتہ 100برسوں سے اگر ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آتا ہے تو وہ افغانستان ہی ہے۔ اس کے برعکس دنیا بھر کے اسلامی ممالک دل دکھانے والی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ 72برس سے فلسطین اورکشمیر میں مسلمانوں کی شہادتوں، اور وہاں کے عوام پر سیاہ رات کی نہ ختم ہونے والی کہانی کا آخری سرا ملتا ہے اور نہ فلسطین، اور کشمیر میں مسلمانوں پر تاریخ کے بدترین مظالم میں کمی آرہی ہے لیکن اِس گُھپ اندھیرے میں افغانوں کی کامیابی دیکھ کر یہی سبق ملتا ہے کہ عالم اسلام کے حکمرانوں کے پاس ’’جمود کی جگہ جہاد کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا نہ ہے‘‘۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق روس، چین سمیت دنیا بھر کے 12ممالک نے ’’انٹرا افغان مذاکرات‘‘ کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کے لیے افغان حکومت اور طالبان سے رابطہ کیا ہے لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ ابتدائی مذاکرات قطر دوحا میں ہوں گے۔
طالبان اور امریکا کے کامیاب مذاکرات کا فوری فائدہ صرف امریکا کو ہو رہا ہے لیکن ان مذاکرات کی اصل کامیابی انٹرا افغان مذاکرات ہیں، افغانستان سے متعلق امریکا کے نمائندے زلمے خلیل زاد نے حال ہی میں دومرتبہ پاکستان اور افغانستان کا دورہ کیا ہے تاکہ افغان انٹرا مذاکرات جلد شروع ہوسکیں۔ اس دوران وہ دوحا بھی گئے جہاں انہوں نے افغان طالبان کے نمائندوں سے امن کے قیام سے متعلق تفصیلی بات چیت کی ہے۔ جیسا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کرانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ معرض وجود میں آیا ہے۔
قبل ازیں انٹرا افغان مذاکرات 28 اور 29 اکتوبر 2019ء کو بیجنگ اور اس کے بعد روس اور پاکستان میں بھی ہوئے تھے لیکن ان مذاکرات کو امریکا نے ناکام بنا دیا تھا۔ امریکا کا خیال تھا کہ وہ میدانِ جنگ میں طالبان کو شکست دے گا۔ لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ امریکا کو میدانِ جنگ میں شکست ہوئی جس بعد وہ ’’مذاکرات کی میز‘‘ پر آیا۔ انٹرا افغان مذاکرات سے افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی تھی، امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی یورپین، ناٹو اور اقوام متحدہ کے اتحادیوں سے افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
افغانستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ انٹرا افغان مذاکرات کا شروع ہونا ہے جو فی الحال رکا ہوا ہے۔ اس پس منظر میں آرمی چیف قمر جاوید باجوا اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے گزشتہ ماہ کابل کا دورہ کیا تھا اور اشرف غنی کے ساتھ انٹرا افغان مذاکرات کے حوالے سے بڑی تفصیلی بات چیت کی تھی۔ مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فریقین میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کے علاوہ پاک افغان تعلقات بھی زیر بحث آئے۔ نیز اس پر اتفاق ہوا ہے کہ افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان جلد بات چیت شروع کی جائے تاکہ امن کے امکانات کو تقویت مل سکے اور افغانستان میں جنگ کی فضا معدوم ہوسکے۔ جنرل باوجوا نے افغان قیادت کو یہ باور کردیا ہے کہ امریکا ہر صورت میں افغانستان سے نکل جانا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ جب ہی ممکن ہوسکے گا۔ جب افغان طالبان اور کابل حکومت بات چیت کی روشنی میں ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوسکیں جو افغانستان میں ایک اتحادی حکومت بنانے کا راستہ ہموار کرسکے۔ کیونکہ اتحادی حکومت کا قیام ہی افغانستان میں پائیدار امن کا ضامن ہوسکتا ہے۔ افغان طالبان اس حقیقت سے واقف ہیں‘ اور یہ ادراک رکھتے ہیں کہ سیاسی‘ معاشرتی اور ثقافتی طور پر بٹے ہوئے افغانستان میں امن صرف مخلوط حکومت کے قیام ہی سے ممکن ہوسکتا ہے‘ ورنہ افغان طالبان ماضی کی طرح افغانستان میں اکیلے حکومت نہیں کرسکیں گے اس صورت میں ان کے خلاف مسلح مزاحمت بھی شروع ہوسکتی ہے۔
دراصل جنرل باجوا اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات خاصی نتیجہ خیز رہی ہے۔ اور پاکستان نے عبداللہ عبداللہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے انہوں خوشدلی سے اس دعوت کو قبول بھی کیا ہے پاکستان کی عسکری قیادت نے اشرف غنی اور اس کے رفقا کو انٹرا افغان مذاکرات کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگر انٹرا افغان مذاکرات میں مزید تاخیر ہوئی تو اس صورت میں وہ عناصر فائدہ اٹھائیں گے جو ابتدا ہی سے امن معاہدے کے خلاف ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی انٹرا افغان ڈائیلاگ کو شروع کرانے میں پاکستان کا کردار اہم اور واضح ہے۔ اس تاریخی معاہدے کی روشنی میں انٹرا افغان مذاکرات ناگزیر ہوچکے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے کابل میں مفاہمت کے ذریعہ ایک اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔ امریکا بہادر انٹرا افغان مذاکرات پر اس لیے زور دے رہا ہے کہ وہ جلد اپنی فوجیں وہاں سے لے جاناچاہتا ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف کے دورے کو امریکا کی اشیرواد حاصل تھی بلکہ یہ لکھنا درست ہوگا کہ امریکا کی خواہش کے مطابق پاکستان کی عسکری قیادت نے کابل کا دورہ کرکے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کرکے یہ باور کرادیا ہے کہ پاکستان ہر قیمت پر امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرے گا اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہونے سے دنیا بھر میں یہ تاثر جائے گا کہ افغان طالبان حقیقی معنوں میں امن چاہتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ بات چیت کا اشارہ دے دیا ہے۔ اگر جلد یہ سلسلہ (بات چیت کا) شروع ہوجاتا ہے تو اس کے افغان عوام پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوںگے جو 19سالہ افغان جنگ سے تنگ آچکے ہیں۔ امریکا کی جانب سے افغانستان جیسے غریب ملک پر جنگ مسلط کرنا ایک بڑی حماقت تھی‘ اور حماقت کا نقصان بھی اسی کو ہوتا ہے جس سے حماقت سرزد ہوتی ہے اسی طرح کی حماقت سوویت یونین (اب رشین فیڈریشن) نے کی تھی جس کی سزا تاریخ کے صفحات پر چھپی ہوئی ہے جو بعد میں ٹوٹ کر بکھر گیا۔
تاہم اس ضمن میں یہ بات بھی سب کو معلوم ہے افغانستان میں ایسے اندرونی اور بیرونی عناصر موجود ہیں جو کسی بھی طرح کے امن معاہدے کے خلاف ہیں ان عناصر میں بھارت کا منفی رویہ سب کے سامنے ہے۔ خاص طور شمالی اتحاد کے رہنماء عبداللہ عبداللہ اور مارشل عبدالرشید دوستم سے بھارت کے قریبی تعلقات ہیں۔ بھارت نے سرمایہ کاری کی آڑ میں پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی ایک کھیپ تیار کی ہے جو اکثر پاکستان پر دہشت گردانہ حملے کرکے اس کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے راستے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کو پھیلانے میں امریکا اور خود افغان حکومتوں کے کردار سے صرف ِنظر نہیں کیا جاسکتا، ان سب نے ملکر پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے کا تہہ کرلیا تھا۔ لیکن افواج پاکستان اور عوام نے باہم مل کر سامراجیوں کی اس گھنائونی سازش کو ناکام بنادیا ہے بلکہ اس کو دفن بھی کردیا ہے۔ تاہم پاکستان ماضی کے تلخ حالات کے پیش نظر خاصہ چوکس ہے‘ بھارت پر کسی قسم کا بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ جموں وکشمیر کے حالیہ واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ بھارت پاکستان اور مسلمانوں کا ازلی دشمن تھا اور رہے گا جس سے بھلائی کی امید رکھنا عبث ہے۔