جنگ کے اصول

381

جنگ کے دو اہم اصول ہوتے ہیں دفاع اور حملہ۔ مگر ہم صرف دفاع پر یقین رکھتے ہیں اور پھر قوم کو بڑی دیدہ دلیری سے یہ باور کراتے ہیںکہ ہم نے دشمن کا منہ توڑ دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ کیسا منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے کہ دشمن دوسرے دن پھر حملہ کردیتا ہے۔ کیا کوئی اس کا جواب دینا پسند کرے گا؟ اس ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ صرف دفاع تک محدود رکھنے کا مقصد دشمن سے خوف زدہ ہونے کا سبب تو نہیں۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر رہے ہیں اور بھارت کو منہ توڑ نہیں گردن توڑ جواب دے رہے ہیں اور ہم صرف دفاع کررہے ہیں۔ مگر ایسا کب تک چلتا رہے گا دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی گردان سن سن کر ہمیں ایک دوست کی یاد آجاتی ہے اس کی اہلیہ میکے گئی ہوئی تھی مگر وہ مقررہ وقت سے ایک دن قبل ہی آ دھمکی۔ دروازے پر دستک دینے سے قبل اس نے پچھلا دروازہ بند کردیا تھا شاید اس کی چھٹی حس بیدار ہوگئی تھی۔ ہمارے دوست نے دروازہ کھولنے سے پہلے پچھلا دروازہ کھولنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا مجبوراً اسے سامنے کا دروازہ ہی کھولنا پڑا۔ بیگم صاحبہ دنداناتی ہوئی کمرے میں گئیں اور ایک عورت کو بالوں سے پکڑے ہوئے برآمدے میں آگئیں اور شوہر محترم سے استفسار کیا کہ یہ ماں یہاں کیا کر رہی ہے۔ اور پھر عورت کو چھوڑ کر شوہر کی طرف بڑھی اور مرچیں پیسنے والا ڈانڈا شوہر کے سر پر رسید کردیا۔ مگر شوہر محترم کی قوت برادشت اور تحمل مزاجی قابل دید تھی۔ سر پر ہاتھ لگایا تو انگلیاں خون میں تر ہوگئیں۔ وہ بڑے اطمینان سے بولے یار یہ کیا کیا تو نے تو میرا سر ہی پھاڑ دیا۔ اور پھر بیگم صاحبہ عورت کی طرف متوجہ ہوئیں مگر وہ عورت موقع غنیمت جان پر رفو چکر ہوچکی تھی۔ غالباً ہمارا دشمن بھی دوسرے دن آ کر کہتا ہے یار یہ کیا کیا ہے۔ میرا منہ ہی توڑ دیا ہے۔
بزرگ بتاتے ہیں کہ پاک و ہند کی تقسیم سے قبل جب کسی ہندو سے لڑائی ہوتی تھی تو وہ دیوار میں سے اینٹ نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا تھا آج میں تیرا سر پھاڑ کر ہی دم لوں گا اور مسلمان کہتا تھا اچھا میں بازار سے سودا لے آئوں جب تک تم اینٹ نکالو۔ غور طلب امر یہ ہے کہ آج ہندو کو اتنی جرأت کیسے ہوگئی ہے کہ جب چاہتا ہے ہم پر حملہ کردیتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں بھارت نے سرحدوں پر اپنی فوج تعینات کردی اس وقت انڈیا میں کرکٹ کا میچ ہورہا تھا جنرل ضیاء الحق انڈیا گئے اور کھیل کے میدان میں جاپہنچے۔ بھارت کے وزیرا عظم کو گلے لگایا اور کہا ہمارے ایٹم بم شو پیس نہیں ہیں انڈیا کو بیس منٹ میں نابود کرسکتے ہیں مگر اس سے دونوں ملکوں میں تباہی آئے گی۔ اس وقت دنیا میں ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں۔ ہم میں سے جو بھی بچے گا وہ کسی دوسرے اسلامی ملک میں جا بسے گا۔ تم کیا کرو گے کیونکہ دنیا میں کوئی دوسرا ہندو ملک نہیں ہے۔ میں یہی کہنے آیا تھا۔ واپس جا رہا ہوں اگر میرے پہنچے تک فوجیں واپس نہ بلائیں تو پاکستان پہنچے سے پہلے ہی میرے منہ سے نکلنے والا لفظ حملہ ہوگا۔ جرنل صاحب کے پاکستان پہنچے سے پہلے ہی بھارتی وزیر اعظم نے اپنی فوجیں سرحدوں سے ہٹا لیں۔
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے جنرل صاحب کی اس کارکردگی کو کرکٹ ڈپلومیسی قرار دیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کرکٹ کے نامور عالمی کھلاڑی ہیں اس کے باوجود بھی کوئی ایسی پالیسی اختیار نہ کرسکے جیسے کرکٹ ڈپلومیسی جیسا نام دیا جاسکے۔ عمران خان سیاست میں تبدیلی کا عزم لے کر آئے تھے مگر تبدیلی ان سے کوسوں دور ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ سیاست میں آنے سے پیش تر ملکی سیاست کا مطالعہ نہ کرسکے سابق حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ نہ لے سکے۔ وہ ملکی سیاست کا بغور جائزہ لیتے تو علم ہوتا کہ پاکستان میں وزیر اعظم مختلف شعبہ جات کے سیکرٹریوں کا دست نگر ہوتا ہے، وہ وزیر اعظم کے کسی کے حکم کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کردیتے ہیں اور وزیر اعظم اپنے بال نوچتا رہ جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی کارکے سامنے ایک بوڑھی خاتون آگئیں اور فریاد کی کہ اس سے جینے کا حق نہ چھینا جائے وضاحت چاہی تو اس نے بتایا کہ اس کا شوہر سرکاری ملازم تھا اس نے مکان بنوانے کے لیے قرض لیا تھا جب تک زندہ رہا باقاعدگی سے قسطیں ادا کرتا رہا مگر پنشن کے بعد یہ ممکن نہ رہا اب آخری نوٹس ملا ہے کہ قسطیں ادا کرو ورنہ مکان نیلام کردیا جائے گا۔ صرف پچاس ہزار روپے بقایا ہیں کئی بار درخواست کی کہ یہ معاف کردیے جائیں مگر ہر درخواست کے ساتھ قسط کی ادائیگی کا نوٹس بھیج دیا جاتا ہے۔ جنرل صاحب نے بہت کوشش کی کہ پچاس ہزار روپے معاف کردیے جائیں مگر ناکام رہے تنگ آ کر انہوں نے کہا اربوں روپے معاف کردیے جاتے ہیں مگر ایک بیوہ کے پچاس ہزار روپے کیوں معاف نہیں کیے جارہے خیر خواہوں نے مشورہ دیا کہ ایسا کوئی قانون نہیں قرض معاف ہوسکتا ہے قسطیں نہیں۔ آپ اپنے صوابدیدی فنڈ سے پچاس ہزار روپے دے کر بیوہ کی جان چھڑا سکتے ہیں اگر عمران خان ایسے معاملات کا حل ڈھونڈ کر اقتدار میں آتے تو یقینا عوام کے بھی لاڈلے بن جاتے۔