کلبھوشن کہانی کا آخری موڑ؟

482

پاکستان کی قید میں بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو بھارت کی عالمی رسوائیوں کا سامان اور اشتہار بن کر رہ گئے ہیں۔ بھارت نے گزشتہ دہائیوں میں مغرب میں پاکستان مخالفت کی ساری لہر اس بیانیے کے ساتھ اُٹھائی تھی کہ امریکا اور اسرائیل کی طرح بھارت بھی اسلامی دہشت گردی کا شکار ہے۔ بھارت نے دنیا کے انوکھے ’’مظلومین‘‘ کی ایک خود ساختہ مثلث بنا کر پاکستان کو دنیا میں یکا وتنہا کرنے کی ہر ممکن کو شش کی۔ کلبھوشن کی صورت میں پاکستان کو آخر کار وہ دلیل اور ثبوت ملا کہ جس سے وہ دنیا کو یہ باور کرانے لگا کہ بھارت اپنے اوپر مظلومیت کی جو چادر تانے ہوئے ہے وہ صرف نمائشی اور مصنوعی ہے حقیقت میں بھارت ریاست کی سطح پر پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری میں مصروف ہے۔ اس ایک شخص کے ہاتھ آجانے نے بھارت کے عالمی سطح پر پھیلائے گئے موقف پر پانی پھیر دیا۔ دنیا کو یہ اندازہ ہوا کہ خطے میں ہونے والے واقعات میں بھارت اس قدر مظلوم اور دہشت گردی کا مارا بھی نہیں جتنا کہ وہ خود کو بتا رہا ہے حقیقت میں وہ پاکستان کے اندر بھی دہشت گردی اور سبوتاژ کی کارروائیوں میں مصروف ہے اور یوں معاملہ یک طرفہ اور مسلط کردہ دہشت گردی سے زیادہ پراکسی وار اور ادلے کے بدلے کا ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد عالمی سطح پر پاکستان مخالف ماحول اور منظر بدلنے لگا تھا اور پاکستان کو دنیا کی ہر دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کرنے کی مہم میں مرحلہ وار کمی آنے لگی تھی۔
کلبھوشن کی گرفتاری ایک فرد کی گرفتاری نہیں تھے بلکہ بھارت کے یک طرفہ مظلومیت کے بیانیے کی دیوہیکل عمارت کے زمین بوس ہونے کا آغاز بھی تھا۔ اس بیانیے کو گھڑنے او ر اسے دنیا کے سامنے سچ بنانے کے لیے بھارت نے عالمی سطح پر برسوں بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ کلبھوشن نے پاکستانی اداروں کے جال میں پھنس کر ایران سے پاکستان منتقل ہو کر بھارت کی سرمایہ کاری کا یہ ٹائٹینک ڈبو دیا اور یوں وہ خود اپنے ملک کے ’’راجا پورس کا ہاتھی‘‘ بن کر رہ گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کلبھوشن کی گرفتاری کے وقت بھارت نے بہت زوردار سفارت کاری کے ذریعے اسے بازیاب کرانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے جن کی براہ راست نگرانی میں کلبھوشن یادیو پاکستان میں آپریشن کرتا رہا ہے پاکستان کی منت ترلے سے دھمکی تک ہر حربہ استعمال کیا کہ کلبھوشن کو رازداری سے واپس لے جایا جائے۔ یہ پاکستان کا وہ جوابی دائو تھا جس کے انتظار میں اس نے بہت وقت بھی کاٹا اور بہت سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی بھی کی تھی۔ پاکستان میں دہشت گردی کے نام پر بھارت ہر بار پتلی گلی سے نکل جاتا تھا کیونکہ پاکستان میں ایسی کارروائیوں میں کوئی بھارتی شہری براہ راست ملوث نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح کی اکثر کارروائیاں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے وغیرہ کرتے تھے جو پاکستانی شہری ہوتے تھے اور بھارت کے اس موقف میں وزن ہوتا تھا کہ ہم کیا کرتے ہیں لڑنے والے اور حملے کرنے والے تو پاکستانی شہری ہیں۔ کلبھوشن کے ہاتھ آنے سے چہرے کے نقاب اور ہاتھوں کے دستانے سب کچھ اتر گیا۔ کلبھوشن کی موت سے زیادہ اس کی زندگی پاکستان کے لیے اسی طرح اہم ہو کر رہ گئی جس طرح ایک دور میں اجمل قصاب کی موت سے زیادہ اس کی زندگی اور شہرت بھارت کی مجبوری تھی۔
کلبھوشن کو چھڑانے کے اجیت دووال کی منت سماجت اور دھمکی کام نہ آئی تو بھارت نے سودے بازی کی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل حبیب کو جھانسا دے کر نیپال بلا کر اغوا کر لیا۔ کرنل حبیب کو نیپال سے بھارت منتقل کیا گیا مگر آگے کیا ہوا؟ کسی کو معلوم نہیں مگر کلبھوشن کو رہائی نہ مل سکی اور کرنل حبیب بھی واپس نہ لوٹ سکے۔ آخری چارہ کار کے طور پر بھارت نے عدالتی آپریشن کے ذریعے کلبھوشن کو چھڑانے کی کوشش کی۔ یہ آپریشن عالمی عدالت انصاف کے ذریعے کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ بھارت کو یقین تھا کہ عالمی عدالت انصاف پاکستان کے موقف کو مسترد کرکے کلبھوشن کو رہائی دے گی یا پھر انہیں اس بات کا اعتماد تھا کہ پاکستان کو اس کیس میں ہاتھ ہلکا رکھنے پر آمادہ کر لیا جائے اور پاکستانی وکیل جب کیس کمزور کریں گے تو عدالت کے پاس کلبھوشن کی رہائی کا فیصلہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ پاکستان نے کچھ کمزوریاں دکھانے کے بعد کلبھوشن کا کیس ایک بہترین وکیل کے ذریعے لڑا اور ثبوت بھی اس قدر مضبوط اور ناقابل تردید تھے کہ عالمی عدالت انصاف کلبھوشن کے لیے کچھ جزوی رعایتوں کا فیصلہ تو دے سکی مگر اس کی رہائی اور بے گناہی کا فیصلہ نہ دینے پر قادر نہ رہی۔ گویا کہ کلبھوشن کو اپنی بے گناہی کا مقدمہ نئے سرے میں پاکستانی عدالتوں اور عدالتی نظام کے ذریعے لڑ کر اپنا موقف ثابت کرنا تھا۔
عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کے عدالتی نظام کو بہتر کرتے ہوئے کلبھوشن کو شفاف ٹرائل اور اپیل کے حق میں بہتری کا مشورہ دیا اور آج پاکستان عالمی عدالت انصاف کے اسی فیصلے کے تحت کلبھوشن کو پاکستانی عدالتوں میں مقدمہ لڑنے اور بے گناہی ثابت کرنے کے آخری آخری مواقع دے رہا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی کا آرڈننس اور قونصلر رسائی کا حق عالمی عدالت انصاف کے اسی فیصلے پر عمل ہے۔ بھارت کے پاس پاکستان کی عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں اسی لیے وہ کلبھوشن کو باقاعدہ عدالتی نظام سے گزارنے کا حامی نہیں رہا اس لیے بھارت کو کلبھوشن کا کیس دوبارہ عدالتوں میں لڑنے میں دلچسپی نہیں رہی۔ بھارت اس عمل میں اپنی نئی بدنامی دیکھ رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر انہیں عالمی عدالت انصاف سے اس فیصلے کی توقع ہوتی تو بھارت اپنا کیس وہاں ہرگزنہ لے کرجاتا۔ اس سے بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب پاکستان میں نئے عدالتی بکھیڑوں میں بھی کلبھوشن مقدمے کی ہر سماعت ایک بریکنگ نیوز ہو گی۔ ہر بریکنگ نیوز کے بعد کلبھوشن کا تعارف پورے سیاق وسباق کے ساتھ دہرانا لازم ہو گا اور ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا بات پہنچی تیری جوانی تک کے مصداق کلبھوشن کا نام آئے تو بات بھارت کی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں تک جا پہنچے گی۔ یہ پاک بھارت میڈیا ہی کا نہیں عالمی ذرائع ابلاغ کی دلچسپی کا سامان بھی ہوگا۔ بھارت نے پاکستان کی طرف سے دی سہولتوں سے فائدہ نہ اُٹھانے کا فیصلہ کرکے حقیقت میں کلبھوشن کی گردن کے گرد بندھی رسی کو کچھ مزید سخت کرنے کا سامان کردیا ہے۔ جو لوگ اسے کلبھوشن کی رہائی کی جانب پیش قدمی سمجھتے ہیں وہ حالات پر پوری نظر نہیں رکھتے حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت نے کلبھوشن کو پھانسی گھاٹ کی طرف دھکیل دیا تاکہ بدنامی کا یہ باب بند ہو مگر پاکستان کو کلبھوشن کہانی کو بھارتی خواہشات پر ختم کرنے کے بجائے ابھی اسے اچھے اچھے موڑ دے کر اور زندہ رکھنا چاہیے کہ کلبھوشن کی موت سے زیاد ہ اس کی زندگی سے بھارت کو اب تکلیف محسوس ہونے لگی ہے۔