چین نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ 7جولائی کو ایک اجلاس منعقد کیا جس میں ایران کو سی پیک میں شامل کرنے کے لیے عرب اورخاص طور پر سعودی عرب کو ہر طرح سے اطمینا ن دلانے کی کوشش کی کہ ا یران کی ’’سی پیک کمپری ہنسیو اسٹرٹیجک ڈیل‘‘ (سی پیک کی مکمل ڈیل کو ’’سی پیک کمپری ہنسیو اسٹرٹیجک ڈیل‘‘ کہا جاتا ہے) سے چین سعودی عرب ڈیل میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس اجلاس میں متحدہ عرب امارات، مصر، قطر اور علاقے کے دیگر ممالک بھی شریک تھے۔ چین نے سعودی عرب، مصر، ترکی، اسرائیل اور عرب امارات کو بھی ’’سی پیک کمپری ہنسیو اسٹرٹیجک ڈیل‘‘ میں شامل کر رکھا ہے اس کے بر عکس قطر کو صرف ’’سی پیک اسٹرٹیجک ڈیل‘‘ میں شامل کیا گیا ہے۔
ایران کے ’’سی پیک کمپری ہنسیو اسٹرٹیجک ڈیل‘‘ میں شامل ہونے کے بعد جنوب مغربی ایشیاء بلکہ پورے خلیج پر چین کی رسائی ممکن ہو سکے گی اور امریکا اور بھارت کا یہ خواب کہ وہ چاہ بہار سے جنوب مغربی ایشیاء بلکہ پورے خلیج پر چین کی رسائی ناممکن بنا سکیں گے چکنا چور ہو گیا ہے۔ اس ڈیل کی سب سے بڑی مخالفت اسرئیل کی جانب سے سامنے آئی ہے، اسرئیل کاکہنا ہے کہ ’’چین سے ملنے والا ہر ڈالر ایران اسرائیل کے خلاف خرچ کر گا‘‘۔ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ایران کے سی پیک میں شامل ہونے سے اسرئیل اور ایران کے درمیان وہ غلط فہمی جو امریکا نے پھیلا رکھی ہے کو ختم کرنے میں آسانی ہو گی۔ بھارت سے دوستی کا بھرم رکھنے والے ایران کا سی پیک میں شامل ہو نا مجبوری ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکا کی طویل اقتصادی پابندیوں اور ایٹمی تنصیبات پر حملوں کے بعد وہ بھارت سے دوستی رکھنے کی وجہ سے خطے میں تنہارہ گیا تھا لہٰذا چین کی پناہ میں جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا، چین کے ساتھ ایران کے معاہدوں میں مغربی میڈیا نے خیال آرائی کی ہے کہ اقتصادی تعاون کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات پر بھی طویل المدتی معاہدات ہوئے ہیں ایران نے ملک میں ہونے والے بم دھماکوں میں کمی کے لیے بھی چین سے مدد کی درخواست کی ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان معاہدوں میں پاکستان کا کردار اہم ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو پڑوسیوں کے ساتھ یکساں تعلقات قائم رکھنے میں چین کس حد تک کامیاب رہے گا؟ پاکستان میں ایک عشرے پہلے سی پیک شروع کیا گیا تھا پہلے اس کا حجم 35ارب ڈالر تھا جو بڑھ کر 57ارب ڈالر ہوگیا ہے یہ قرضوں اور گرانٹ کا ملغوبہ ہے اور مغربی میڈیا اور امریکا کے مطابق شرح سود 8فی صد رکھی گئی ہے جس کی ادائیگی پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات کا سبب بنے گی لیکن چین کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے وہ جانتا ہے کہ پاکستان اس کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔
ایران چین ’’سی پیک کمپری ہنسیو اسٹرٹیجک ڈیل‘‘ پر اسرئیل کے بعد امریکی ترجمان نے فرمایا کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہے جس کے ذریعے چین دنیا کے وسائل اپنے تصرف میں لینا چاہتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کالونی دور کی یادگار ہے جبکہ اس وقت دنیا میں جدید کالونی نظام رائج ہے جس کا آغاز گزشتہ صدی میں امریکا، برطانیہ نے شروع کیا تھا جس میں بعد میں فرانس بھی شامل ہو گیا تھا۔ جس کے منفی اثرات سے آج بھی کشمیر، فلسطین لہو لہان ہیں اور انسانیت کے بدترین مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ امریکی ترجمان کے مطابق چین نے جدید نو آبادیاتی نظام کو نئی طرح دی ہے وہ دوستی کے نام پر آگے بڑھ رہا ہے اگرچہ امریکا ساؤتھ چائنا سی پر چین کے ساتھ تنازع کھڑا کررہا ہے تو جواب میں چین نے خلیج میں اس کی شہہ رگ پر ہاتھ ڈال دیا ہے۔ پاکستان کے بعد ایران جو رقبہ اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے اس کی جھولی میں آگرا ہے، ایران کو امریکا اور اس کے عرب اتحادیوں سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن ’’سی پیک‘‘ میں ایران کی شمولیت کے بعد اب حالات میں بہتر ی کے وسیع امکانات ہیں اور یہ بات امریکا کو قطعی پسند نہیں ہے۔
ایران نے چند سال قبل بھارت کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور چاہ بہار پورٹ کی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا لیکن انڈیا کی غیر ذمے داری سے یہ پورٹ سست روی کا شکار ہے جس سے دلبرداشتہ ہوکر ایران نے چاہ بہار سے زاہدان تک ریل کے منصوبے سے انڈیا کو نکال دیا توقع ہے کہ یہ منصوبہ چین مکمل کرے گا۔ فی الحال چین اور ایران کا معاہدہ 25سالہ ہے لیکن اس میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ چین ایران میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ شروع کرکے بھاری سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے چونکہ سستے داموں تیل کی فراہمی کا معاہدہ بھی ہوا ہے اس لیے ایران کے لیے چینی قرضوں کی ادائیگی آسان ہے ایسے وقت میں ایرانی تیل کا کوئی خریدار نہیں ہے اور مودی نے امریکی خوف سے ہاتھ کھینچ لیا تو چین کی خریداری ایران کے لیے ایک بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔
چین کی ایران آمد کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، وہ سلک روڈ کا شریک بھی ہے ہمالیہ میں چین اور پاکستان میں واحد قدر مشترک یہ ہے کہ ہندوستان ان کا مشترکہ دشمن ہے۔ ایران کی ایسی صورتحال نہیں ہے چین پاکستان کے جغرافیہ سے فائدہ اٹھاکر ہندوستان کو سبق سکھا سکتا ہے جبکہ ایران کو دشمنی مول لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایران کی اپنی جغرافیائی اہمیت ہے اگر گوادر کے بعد چین نے کوئی ایرانی بندرگاہ لیز پر حاصل کرلی یا اس نے افغانستان تک ریل اور روڈ کا منصوبہ بنایا تو افغانستان ٹرانزٹ روٹ وہی ہوجائے گا اس کے علاوہ چین ایران کے راستے ایشیائے کوچک تک اپنی منڈیوں کو فروغ دے گا۔ چین کا پروگرام ہے کہ وہ یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرے اگر اس نے جارجیا کو بیلٹ اور روڈ منصوبے میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تو درمیان میں ترکی حائل ہوگا لیکن چین خلیج کو پاٹنے کے لیے قبرص اور یونان کا راستہ نکال سکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا اپنی موجودہ پوزیشن سے پسپائی اختیار کررہا ہے اس کے برعکس چین 50سال آگے کے منصوبے بنارہا ہے۔ امر یکا کو آج ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد آرہی ہے۔ اُس کو یہ بات معلو م ہوگی کہ پورے ہندوستان میں کمزور کمزور ریاستوں نے اس کمپنی کے بھاری بھاری ہتھیاروں کا مقابلہ کیا اور چین کو یہ ساری تاریخ اچھی طرح یاد ہے۔ چین کو یہ بھی علم ہے ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے اتحادیوں برطانیہ، فرانس، اسپین نے چین پر 1850ء سے 1949ء تک کس طرح دھاوا بولا، تائیوان اور ہانگ کانگ سمیت متعدد بندر گاہوں اور جزائر پر اپنی توسیع پسندانہ پالیسوں تحت قبضہ کیا اور اُس وقت ہزاروں ڈالر تاوان ِ جنگ چین سے وصول کیا۔ اس کے علاوہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اتحادیو ں نے جنگ عظیم دوم کے دوران ساؤتھ ’’چائنا سی‘‘ کے ملک چاپان پر ایٹم بم گراکر اپنی فتح کو یقینی بنایا۔ ’’امریکا کی اس انسانیت سوز حرکت پر پوری انسانیت کا سر شرم سے جھُک گیا‘‘ تھا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ امریکا اور دیگر سامراجی قوتوں یاد رکھنا چاہیے کہ توسیع پسندی ہمیشہ برقرار نہیں رہ سکتی اور یہ بات چین سے زیادہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔