میں نہ مانوں

312

حکمرانوں کا عمومی رویہ یہ ہے کہ ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو وہ کبھی اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی بھی اسی قسم کی پارٹی ہے بلکہ ایسی کئی پارٹیوں کا ملغوبہ ہے تو اس میں یہ خوبی کیونکر آجائے گی کہ غلطی تسلیم کریں۔ چنانچہ غیر ملکی یا دہری شہریت رکھنے والے مشیروں کے مسئلے پر اب سرکاری قوالی شروع ہو گئی ہے۔ سب سے پہلے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تان اٹھائی ہے کہ دہری شہریت رکھنے والے صرف پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے۔ انہیں کوئی بھی عہدہ رکھنے کا اختیار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے بھی دہری شہریت کی حامل شخصیات حکومتوں میں اہم ذمے داریاں نبھاتی رہی ہیں۔ امور سلطنت چلانے کے لیے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے قانون کے مطابق افراد تعینات کیے۔ وزیر خارجہ کے دعوے کے جواب میں پی ٹی آئی کے اہم وزیر سابق ترجمان موجودہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے غالباً دوسری مرتبہ معقول بات کی ہے۔ اپنی حکومت پر تنقید کرنا بڑی بات ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ ان کی بات میں وزن ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ جب دوہری شہریت والے لوگ رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتے تو کابینہ میں کیسے بیٹھ گئے۔ فواد چودھری نے کہا کہ حکومت ان ہی کی وجہ سے مشکل میں ہے۔ یہی سوال اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیا ہے کہ جو لوگ پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے وہ کابینہ کے اجلاسوں میں کیسے بیٹھ رہے ہیں۔ یہ لوگ کابینہ میں بیٹھتے رہیں گے فیصلے کرتے رہیں گے عدالتیں نوٹس لیتی رہیں ملک کی قسمت کا فیصلہ یہی لوگ کرتے رہیں گے۔ کیونکہ وزیراعظم نے کہہ دیا ہے یا ان کے سلیکٹرز نے کہہ دیا ہے، وہ کسی کے دبائو میں ہیں یا خود پاکستان دشمنی پر اتر آئے ہیں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ کہے گا تو لاپتا کر دیا جائے گا۔ لیکن زوال کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے۔ کبھی زمین بھی تو آنی چاہیے۔ یہ کیسے حکمران قوم کو ملے ہیں جن کے زوال کی کوئی حد نہیں جو پاتال میں بھی سوراخ کرکے مزید گرتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن تو اب اکٹھی ہو رہی ہے جب اس کے دانت نکال دیے گئے ہیں۔ لنگڑا لولا کر دیا گیا ہے یہ اب کیسے حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ دوہری شہریت والوں کے قومی امور کے فیصلے کرنے کی وکالت کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کیا ہوتا ہے وہ صرف اسی معاملے میں کیوں دیکھ رہے ہیں۔ کابینہ کے وزرا کا نام کرپشن میں آنے پہ دنیا بھر میں وزیراعظم یا صدر ان لوگوں سے استعفیٰ لے لیتا ہے۔ ہمارے حکمران ایسا کیوں نہیں کرتے۔ شاہ محمود صاحب فرماتے ہیں کہ امور مملکت (سلطنت) چلانے کے لیے شعبہ جات کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ شہزاد اکبر اس سے قبل کب اور کہاں احتساب کرتے رہے اور اس کی اسناد کہاں ہیں۔ اسی طرح تانیہ عیدروس ملازمت کرتے کرتے ڈیجیٹل پاکستان بنانے لگیں اس سے قبل کون سی جگہ کو ڈیجیٹل بنایا تھا اور وہ عالمی سطح پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مستند ماہر ہیں۔ کسی ایک مشیر یا معاون خصوصی کے بارے میں یہ بتا دیا جائے کہ وہ اپنے شعبے کے ماہر ہیں اور کیا 22 کروڑ کے ملک میں پی ٹی آئی اور اس کے سلیکٹرز کو ان شعبوں کا کوئی ماہر نہیں ملا کہ بیرون ملک سے ماہرین بلوائے گئے۔ اپنے ملک کے لوگوں پر عدم اعتماد کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔