نیب کی ساکھ ختم ہو گئی

316

قومی احتساب بیورو المعروف نیب کی کارکردگی پر حزب اختلاف نے جب بھی کوئی اعتراض کیا تو عمرانی حکومت نے یہی جواب دیا کہ یہ ادارہ ہمارا قائم کردہ نہیں اور اس کا سربراہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتفاق سے مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی اب بھگتو۔ یہ بات تو صحیح ہے لیکن نیب کی حیثیت ایک تلوار کی طرح ہے۔ یہ جس کے قبضے میں ہوگی، مخالفین پر چلے گی۔ اس میں تلوار بنانے والے کا کوئی عمل دخل نہیں رہتا۔ چنانچہ مذکورہ دلیل بے معنیٰ ہے۔ لیکن اب تو نیب کی کارکردگی بلکہ حکمرانوں سے اس کے گٹھ جوڑ کے بارے میں عدالتیں بھی مسلسل تنقید کر رہی ہیں۔ گزشتہ پیر کو عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں نے خواجہ برادران کے مقدمے میں تفصیلی فیصلہ دیتے ہوئے نیب پر بہت کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ’’نیب کیس انسانی تذلیل کی بدترین مثال ہے، پاکستان میں جمہوری اقدار کا مطابق اڑایا جا رہا ہے۔‘‘ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ نیب متنازع ہے اور احتساب یکطرفہ ہو رہا ہے۔ اس تبصرے کے پیش نظر حزب اختلاف اگر یہ کہے کہ یہ سب نیب، نیازی گٹھ جوڑ ہے تو اس میں کیا غلط ہوگا۔ اگر احتساب یکطرفہ ہو رہا ہے تو ظاہر ہے کہ حزب اختلاف ہی کو پکڑا جا رہا ہے اور مافیائوں کے جو سرغنہ عمران خان کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا کہ عمران خان کی اجازت نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نیب کا مقصد وفاداریاں تبدیل کروانا، سیاسی جماعتیں توڑنا، مخالفین کا بازو مروڑنا اور انہیں سبق سکھانا ہے، نیب کی ساکھ اور غیر جانبداری مجروح ہو چکی ہے۔ اب کیا اس کے بعد بھی نیب کا وجود برقرار رہ سکے گا، کیا نیب کے سربراہ اور ان کے پشت پناہ شرم نہیں کریں گے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ خواجہ برادران پر عاید پیراگون کیس کی سماعت کرتے ہوئے دیا ہے اور کہا ہے کہ نیب زمینوں پر قبضے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی حالانکہ خواجہ سعد اور سلمان رفیق 16 ماہ سے نیب کے شکنجے میں تھے۔ اب عدالت نے ان کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ عدالت اسی وقت ضمانت منظور کرتی ہے جب استغاثہ جرم ثابت نہ کر سکے یا معاملہ مشکوک ہو۔ ایسے میں ضمانت رہائی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم نے اپنے تفصیلی فیصلے میں مہذب معاشروں کا حوالہ دیا ہے کہ وہاں کسی کو مجرم قرار دینے کے بعد سزا شروع ہوتی ہے، ٹرائل سے پہلے یا اس دوران میں سزا اذیت کا باعث ہے۔ آئین میں انسانی احترام کا حق غیر مشروط ہے جو کسی بھی حالت میں ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن نیب ایک طرف لوگوں کو برسوں جیل میں سڑا دیتا ہے، دوسری طرف بڑے مالی الزامات پر بھی کچھ نہیں کیا جاتا۔ یہ اشارہ ان لیٹروں کی طرف ہے جنہوں نے حال ہی میں چینی، پیٹرول اور اب گندم کا بحران پیدا کیا ہے۔ حکومت نے واضح ثبوتوں کے باوجود کسی کو نہیں پکڑا، بس کمیشن بنا کر اور اس کی رپورٹ عام کرکے چین سے بیٹھ گئی۔ چینی کا بحران پیدا کرنے والے سب سامنے ہیں۔ ان میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا نام بھی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان مصر ہیں کہ وہی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہیں گے حالانکہ عمران خان نے خود بھی پنجاب میں کرپشن بڑھنے کا اعتراف کیا ہے۔ محاورہ ہے کہ ’’جسے پیا چاہے وہی سہاگن کہلائے۔‘‘ عثمان بزدار بھی چہیتوں میں سے ہیں اور ایک اے ٹی ایم جہانگیر ترین دسترس سے بہت دور لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے مہذب معاشروں کا حوالہ دیا ہے لیکن پاکستان میں ایسے معاشرے کا کوئی تصور ہی نہیں رہا۔ بس یہ ہے کہ جسے چاہو پکڑ کر جیل میں ڈالو اور بھول جائو۔ عدالت عظمیٰ کا مذکورہ فیصلہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور اس فیصلے کی روشنی میں بہت سے ’’مجرم‘‘ چھوٹ جائیں گے۔ نیب نے نارووال اسپورٹس کمپلکس کے اخراجات میں احسن اقبال کو اور ایل این جی کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف بھی مقدمات قائم کر رکھے ہیں اور احسن اقبال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پکے ثبوت مل گئے ہیں۔ دیکھنا ہے ان کے بارے میں کب اور کیا فیصلہ آتا ہے، نیب تو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔ چنانچہ اب سوال یہ ہے کہ کیا نیب کا ادارہ ختم کر دیا جائے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ احتساب کا کوئی ادارہ ضرور ہونا چاہیے خواہ اس کا نام کچھ ہو۔ لیکن ایسے ادارے کو آئین و قانون کا پابند بنانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جا سکتی ہے جس میں حزب اقتدار و حزب اختلاف کے ارکان شامل ہوں۔